جیت کا غم

دارالعلوم میدان پور میںسالانہ انعامی مقابلوں کی گہما گہمی تھی، چھوٹے بڑے لڑکے اپنی اپنی کتابیں سینے سے لگائے اِدھر ُادھر آجارہے تھے۔ہاسٹل سے مسجد ، مسجد سے درسگاہ اور درسگاہ سے بازار تک آنے جانے والے تمام راستے مصروف تھے۔درسگاہ، ہاسٹل،مسجد اور بیس پچیس دکانوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا بازار، بمشکل تمام ایک کلو میٹر کے احاطہ میں رہے ہوں گے ، جنہیں مختلف قسم کی سبزیوں کے ہرے بھرے کھیت ایک دوسرے سے الگ کرتے تھے۔ ان کے درمیان سے تارکول کی میلی اور پتلی سی سڑک شہر تک جاتی تھی۔مسجد گو عالیشان نہ تھی پر صاف ستھری اور پرکشش ضرور تھی،درسگاہ اور ہاسٹل سہہ منزلہ تھے۔ اترپردیش کے ایک مصروف ترین شہر کے مضافات میں شہر کے ہنگاموں سے دور اس چھوٹے سے دارالعلوم میں کم وبیش پانچ سوطلبہ زیر تعلیم تھے۔ جن کو ساٹھ ستر کے قریب اساتذہ اور نوکر چاکر پر مشتمل اسٹاف کنٹرول کرتا تھا۔

بارشوں کا گزرتا ہواموسم تھا، درودیوار پربھی سبزہ اگ آیا تھا۔ہاسٹل کے پچھواڑے چھوٹے سے تالاب نے بھی سبزرنگ کا لباس پہن لیا تھا۔گاؤں کے عاشق مزاج لڑکے پھولے نہ سمارہے تھے کہ پیار ومحبت کو پال پوس کر جوانی کی مینڈھیر چڑھانے کا یہ صحیح وقت تھا۔ ہر چیز سے سوندھی سوندھی مہک اٹھ رہی تھی۔

بارشیں مجھے بچپن ہی سے پسند تھیں، میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ اگر بارشیں نہ ہوتیں تو دنیا کیسی لگتی، شاید روکھی روٹی کی طرح اور شاید بے نمک سالن کی طرح۔مگر دوسرے لڑکوں کا معاملہ ذرا مختلف تھا، یہی بارش جب کلاس کے وقت ہوتی اور اساتذہ کا راستہ روک لیتی توان کے چہرے کھل اٹھتے اور وہ کلاس روم کے سنجیدہ ماحول کو قحبہ خانے کے نشیلے ماحول سے بدل دیتے ۔لیکن اگر یہی بارش شام تک ہوتی رہتی تو ان کے منہ لٹک جاتےآج تمام لڑکے خوش تھے کیونکہ بارش ان کے من مطابق ہوئی تھی دوپہر تک تیز بارش ہوتی رہی کئی اساتذہ اپنے اپنے گھروں میں قید ہوگئے مگر دوپہر ہوتے ہوتے اچھی خاصی دھوپ ہوچکی تھی اور شام آتے آتے اپنے ساتھ ایسا موسم لے آئی کہ ان کی پنڈلیوں کی رگوں میں گرم خون کا بہاؤ تیز ہوگیابعد نمازِ عصرکھیلوں کی دنیا کے بازیگر میدان میں اتر گئے۔میں اپنے کمرے کی بالکنی میں کرسی پر بیٹھا تھا دفعتا ایک منحنی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی”آپ کو ناظم صاحب بلا رہے ہیں“میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔یہ ایک چھوٹی عمر کا لڑکا تھا جو ناظم صاحب کا پیغام مجھ تک پہونچا کر اپنے راستے چلا گیا تھا۔

” تمہیں بیت بازی کی ٹیم اے کا قائد چنا گیا ہے“ابھی میں ان کے کمرے میں داخل ہی ہوا تھا اور ٹھیک سے بیٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ ناظم صاحب کمالِ اطمئنان اور خوش گوار مسرت کے ساتھ گویا ہوئےجیسے اپنی زندگی میں پہلی بار کوئی نیک کام کیا ہو۔اور جنت کے استحقاق کا تمام تر دارومدار اکیلے اسی ایک کام پر ہو۔

