ہاتھ میں ہاتھ نہیں تھا کسی کا بلکہ ہاتھ میں موبائل تھا ۔ ایک قصہ سنایا
جا رہا تھا ۔ کیفیت پہلے ہی بہتر تھی کسی کے لیے اچھا سوچ کر اور اس قصہ نے
اور بہتر کر دی اور دل صاف ہوا تو منظر شفاف ہوا۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک بادشاہ نے کسی صاحب علم سے مستقبل کے بارے میں سوال
کیا ۔ جواب دینے والا میری طرح سیدھی سیدھی بات کرنے والا اور نتائج کی
پرواہ نا کرنے والا ، کہا کہ آپ کی اولاد آپ سے پہلے مرے گی ۔ بادشاہ نے
پرانی ایسٹبلشمنٹ کی طرح گردن تو نا اڑوائ ، لیکن نئ ایسٹبلشمنٹ کی طرح قید
خانے میں ڈلوا دیا ۔ دوسرے صاحب علم سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ آپ اپنی
اولاد سے بھی زیادہ لمبی عمر پائیں گے ۔
بادشاہ خوش ہوا اور بولا ،
تمہیں کیا انعام دیا جاے
صاحب علم نے کہا کہ میرے استاد کو چھوڑ دیں ۔
بات اس نے بھی یہ ہی کہی تھی ، صرف انداز اور تھا۔
آج بات کے انداز سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
ورنہ خاندان ، سیاست، مزہب اور سوشل میڈیا میں خطرناک حد تک خرابیاں جنم لے
رہی ہیں۔
|