پاکستان بجلی کی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ
سے لوڈشیڈنگ عام ہے۔ ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں ہی لوڈ شیڈنگ کی جا
رہی ہے۔ ہر مہینے دو مہینے بعد حکومتی بیان سننے میں آتا ہے کہ رواں سال کے
فلاں مہینے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائے گی اور پھرکوئی نئی وجہ
بتا دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے،
چند بڑے پروجیکٹس پر کام کیا جا رہا ہے لیکن ان پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک
پہنچنے میں ابھی بہت وقت درکار ہے اور فوری لوڈشیدنگ کو قابو کرنا بہت مشکل
ہے۔ ہم کب تک لوڈشیڈنگ برداشت کریں گے؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا
جا سکتا۔ ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ہی کام کرنا ہو گا۔ کوئی دوسرا ہماری مدد
کو آئے یا نہ آئے ہمیں خود اس قابل ہونا ہوگا کہ ہم ہر مصیبت کا ڈٹ کر
مقابلہ کر سکیں۔ دنیا میں صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی مدد آپ کے
تحت کام کرنا جانتی ہیں۔ ایسے ہائیڈرو پاور پلانٹس جو ایک ہزار کلو واٹ سے
کم بجلی پیدا کرتے ہیں انہیں منی ہائیڈرو پاور پلانٹس کہا جاتا ہے جبکہ ایک
سو کلو واٹ سے کم بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو مائیکرو ہائیڈرو پاور
پلانٹس کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے پلانٹس چھوٹے پیمانے پر بجلی حاصل کرنے کے
لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ پلانٹس چلتے ہوئے پانی، ندی،
آبشاروں اور چھوٹے آبی ذخیروں میں لگائے جاتے ہیں تاکہ بآسانی بجلی حاصل کی
جاسکے۔ پہاڑی علاقوں میں بہنے والے آبشاروں اور ندی نالوں پر مائیکرو
ہائیڈل پلانٹس کی تنصیب انتہائی کم خرچ ہوتی ہے۔ یعنی منی اور مائیکرو پاور
ٹربائنز یا پلانٹس سے حاصل ہونے والی بجلی بڑے ڈیم میں استعمال ہونے والی
پلانٹس کی نسبت سستی ہے۔ ہم ایسے پلانٹس کے ذریعے بجلی کی کمی کسی حد تک
دور کرسکتے ہیں۔ واپڈا کے اندازے کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہائیڈرو
پروجیکٹس کے ذریعے ستر ہزار میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس صوبے کی
نہروں اور پہاڑی قطع زمین میں منی، مائکرو اور سمال ہائیڈرو پلانٹس کے لئے
ہزاروںسائٹس موجود ہیں۔ ایک پچاس کلو واٹ کا مائیکرو پاور سٹیشن ایک سو
گھرانوں کے لئے بجلی پیدا کر سکتا ہے۔دیر، چترال، سوات، شانگلہ اور مانسہرہ
کے لوگوںنے بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے سو سے زائد پلانٹس لگا ئے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں تقریباً دو ہزار منی پائیڈرو پاور پلانٹس لگائے جا
چکے ہیں۔ پاکستان کونسل فور رینیو ایبل ٹیکنولوجیز (پیکریٹ) نے بھی ملک کے
طول و عرض میں تین سو کے قریب تین عشاریہ پانچ میگاواٹ کے منی ہائیڈرو پاور
پلانٹس لگائے ہیں۔ منی ہائیڈرو پاور پلانٹس ایسے علاقوں میں کام کر رہے ہیں
جہاں بجلی میسر نہیں۔ منی یا مائیکرو ہائیڈرو پاور پلانٹس کو لگانا اور
محافظت دوسرے پاور پلانٹس کی نسبت کافی سستی ہے۔ ایک ہائیڈرو پاور پلانٹس
مہیا کرنے والے کا کہنا ہے کہ ایک علاقائی پچاس کلو واٹ کے مائیکرو پاور
سٹیشن کو لگانے کی قیمت صفر عشاریہ آٹھ ملین ، انڈونیشین اورچائنیز ٹربائنز
کی قیمت ایک عشاریہ دو سے دو عشاریہ پانچ ملین جبکہ جرمن ٹربائن کی قیمت
پانچ سے سات ملین ہے۔واپڈاملک بھر میں بتیس چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم
تعمیر کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان ڈیموں کی تعمیر دو مراحل میں کی جائے گی پہلے