میں کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑگیااپنے اندر اور باہر دونوں اطراف میں نظر کی۔ میں کہیں سے کہیں تک بھی اس اعزاز کا مستحق نہیںتھامجھے شعر سے کچھ خاص تعلقِ خاطر نہ تھااور نہ ہی دارالعلوم میں شعر گوئی یا شعر فہمی کے لئے جانا جاتا تھا”یہ ناظم صاحب کا میرے متعلق حسنِ ظن ہوسکتا ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بدرجہ مجبوری قرعہ فال میرے نام نکال لیا ہو“میں نے ایک لمحے کے لیے سوچاکیونکہ ایک میں ہی تھاجو کسی مقابلے میں شریک نہیں تھا۔باقی لڑکے جو ذہین اور محنتی تھے کئی طرح کے مقابلوں میں شرکت کررہے تھے مثلا تقریر،تحریر، تجوید،حفظِ قرآن، نعت خوانی ،کرکٹ، بیٹ منٹن،فٹ بال، لانگ جمپ، ہائی جمپ اور دوڑوغیرہ ایک ایک لڑکے نے چار تا آٹھ چیزوں میں حصہ لے رکھا تھا۔بس ایک میں ہی تھا جو ایک ذہین اور محنتی طالب علم سمجھا جانے کے باجودکسی مقابلے میں شریک نہیں تھاتو ناظم صاحب کا یہ حق بنتا تھا کہ وہ مجھے کسی نہ کسی مقابلہ کے لیے از خود نامزد کردیں۔

اپنی اس غیر مترقبہ نامزدگی کے لیے انکار کا ایک لفظ’ نہیں‘ میرے منہ تک آیا اور ناظم صاحب کے احترام سے بند خشک ہونٹوں میں دب کرٹوٹ گیا اور پھر میری خاموشی کو جس میں انکار کے ہزاروں انداز پوشیدہ تھے رضامندی کی زندہ علامت تصور کر لیا گیااور پھر اس سے پہلے کہ میں اس ٹوٹی بکھری ’نہیں ‘کے غبار کو مجتمع کرپاتا قلم اٹھا لئے گئے اور صحیفے سوکھ گئے۔ عجیب قسم کا خلجان میرے رگ وپے میں دوڑ گیا ”پھنس گیا دلدل میں خر آدھا اِدھر، آدھا اُدھر“میں زیر لب بڑبڑایا۔

اوراگلے لمحے جب میری نظر ایک ہنستے مسکراتے چہرے پر پڑی تو یہ خلجان اپنی انتہا کو پہونچ گیایہ میرا جگری دوست تھا جسے ٹیم بی کا قائد بنایا گیا تھا، گرچہ وہ میرا ہم عمر اور ہم جماعت تھا مگر خاص اس میدان میں میرا اس سے کوئی میل نہ تھاوہ نہ صرف شعر فہمی میں دَرّاک تھا بلکہ شعر گوئی پر ہاتھ صاف کرنا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا شعروشاعری سے نابلد مجھ جیسے سیکڑوں لڑکے اس کے فی البدیہہ کہے گئے اشعار پر سردھنا کرتے تھےہاسٹل سے کلاس روم تک اور چائے خانے سے باتھ روم تک ہم جہاں بھی اسے دیکھتے ہمیشہ گنگناتے ہوئے دیکھتے ۔فکر میں الجھا ہوااور کھویا کھویا ساوہ اپنی اسی شانِ بے نیازی کے ساتھ مسکرا رہا تھاجسے میں گزشتہ پانچ سالوں سے جانتا تھامیں نے بھی مسکرانے کی کوشش کی مگر دفعتا ایک خیال میرے دماغ میں بجلی کی سی سرعت کے ساتھ کوند گیا۔

”جب اس کو ٹیم بی کی قیادت کے لیے نامزد کیا گیا ہوگا تو شاید خود اسی نے میرا نام پیش کیا ہوگا“میں نے دل میں سوچا”تاکہ آسانی سے جیت سکے“پانچ سال کی بے داغ رفاقت میں پہلی بار مجھے اس کی موقع پرستی پر غصہ آیاپھر اس خیال کو شیطانی وسوسہ سمجھ کرجلد ہی دماغ کے تاریک خلیوں سے کھینچا اور دارالعلوم کے پچھواڑے گندے تالاب میں پھینک دیا وہ یقینا ایک مخلص دوست تھا۔

طلبہ کے چوبیس گھنٹے اس طرح تقسیم کردئے گئے تھے کہ انہیں سراٹھانے کی فرصت نہ ملتی تھی۔ اگر کسی دن آموختہ دہرانے سے رہ جاتا اور ٹائم ختم ہونے لگتا تو وہ اپنے سونے کے وقت سے گھنٹے دو گھنٹے مستعار لے لیتے اور عام دنوں کے مقابلے اس دن دیر رات تک جاگتے رہتے، یہ جاگنا پڑھائی کے نام پر ہوتا مگر جب وہ پڑھائی سے فارغ ہوتے تو انہیں لگتا کہ مستعار لیا ہوا یہ وقت پڑھائی میں کم اور باتوں میں زیادہ گزرا ہے،تب انہیں احساس ہوتا کہ اس سے تو بہتر یہی تھا کہ وہ سوجاتے۔سونے کا کم از کم یہی ایک بڑا فائدہ ہے کہ اس سے جسم کو آرام ملتا ہے اور ذہن کو سکون ۔صبح میں انہیں وقت پر ہی اٹھنا ہوتا تھا۔ وہ سونے کے وقت کو موخر کرسکتے تھے ، یہ ان کے اختیار میں تھا مگر اٹھنے کے وقت کو موخر نہیں کرسکتے تھے، یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔

پھر جب دن پوری طرح نکل آتااوران میں سے کسی کو لگتا کہ کم سونے کی وجہ سے جسم درد سے دکھ رہا ہے اور دماغ بوجھل ہو رہا ہے تو وہ تعلیم کے اوقات سے کم وبیش اتنے ہی گھنٹے چرا لیتا،ایک خوبصورت سا عذر تلاش کرتا اور کلاس چھوڑچھاڑچادر اوڑھ کرمزے سے سورہتا۔بعض وہ لڑکے جو کلاس چھوڑنے کی ہمت نہ کرپاتے وہ جسم او ر دماغ کے آرام کے لیے ایک دوسری راہ نکالتے، وہ نیند سے بوجھل ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ کلاس میں داخل ہوتے ،سب سے آخری نشست کاانتخاب کرتے اوربیٹھنے کے بجائے بے جان جسم کے ساتھ بینچ پردھپ سے گرجاتے اورپھر آنکھیں اس طرح موند لیتے جیسے اب قیامت ہی کو اٹھیں گے،مگر ہلکی سی آہٹ پر چونک پڑتے ،نیند سے بوجھل پلکوں کو زبردستی اٹھاتے اور بغل والے لڑکے کی کتاب پر جھک جاتےجیسے وہ صرف پڑھنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہےں۔مگرجب ماحول ذرا پرسکون ہوتا تو پھر نیند کی گہری وادی میں اتر جاتے۔

اور جب کلا س ختم ہوجاتی تو چادر اوڑھ کر سویا ہوا لڑکا جاگتااور کلاس چھوٹ جانے پر افسوس کرتا جسم اور دماغ کے آرام کے لیے دوسری راہ نکالنے والالڑکا اس کی طرف نیند کی کمی کے باعث سوجھی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ، مسکراتا اور کہتا۔

” چل یا ر!اب افسوس کرنے سے کیا ہوگا، تو مجھ سے تو بہتر ہی ہے، میں تو نہ ٹھیک سے سو سکا اور نہ ٹھیک سے درس ہی سن سکا۔تو کم از کم سو تو لیا۔ چل چل کر چائے وائے پیتے ہیں۔“

دس منٹ بعد دونوں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔دماغ کی شریانوںپر جمی ہوئی افسوس کی گہری برفیلی چادر چائے کی گرمی سے پگھلنے لگی اور وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے۔ اورعصر کا وقت آتے آتے وہ اس قابل ہوگئے کہ کھیل میں اچھا مظاہرہ کرسکیں۔

شام کے وقت جب انگارے کی مانند دہکتاہوا سورج سہہ منزلہ ہاسٹل کے عقب میں روپوش ہورہا تھا،ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان کرکٹ کے میدان کو ہاسٹل کی عمارت کے سایوں نے پوری طرح ڈھانپ لیاتھاتوچادر اوڑھ کر سونے والے نے لگاتار تین چھکے لگائے ، آخری شاٹ پر آسمان میں اڑتی ہوئی گیند کو چمکتی نظروں سے دیکھا،وہ بیٹ پر سہارالگائے کھڑا تھااور عین اسی لمحے میں جب گیند ہاسٹل کی سہہ منزلہ عمار ت کے اوپر ڈوبتے سورج کا تعاقب کررہی تھی اس نے داہنے ہاتھ کو چوما ،گیند کو مستی بھری فلائنگ کس کی اوردل میں کہا کہ چادراوڑھ کر سونا کچھ ایسا غلط نہیں۔

جن لڑکوں نے گزشتہ سال کے مقابلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ان کی چال دور ہی سے پہچانی جاتی تھی، ان کا پھولا ہوا سینہ، کھلتی ہوئی بانچھیں اور اچکتی ہوئی ایڑیاں چغلی کھاتی تھیں کہ یہ سالِ گزشتہ کے تیس مارخاں ہیں۔ان کی آنکھوں میں گزشتہ سال کی فتوحات کی سرمستی کے نشے کے باقیات ابھی تک محو نہیں ہوئے تھے اور سالِ رواں کے مقابلوں میں میدان مارنے کے سنہرے خوابوں کی شفق زدہ لہریں آنکھوں کے ساحل تک چڑھ آئی تھیں۔

جو لڑکے نئے تھے یا پہلی بار حصہ لے رہے تھے وہ شش وپنج میں مبتلا تھے اوران کی آنکھوں میں ڈوبتی ابھرتی امید وبیم کی لکیریں صاف بتاتی تھیں کہ اس وقت ان پر کیا گزر رہی ہے۔میری اپنی حالت بھی قریب قریب انہیں جیسی تھی، میں گرچہ اس سے قبل بھی مختلف مقابلوں میں حصہ لے چکا تھامگر کبھی کوئی انعام حاصل نہیں کیا تھا، اس لیے مجھ میں اور ان لڑکوں میں بڑی حد تک مماثلت تھیاور بیت بازی کے مقابلے میں تو میرا یہ پہلا موقع ہی تھااور اس پر طرفہ یہ کہ میں قائد بھی بنا دیا گیا تھامیرے پیٹ میں اینٹھن ہونا فطری بات تھیجب میں ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرتا تو مجھے لگتا کہ میں ان کے سامنے کوتاہ قد ہوں اوردفعتا میرے پیٹ میں زورزور سے مروڑیں اٹھنے لگتیںمیں غیر مرئی انداز سے لمبی لمبی سانسیں لیتااور پیٹ میں ڈھیر ساری ہوا جمع کرلیتااور پھرناک کے ذریعہ اسی طرح آہستہ آہستہ ساری ہوا باہر پھینکتاناپسندیدہ اضطراب کو چھپانے کے لیے یہ عمل مجھے ہمیشہ کارگر محسوس ہوا تھا۔

میری ٹیم کل پندرہ لڑکوں پر مشتمل تھی بظاہر ایسی کوئی بات نہ تھی جس سے پتہ چل پاتا کہ ان کے من میںکیا چل رہا ہے، مگرمیں از خود سوچا کرتا کہ یہ لڑکے میری قیادت سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیںیہ سوچ میرے دل کے مرکزی مقام پر کنڈلی مارکر بیٹھ گئی تھی۔

”ناخوش ہوتے ہیں تو ہوتے رہےں میری بلا سےمیں ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا دماغ کیوں پکاؤں“

اس بے سبب سوچ کی کلفتوں سے نجات پانے کا فی الوقت میرے پاس یہی ایک راستہ تھاکہ میں انہیں خاطر میں نہ لاؤں اور میں نے وہی کیا۔

” مگرتم جیت نہیں پاﺅگے اتنا تو طے ہے۔“ اس کے بعد ہم دونوں جب بھی ناظم صاحب کے پاس ہوتے تو ناظم صاحب یہ بات ضرور کہتے او ر میں اس کو محض دل لگی سمجھ کر خاموش رہتا یا بے معنیٰ سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر طاری کرلیتا۔ مگر جب وہ آتے جاتے بار بار یہ جملہ دہرانے لگے تو میرا من ان کی طرف سے بھی میلا ہونے لگا، اسی پتلی سی میلی سڑک کی طرح جو سالہا سال سے اپنی جگہ پڑی ہوئی تھی ،اکیلی اور کرم خوردہ، جس پر نہ بڑی بڑی بسیں چلتی تھیں اور نہ کبھی بلڈوزر چلا ئے گئے تھے۔اس کی کھال جگہ جگہ سے ادھڑ گئی تھی۔

کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا کہ ان دونوں استاد ،شاگردوں نے میرے خلاف ساز باز کرلی ہےمگر جب ان کی کرم فرمائیوں پر نظر جاتی تو میں اس خیال کو سختی کے ساتھ جھٹک دیتا۔ ایک بار تو میری گردن اتنی زور سے ہل گئی کہ ناظم صاحب مجھے تشویش زدہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ اور میں اس طرح گردن کھجانے لگا جیسے چیونٹی نے کاٹ لیا ہومگر میرے اندرون میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔

پندرہ اگست کی وہ شام جب دوٹیموں کو آمنے سامنے آنا تھا اور ہار جیت کا قطعی فیصلہ ہونا تھا۔ جیسے جیسے قریب آتی جاتی تھی میرا اضطراب اسی قدر بڑھتا جاتا تھا اس شام کے آنے تک ابھی پانچ مزید اضطراب انگیز شاموں کو میرے سر سے گزرنا تھا۔

یہ پانچ اگست کی بھیگی بھیگی شام تھی۔ باہر تاحد نگاہ گہری تاریکی پھیلی ہوئی تھی، سڑک کے کنارے بنی کھائیوں میں بارش کا گدلا پانی بھرا ہوا تھا جن میں ہرے پیلے سینکڑوں مینڈھک ایک آہنگ کے ساتھ ٹرٹرارہے تھے اوردور کسی درخت سے جھینگر کی ڈوبتی ابھرتی تیز سیٹی جیسی آوازدوردورتک پھیلی ہوئی گہری تاریکی پرانجانے خوف کی چادر تان رہی تھی۔ باہر کا ماحول سڑک کی طرف کھلنے والی دو چھوٹی چھوٹی کھڑیوں کی راہ سے کمرے میں گھس آیا تھا۔ہمارے سروں کے پانچ فٹ اوپربجلی کا پنکھا دھیمی رفتار سے چل رہا تھا۔ میں نے کتاب سے نگاہ اٹھائی اور سامنے دوسرے تخت پر خاموش مطالعہ میں گم بی ٹیم کے قائد کو دیکھا دیوانِ غالب، کلیات اقبال ، کلیم عاجز کا دیوان ” وہ جو شاعر کا سبب ہوا“ اور دیگر کئی ساری کتابیں بے ترتیبی کے ساتھ اس کے سامنے بکھری پڑی تھیں۔

اس کے داہنے ہاتھ کی انگلیوں میںپھنسا ہوا قلم ایک بار کا پی پر تیزی کے ساتھ دوڑنے لگتا اور دوسری بار اس کے بے داغ سفید دانتوں کے درمیان ٹہر جاتا اوردیر تک ٹھہرا رہتا ۔ جب قلم کاپی پر پھسل رہا ہوتا تو میرے دل میں شک اپنے چھہ پاﺅوں کے ساتھ جوں کی طرح رینگ جاتا اور میں سوچتا کہ بی ٹیم کو ہرانا کوئی اتنا آسان نہیںاور جب قلم کا عقبی حصہ دانتوں کے درمیان دیر تک پھنسارہ جاتا تو شک رفع ہوجاتا اوریقین دل کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتا اور میں سوچتا کہ بی ٹیم کے خلاف جیتنا کوئی ایسا مشکل نہیں”آہ ! یہ حالت کس قدر قاتل ہے کہ ہم ایک چیز کو قبول کرتے ہیں اور پھر معا بعد اس کو رد کردیتے ہیںقبول کرنے کی بھی ہزاروں وجوہات ہیں اور رد کرنے کی بھی لاکھوں توجیہاتاے کاش! زندگی اتنی پیچیدہ نہ ہوتی“میں نے دل میں سوچا اور ایک بار پھرقدوری کے مشکل مقامات کو حل کرنے میں جسم وجان گھلانے لگا۔

گزشتہ ایک سال سے میں نے کوئی چیز اسے تحفتاًنہیں دی تھی، سوائے اُس ایک عددمار کر پین کے جواس وقت اس کے دانتوںکے درمیان پھنساہوا تھا۔ شاید یہ اس بھیگی بھیگی شام کا اثر تھا کہ میرا دل اس کے لئے نم ہورہا تھا اور اس کے تعلق سے کوئی منفی خیال دل کے کسی گوشے میں کہیں پر بھی موجود نہ تھا۔ اور اس سے پہلے کہ قلم دانتوں سے نکل کر کورے کاغذ پر دوڑنا شروع کرتا میں نے ایک نیت کی
” اگر جیت میری ہوئی۔ اور یقینا ہوگی (ان شاءاللہ) تو میں اپنا انعام اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اس شخص کو بطور تحفہ دے دو ں گا۔“ گزشتہ کئی دنوں سے یہ خیال میرے ذہن کے افق پر چکوروں کی طرح چکر کاٹ رہا تھاپر اب اس کو دل کی گہرائیوں میں کہیں مناسب جگہ دینے کا صحیح وقت آچکا تھا۔

”تم چاہے جتنی بھی محنت کرلو اور جو چاہے کرلو مگر اتنا یاد رکھو کہ جو جیتے گا وہ ہوں میں اور جو ہارے گاوہ ہوتم “میںنے آسمان کی طرف اٹھی ہوئی اپنی نگاہ اور سینہ پر رکھا ہوا ہاتھ دونوں ایک ساتھ نیچے گرایے اور ٹیم بی کے قائد کو مخاطب کرتے ہوئے ذرا جذباتی انداز میں کہا۔

”ہار بھی گیا تو کیا فرق پڑتا ہے آپ ہی سے تو ہاروں گا کوئی غیر سے تھوڑی نہ ہاروں گا“ اس نے کمالِ اطمینان سے جواب دیا، مجھے لگا کہ یہ اپنے قول میں صادق ہے۔ اور پچھلے دو ہفتوں سے منفی خیالات کے جتنے بوم میرے دل کی بوڑھی اور خستہ حال عمارت میں گھونسلے بنارہے تھے دم کے دم میں اس طرح غائب ہوگئے جس طرح صبح ہوتے ہی چمگادڑیں فضا سے غائب ہوجاتی ہیں۔

اس کے بعد پھر کبھی میرے دل میں شک نہیں آیا اور ہم دونوں اور ہماری ٹیمیں تندہی کے ساتھ بیت بازی کی تیاریوں میں مصرف رہیں۔ان آخری دنوں میں ہم دونوں کو ایک ساتھ مل بیٹھنے کا بہت کم موقع ملاتھا۔یہاں تک کہ گیارہ دسمبر کی وہ شام آگئی اور میرے سرپر بیک وقت کئی ساری قیامتیں برپا کرتی ہوئی گزرگئی۔ یقین ہا ر گیا اور شک جیت گیا۔میرے ناچاہتے ہوئے بھی ناظم صاحب کی بات سچ ہوگئی۔اور ٹیم بی کا قائد ایک ایسے شخص سے جیت گیا جس کی شکست اس کوخود اپنی شکست لگ رہی تھی

رات دوسرے پہر میں داخل ہوچکی تھی ، میں نے نوشتہ تقدیر پرھ لیا تھا،ہار جیت کے ان فیصلہ کن لمحات میں میں نے ٹیم بی کے قائد کی طرف دیکھا ، خوشیوں کی ایک لہر اس کے لبوں تک آئی ، اس کی آنکھوں میں مسرتوں کے چند حسین منظر یکے بعددیگر ابھرے اور پھر یکایک غائب ہوگئے اورپھر وہ تھا اور ایک احساسِ ندامت میں نے نظریں ہٹالیں اورسامعین کی بھیڑ کے درمیان راستہ بناتے ہوئے سر جھکائے تیزتیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ اندوہِ شکست کے آنسو میری روح کی گہرائیوں میں کسی نامعلوم مقام پر ٹپ ٹپ گررہے تھے۔ میرے اندر ون میں حمد کا خوگر انسان کسی نامعلوم سبب سے جاگ اٹھا اور اپنے رب کے حضور شکوہ وشکایات کاپٹار اکھول کر بیٹھ گیا۔

”یا اللہ! ایک ذراسی عزت ہی تو مانگی تھی ، کوئی خدائی تھوڑی نا مانگی تھی میری آرزو بس اتنی سی تھی کہ اس سال کے آخر میں جو ہماری دوستی کا آخری سال ہے پھر اس کے بعد کیا پتہ کون کہاں جائےمیں ایک تحفہ اس کو دے سکوںتا کہ وہ جہاں بھی رہے میری ایک یاد گار اس کے پاس محفوظ رہے یا اللہ ! ایک ذراسی عزت بھی تجھ سے نہ دی گئییا اللہ ! کیوں کیا تونے ایساتو تو سہارے جہان کا مالک ہے ہر چیز پر تیری قدرت ہے تو جو چاہے وہ کرسکتا ہےپھر یہ کیا ہے کہ تونے ایک کی سن لی اور دوسرے کی نہیں سنیتوبیک وقت دونوں کی بھی سن سکتاتھااے کاش! تیری خدائی میں کوئی ایسا قانون بھی ہوتا کہ ہم دونوںہی جیت جاتےمگر اے وائے رے محرومیِ قسمت کہ ایسا نہیں ہے“ اور پھر پتہ نہیں کب اور کس طرح نیند کی باہوں میں جھول گیا نیند آئی تو خواب بھی قطار باندھے چلے آئے ۔غم واندوہ کے کالے سائے بند پلکوں تلے رقص کر رہے تھے کہ اچانک تاریک سڑک کے آخری سرے پر ایک نسوانی ہیولیٰ حرکت کرتا ہوا محسوس ہوا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھایہاں تک کہ اس کے نقوش واضح ہوگئے یہ حمیرا تھی، اپنے معصوم چہرے کے ساتھ ، انہیں جادو بھری جاذبیت والی آنکھوں کے ساتھ جنہیں میں اچھی طرح پہچانتا تھا، اپنے میانہ قد کے ساتھ اور کھلتے ہوئے رنگ کے ساتھ حمیرا میری بچپن کی دوست تھی، ہم دونوں اس وقت سے بہت پہلے جب لوگ محبت کے مفہوم سے آشنا ہوتے ہےں کسی جانے انجانے راستے پر چل نکلے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کے خیالات ایک دوسرے سے اس قدر ہم آہنگ ہوگئے کہ میں بعض اوقات سوچنے لگتا کہ میں اپنا آپ کھوتا جا رہا ہوں،اکثر ایسا ہوتا کہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے بعد مجھے یہ خیال دیر تک ستاتا رہتاکہ میں اپنی گفتگو میں حمیرا کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہوںاورمیں نے اپنی فکر کھودی ہے اور میں محض نقل چی بند ر بنتا جارہا ہوں۔ ہر بات حمیراکی اور ہر خیال حمیرہ کا حمیرا حمیرا مجھے اپنے آپ پر غصہ آتا اور جی چاہتا کہ میں اس ناخواندہ لڑکی کا منہ نوچ لوں کہ اس کے حسن کو داغ لگ جائے اور میں اس سے مرعوب ہونااور خود پر اس کو ترجیح دینا چھوڑ دوں۔ مگر اس وقت مجھے اس کی ہمدریوں کی ضرورت تھی تاکہ میں ان جاں گسل لمحات کے بوجھ کو سہار سکوں۔اس سے قبل بھی میں اس کی ہمدردیوں سے حوصلہ پاتارہا ہوںاور وقت کے خلاف جنگ جیتتا رہا ہوں۔ اگر اس کی مسلسل بے تکان مسکراہٹ نہ ہوتی ،اگر اس کی جھیل جیسی آنکھوں کا حسین منظرمیری نگاہوں میں نہ ہوتا تو میں کبھی کا ٹوٹ کر بکھر چکا ہوتا ۔آسمانِ پیر سے مسلسل اترتی ہوئی آفتیں مجھے اسی طرح گھلادیتیں جس طرح یہ بارشیں مٹی کے ڈھیلے کو گھلا دیتی ہیں اس سوچ کا آنا تھا کہمجھے ان مسلسل ہونے والی بارشوں سے بھی کوفت ہونے لگی۔

حمیرا کے لمس کے احساس سے غم واندوہ کے بادل چھٹنے لگے اور میں خود کو بہتر محسوس کرنے لگاکہ اچانک اپنے قریب کسی کے رونے کی آواز سے نیند ٹوٹ گئی۔ پہلے تو مجھے اس پر وہم کا گماں گزرا۔میں نے سوچا کہ شاید یہ بھی خواب ہی کا ایک حصہ ہےاور میں ابھی تک خواب ہی میں ہوں”ہوں خواب میں ہنوز جو جاگا ہوں خواب میں“میری یہ بھی ایک بری عادت ہے کہ مجھے بات بات پر اشعار یاد آتے ہیں اور میںتسکینِ دل کی خاطر جمع متکلم کے تمام صیغوں کو واحد متکلم میں بدل دیتا ہوں۔

جب آواز زیادہ تیز ہوئی اور اس میں سبکیاں شامل ہوگئیں تو میں نے گھبرا کر چادر ایک طرف پھینک دی اور میں ایک دم جیسے سکتے میں آگیا یہ افضل تھا میرا جگری دوست ٹیم بی کا قائد وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں مسل رہاتھا اور سبکیاں لے لے کر رورہا تھا۔

اس اچانک افتادنے حمیرا کو میرے خیال سے جدا کردیا۔ اور میں اس کی ہمدردیوں سے محروم ہوگیا۔ مجھے لگا جیسے میرے اندر کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی ہے۔ ایک بار پھر مجھے اپنے اس یار ِغار پر غصہ آیا۔ جی میں آیا کہ اس سے صاف صاف کہدوں کہ یہاں کیوں آئے ہو، چلے جاﺅ یہاں سے، مجھے تمہاری ہمدردیوں کی ضرورت نہیں۔ مجھے لگا کہ یہ یقینا بہت بڑا بہر و پیا ہے۔اس مختصر سی مدت میں اس کے متعلق یہ دوسرا انکشاف تھا،پہلے میں نے اسے محض ایک موقع پرست کی حیثیت سے جانا تھا،جب اس نے میرا نام قیادت کے لیے پیش کیا تھا۔حیرت کی بات یہ تھی اس کے متعلق جوباتیں میں پانچ سال کی دیرینہ رفاقت میں نہ جان سکا وہ محض ایک ہفتہ کے اندر معلوم کرچکا تھا۔مجھے لگا کہ یہ مجھ سے ہمدردی جتانے نہیں آیا بلکہ یہ محسوس کرانے آیا ہے کہ میں اس سے ہار گیا ہوں۔ اس کی مصنوعی ہمدردیوں کی وجہ سے میں حمیرا کی حقیقی ہمدردیوں سے بھی محروم ہوگیا۔ شاید اسے یہ پسند ہی نہیں کہ کوئی میرے ساتھ ہمدردی کرے۔
”اوں اوں اوںریاض بھائی! آپ ہار گئےاوں اوں“

اس کے رونے کے سُرتان سین کی بانسری کے سروں کی طرح بلندہو رہے تھے اور میرے غمزدہ دل کی شہ رگ کاٹ رہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں جلدی سے اٹھ بیٹھا۔

”تو آپ جیتے ہی کیوںتھے“ میں نے اپنے اور خوداس کے غموں کو ہنسی میں اڑانا چاہا۔ اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ آنکھوں کے ساگر میں جواربھاٹے کے تیور دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ دریا اتنی آسانی سے اترنے والا نہیں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور تقریباً کھینچنے کے انداز میں چائے خانے کی طرف لے گیا ۔

مجھے پتہ تھا کہ یہ چائے کا رسیا ہے، ایک کپ چائے کے لئے تو یہ اپنی موت کے غم کوبھی بھلا سکتا ہے، اپنے دوست کے خلاف جیت جانے کا غم تو کچھ بھی نہیں۔ مکمل خاموشی کے ساتھ ہم دونوں نے ایک ایک کپ گرم گرم چائے اپنے اپنے حلق میںجلدی جلدی اتاری اور تارکول کی پتلی سی میلی سڑک پر کچھ دیر تک یونہی ہوا خوری کرتے رہے اور جب طبیعت ذرا بحال ہوئی تو اپنے اپنے کمروں میں جاکر لیٹ گئے۔ میںنے نگاہ اٹھا کر گھڑی کو دیکھا،ساڑھے بارہ بج رہے تھے، دارالعلوم کی فضا پر کاٹ کھانے والا سکوت چھایا ہوا تھا۔ آسمان پر بادل گھنیرے ہورہے تھے اور میرے کمرے کے سامنے باتھ رو م کی دیوار پر بیٹھی کالی بلی کی آنکھیں انگارہ جیسی چمک رہی تھیں۔

”ریاض بھائی! یہ آپ کے لیے ہے“ یہ بھی تعجب خیز بات ہے کہ اس نے مجھے کبھی بھی میرے منہ پر دوست نہیں کہا تھا اورشاید میں نے بھی اسے کبھی دوست کہہ کر نہیں پکاراتھایہاں تک کہ ہم خط وکتابت میں بھی دوست کے لفظ سے غیر شعوری طور پر احتراز کرتے تھے۔جبکہ ہم ایک دوسرے کے بغیر نہ کھاسکتے تھے اور نہ کھیل سکتے تھے۔

ایک ماہ بعد جب فاتح ٹیم کو انعام سے نوازا گیا تو وہ سارا انعام میرے پاس لیے چلا آیا یہ ایک پیکٹ تھا ، اس میں کئی کتابیں خاص طور پر میرے لیے بہت اہم تھیںاور ساتھ میں ایک خوبصورت شیلڈبھی تھی۔

”کیوں یہ تو تمہیں ملا ہے انعام کسی کو دینے کے لئے تھوڑی ناہوتا ہے وہ تو یادگار بنانے کے لیے ہوتا ہے ؟“میں نے ایک نگاہِ غلط انداز پیکٹ پر ڈالی، خوشنما رنگین کورپر میرا چہرہ اتر آیاجس پر یاس کی گہری دراڑیں صاف دکھائی دے رہی تھیں اور ایک بار پھر میرا من اندر سے میلا ہوگیا۔”کیا اس کادل ابھی نہیں بھرا۔ یہ باربار مجھے کیوں یاد دلانا چاہتا ہے کہ میں اس سے ہار گیا ہوں “ میری آنکھوں میں خون اتر آیا
”میں نے نیت کی تھی کہ اگر میں جیت گیا تو میرا سارا انعام آپ کے لیے ہوگا“

اس سے پہلے کہ میں اپنی آنکھوں میں اترتے ہوئے خون کا کوئی ردعمل ظاہر کرتا اس نے سرتاپا گدارگروں جیسا روپ اختیار کرلیا۔میں نے ایک بار پھر اس کی آنکھیں پڑھنے کی کوشش کی وہاں استدعا کے سواکچھ نہ تھا جو اپنے ایک ہزار ہاتھ باہم جوڑے پلکاروں کے تٹ پر باادب کھڑی تھیمیں دم بخود رہ گیا اور نہ جانے کتنی دیر تک اس منظرکو تکتا رہا پھر نہ جانے کب اور کس طرح گرم پانی کی باریک جھلی آنکھوں کی پتلیوں پر چھاگئی اور وہ منظر کہیں گم ہوگیا
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 22515 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.