نفاق ایک گھناونی خصلت اور مہلک باطنی مرض ہے۔ منافق گویا دو رُخا ہوتا ہے،
ظاہر میں کچھ اور اصل میں کچھ اور۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت
ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بکری دو ریوڑوں
کے درمیان آجائے، وہ کبھی تو ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے اور کبھی دوسرے ریوڑ
کی طرف، وہ نہیں جانتی کہ کس (ریوڑ) کے ساتھ رہوں۔(مسلم)
منافق کو دوہرا عذاب
نفاق رکھنے والا شخص مشرک اور کافر سے خطرناک ہوتا ہے، وہ نہ صرف مخلوق کو
بلکہ خالق کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ
الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَيُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ
اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَلَھُمْ
عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ ڏ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے
ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے، حالاں کہ وہ (حقیقت
میں) مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو (واقعی) ایمان لاچکے
ہیں، دھوکا دیتے ہیں اور (حقیقت میں ) وہ اپنے سوا کسی اور کو دھوکا نہیں
دے رہے، لیکن انھیںاس بات کا احساس نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں روگ ہے، چناں
چہ اللہ نے اُن کے روگ میں اور اضافہ کردیا ہے، اور ان کے لیے دردناک سزا
تیار ہے، کیوں کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔ (البقرۃ) نفاق ایک باطنی مرض سہی،
لیکن اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید کو جاننے والے ہیں، اسی لیے ایک موقع پر
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے ارشاد فرمایا:وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ
الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا
عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ
سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ
عَظِيْمٍاور آپ کے ارد گرد جو دیہاتی ہیں، ان میں بھی منافق لوگ موجود
ہیں، اور مدینے کے باشندوں میں بھی۔یہ لوگ منافقت میں (اتنے) ماہر ہوگئے
ہیں (کہ) آپ انھیں نہیں جانتے، انھیں ہم جانتے ہیں۔ ان کو ہم دو مرتبہ سزا
دیں گے، پھر ان کو ایک زبردست عذاب کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ (التوبۃ)
عقیدے اور کردار کا نفاق
ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا نفاق ہے ،جو کفر کی بدترین قسم ہے ، لیکن اس
کے علاوہ کسی شخص کی سیرت کا منافقوں والی سیرت ہونا بھی نفاق ہے،مگر وہ
عقیدے کا نفاق نہیں بلکہ سیرت اور کردار کا نفاق ہے، اور ایک مسلمان کے لیے
جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ کفر و شرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست سے بچے ،اسی
طرح یہ بھی ضروری ہے کہ منافقانہ سیرت اور منافقانہ اعمال و اخلاق کی گندگی
سے بھی اپنے کو محفوظ رکھے۔(معارف الحدیث)حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ ان کو اپنے نفس کے متعلق ہمیشہ نفاق کا خطرہ لگا رہتا تھا۔ امام اوزاعیؒ
فرماتے ہیں کہ اُن کو یہ خطرہ نفاقِ اصغر سے تھا۔ صحیح بخاری میں ابن ابی
ملیکہؒسے روایت ہے کہ تیس صحابہ سے میری ملاقات ہوئی، سب کو اپنے نفس پر
نفاق کا خطرہ لگا رہتا تھا، ان میں کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ ہمارا ایمان
حضرت جبرئیلؑ ومیکائیلؑ کے ایمانوں کی طرح خطرۂ نفاق سے مامون ہے۔ امام
احمدؒ سے پوچھا گیا؛ جس شخص کو اپنے متعلق نفاق کا خطرہ بھی نہ گزرتا ہو،
اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ انھوں نے تعجب سے فرمایا: ایسا کون مومن
ہو سکتا ہے، جس کو اپنے متعلق یہ خطرہ بھی نہ آتا ہو۔ (ماخوذ از ترجمان
السنۃ)
ڈرنے کی ضرورت
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف اس منافق کا ہے جس کا علم زبان کی
حد تک ہو ۔(کنزالعمال) ایک روایت میں ہے:مجھے تمھارے اوپر تین چیزوں کا خوف
ہے او وہ ہو کر رہیں گی:۱ عالم کے پھسل جانے کا ۲قرآن کے ساتھ منافق کے
جدال کا ۳دنیا کا؛جس کے خزانے تمھارے اوپر کھول دیے جائیں گے۔(کنزالعمال)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آج کل کے منافقین اُن سے
زیادہ برے ہیں جو حضرت نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھے، وہ لوگ اُس زمانے میں
(اپنے بداعمال) پوشیدہ رکھتے تھے اور یہ لوگ آج علی الاعلان کر رہے
ہیں۔(بخاری )
مومن اور منافق میں فرق
ابویحییٰ سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا: منافق
کون ہے ؟ آپ نے فرمایا:منافق وہ ہےجو اسلام کی باتیں تو کرے، مگر اس پر
عمل پیرانہ ہو۔(کنزالعمال)حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: مومن
کی نیت اس کے عمل سے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہوتا، ہر ایک اپنی
نیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ مومن جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے قلب میں ایک
نور پیدا ہوجاتا ہے(منافق عمل تو مجبوراً کرتاہے، لیکن اس کی نیت میں بگاڑ
ہوتاہے)۔(کنزالعمال)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: مومن کا رونا اس
کے دل سے ہوتا ہے اور منافق کا رونا دماغ کی عیاری سے ہوتا
ہے۔(کنزالعمال)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: مومن کا کام سخیوں والا
ہوتا ہے، وہ اپنے بھائی پر وسعت وفراخی کرتا ہے، اور منافق کنارہ کش رہنے
والاہوتا ہے، جو اپنے بھائی پر سختی کرتا ہے۔ مومن سلام سے ابتداکرتا ہے
اور منافق منتظر رہتا ہے کہ ودسراخود مجھے سلام کرے۔(کنزالعمال) حضرت کعب
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کے
پودوں کی طرح ہے کہ ہوا کبھی اس کو اِدھر اُدھر جھکا دیتی ہے اور کبھی
سیدھا کردیتی ہے۔ اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے کہ وہ ہمیشہ
سیدھا قایم ودایم رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ اکھڑجاتا ہے۔(بخاری)
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مومن
قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے وہ مثل سنگترے کے ہے، جس کا مزہ اچھا
ہے اور بو بھی اچھی ہے۔ اور جو مسلمان قرآن نہیں پڑھتا اور عمل کرتا ہے،
تو وہ کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے، مگر بو کچھ نہیں۔ اور اُس
منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، خوشبودار پھول کی طرح ہے کہ اس کی بو تو
اچھی ہے، مگر مزہ کڑوا ہے۔ اور اُس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا
اندرائن کے پھل کی سی ہے، جس کا مزہ بھی برا ہے اور بو بھی خراب۔(بخاری)
نفاق سےنجات کا راستہ:توبہ
جیسا کہ اوپر گزرا، منافقین کو قیامت میں سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔
ارشادِ ربانی ہے:اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ
النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا
وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَھُمْ لِلّٰهِ
فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ
الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے
نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے، البتہ
جو لوگ توبہ کرلیں گے، اپنی اصلاح کرلیں گے، اللہ کا سہارا مضبوطی سے تھام
لیں گے اور اپنے دین کو خالص اللہ کے لیے بنالیں گے، تو ایسے لوگ مومنوں کے
ساتھ شامل ہوجائیں گے، اور اللہ مومنوں کو ضرور اجرِ عظیم عطا کرے گا۔
(النساء)اسود سے روایت ہے کہ ہم اور چند دوسرے لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صحابی حذیفہ بن یمان آئے اور
سلام کیا۔ پھر کہا کہ نفاق ایسی بلا ہے جو تم سے اچھے لوگوں پر نازل ہوچکی
ہے۔ میں نے ذرا تعجب سے کہا: سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ
منافق دوزخ کے نچلے حصّے میں رہیں گے! حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
مسکرائے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھ
گئے۔حضرت عبداللہ کے شاگرد بھی اٹھ گئے۔ حضرت حذیفہ نے ایک کنکری میری طرف
پھینکی اور اشارے سے اپنے پاس بلایا اور کہا: میں عبداللہ بن مسعود کے
مسکرانے سے تعجب میں پڑگیا، کیوں کہ جو کچھ میں نے کہا، وہ انھوں نے اچھی
طرح سمجھ لیا۔ بے شک نفاق اس قوم پر آیا جو تم سے بہتر تھی پھر اسلام سے
پھر گئی، پھر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا کو معاف کردیا۔(بخاری:
4602 )
|