مرحلے میں بارہ ڈیم تعمیر کیے جائیں گے اور انہیں تین سال کی قلیل مدت میں
مکمل کیا جائے گا، پہلے مرحلے کے بارہ ڈیموں کی تعمیر سے پچیس لاکھ ایکڑ فٹ
سے زائد پانی ذخیرہ کیا جائے گا اور مائیکرو اریگیشن کے ذریعے ذخیرہ کیے
جانے والے پانی کی مدد سے چھ لاکھ پینتیس ہزارپانچ سو ایکڑ سے زائد اراضی
کو سیراب کیا جائے گا، ان بارہ ڈیموں کی تعمیر سے اکیس میگا واٹ تک پن بجلی
بھی حاصل کی جائے گی۔ ان بارہ ڈیموں میں سے پانچ صوبہ بلوچستان،تین صوبہ
سندھ، دو صوبہ سرحد اور دو صوبہ پنجاب میں بنائے جائیں گے جبکہ چاروں صوبوں
میں دوسرے مرحلے میں تین سال کی قلیل مدت میں مزید بیس ڈیم تعمیر کیے جائیں
گے، ان ڈیموں کی تعمیر سے تیس لاکھ ایکڑ فٹ سے زائد پانی کو ذخیرہ کیا جائے
گا جبکہ مائیکرو اریگشین کے ذریعے ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب
کرنے کے علاوہ پن بجلی بھی حاصل کی جائے گی۔ واپڈا کے مطابق ان ڈیموں کی
تعمیر کے لئے چینی ایگزم بنک نے تعاون کا یقین دلایا ہے اور ستر کروڑ ڈالر
فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقتصادی امور ڈویژن اور ایگزم بنک
چائنہ کے درمیان دستاویز پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ ان ڈیموں میں صوبہ خیبر
پختونخواہ میں کرم تنگی، بلوچستان میں ناولانگ اور ونڈر، سندھ میں داروت
اور گنج ڈیم اور پنجاب میں گھبیر ڈیم کی تعمیر شامل ہے۔ تفصیلات کے مطابق
پہلے مرحلے کے بارہ ڈیموں میں سے پنجاب میں تعمیر کیے جانے والے غبیر ڈیم
سے صفر عشاریہ ایک پانچ اور پیاٹن ڈیم سے صفر عشاریہ دو میگا واٹ بجلی حاصل
ہو گی، صوبہ بلوچستان میں ہنگول ڈیم سے تین، نالانگ ڈیم سے چار عشاریہ چار،
ونڈر ڈیم سے صفر عشاریہ تین، گاروک ڈیم سے صفر عشاریہ سات دو اور پلار ڈیم
سے صفر عشاریہ سات پانچ میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ صوبہ سندھ میں
بنائے جانے والے نائی گج ڈیم سے چار عشاریہ دو، دراوت ڈیم سے صفر عشاریہ
تین پانچ اور سیتا ڈیم سے صفر عشاریہ ایک پانچ میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اور
صوبہ سرحد میں باڑا ڈیم سے پانچ عشاریہ آٹھ اور درہ بنزم ڈیم سے صفر عشاریہ
سات پانچ میگا واٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہوگی۔ پن بجلی کے دوسرے مرحلے میں
تعمیر کیے جانے والے بیس ڈیموں میں سے صوبہ بلوچستان میں جھل مگسی کے مقام
پر سکلیجی ڈیم، پسنی کے مقام پر باسول ڈیم، ژوب کے مقام پر بدین زئی ڈیم،
لسبیلہ کے مقام پر پورالی ڈیم تعمیر کیا جائے گا۔ صوبہ سندھ میں دادو کے
مقام پر سالارلی اور نائنگ ڈیم، قمبر کے مقام پر خن جی ترپان ڈیم تعمیر کیا
جائیں گے۔ صوبہ سرحد میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر شیخ حیدر ڈیم، ٹانک
زم ڈیم، چودون زم ڈیم، کرک کے مقام پر چشمئی رکور خیل ڈیم، مالاکنڈ ایجنسی
کے مقام پر چوکس ڈیم اور توتاکان ڈیم اور بونیر و مانسہرہ کے مقام پر کوحئی
ڈیم اور سرن ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔ صوبہ پنجاب میں اٹک کے مقام پر کوٹ
فتح ڈیم، راولپنڈی کے مقام پر مجاہد ڈیم، چکوال میں لاوا ڈیم ،گجر خان میں
مہرہ شیر ڈیم اور چکوال کے مقام پر جمال وال ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔
پاکستان میںمنی اور مائیکرو پاور ٹربائنز کی بدولت چھوٹے پیمانے پر بجلی کی
کافی مقدار حاصل کی جا سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک میں
ہائیڈرو پروجیکٹس پر خاص توجہ دے۔ حکومت پاکستان کومنی اور مائیکرو ٹربائنز
کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو منی اور مائیکرو ٹربائنز
کولگانے کے قانون میں نرمی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ |