میں اور میری میری

شاید باؤا آدم اور اماں حوا ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے تھے نہ ہی وہ ایک دوسرے سے اظہارِ محبت چاہتے تھے وہ جسم وجان کے ساتھ ایک دوسرے کے تھے-

میری میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اکیلی پریشان کوئی راہ نظر نہیں آتی نہ ہی میں راستہ دیکھ سکتا ہوں جہاں میری جانا چاہتی ہے وہ جا نہیں سکتی جہاں میں رکھنا چاہتا ہوں وہ رہے نہیں سکتی جو میں چاہتاہوں وہ کر نہیں سکتی جو میری چاہتی ہے وہ ہو نہیں سکتا ایسا نہیں کہ میری میری نہیں ہے مگر میری میری بھی تو نہیں-

میں نے یہ خیال تک نہ کیا کہ زمانے کے خوف ورسم ورواج کے اس دور میں بھی کس کو کیا ضرورت تھی عمر کے اس حصہ میں شاید کسی کوکسی کی قسم کی ضرورت نہ ہی تھی یا تھی یہ تو سوچا بھی نہ تھا بس کھیل ہی کھیل تھا-

زندگی کو اچھا بنانے کیلیے کیا کیا برداشت کرنا ہے اس کا اندازہ اگر ہو جائے توشاید زندگی اچھی سے اور اچھی ہوتی پل میں تولہ پل میں ماشہ میں میری کو اور میری اپنی میں کو اس طرح سے زندگی بسر ہوئی سمجھ نہ تھی تو میر ی میری اور میں میں تھا اسی میں زندگی گزر گئی-

کیا کبھی ایسا بھی ہوگا کہ میرا اور میری کا کوئی لمحہ ایسا گزرے کہ جس میں ہم دونوں ہم رنگ ہوں ہم دونوں سنگ سنگ ہوں جو ہوں وہ ہی ہوں جسم و جان ایک ہوں اور ایک دوسرے کیلے ہوں آہ! برابری کی بات بھی نہ کرنا ورنہ زمانے بھرمیں برباد-

اب ضرورت بھی نہیں شکایت بھی نہیں طاقت بھی نہیں سچ تو یہ ہے اب تمنا بھی نہیں بس اب کوئی ایسا عمل نہ کر جاؤں جس بنا سے پھر قلم اٹھا کر سر پہ خاک ڈالوں سمجھ آنے کے بعد بھی جذبات پر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے آ ج بھی روح و جان کا خریدار ہوں متاع جو ہے دینے کو تیار ہوں ہے کوئی جو ہو تیار کی سدا دیے جارہاہوں کہ میری سن لے مگر ہم ایک دوسر ے کے زوجہ نہ تھے ایک دوسرے سے دورتھے شاید یہ فاصلے کم ہوجائیں اسی امید پر جاہ و باہ سے دستبردار ہوں طلبگار ہوں نہ کے سداکار ہوں-

اماں ابا بڑے خوش نصیب تھے وہ ایک دوسرے کے زوج تھے ایک دوسرے سے الفت رکھتے تھے جنتی زندگی کے بعد دنیا میں بھی ایک دوسرے کے ساتھی تھے دکھ درد خوشی مسرت سب ایک ساتھ کبھی دونوں کے درمیان کوئی تنازع ہی نہ ہوا جوڑا تھا ایک دوسرے کے زوج تھے ساتھی تھے-

ایک میں اور میری میری ہر بات پہ تو کے تو کیا ہے آج تک کوئی بات ہی نہ بنی اماں ابا کا جوڑ فطری تھا میرا فطرت میں ابھی قدم رکھ کر اپنے آپ کو گم کرنے کا نہ کوئی ارادہ ہے نہ لگتا ہے معاشرتی رسم ورواج پر میرا اور میری کا جوڑا بنا اب اس کو زوج بنانا تھا مگر میں جسم و روپ کا پجاری تھا میری اس کی بیوپاری تھی آج روح کا سودا کرتی ہے آج سب کچھ اس ہو ا تو بیوپاری نہ رہی ماں بہن بیٹی جیسی بن گئی کیا ظلم نہیں ہے جس کا سودا کیا وہ تو نہ ملااور اصل بھی گیا اب کچھ بھی تیرا نہیں میر ا سب تو ویسے ہی میرا ہے ایسے ہی زوج ہوتے ہیں؟

شاید ہم نے اماں حوا اور باؤا آدم کی طرح زندگی کو زندگی نہ سمجھا میرا کیا جب سمجھ نہ آیا سر دیوار سے مار ڈالا میری کا جب جی میں آیا منہ بنایا رخ پھیرڈالااپنی بھی نہ گزارسکے دوسری بھی برباد کرڈالی-
Asif Sheikhani
About the Author: Asif Sheikhani Read More Articles by Asif Sheikhani: 16 Articles with 13258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.