سوشل میڈیا سے مراد وہ میڈیا ہے جو انٹرنیٹ
ایپلیکیشنز اور موبائل ٹیکنولوجی کے ذریعے معلومات اور خبروں کا پھیلاﺅ
کرتا ہے۔ گزشتہ دور میں خبروں اور دیگر معلومات کے لئے ٹی وی اور ریڈیو کا
سہارا لینا پڑتا تھا مگر اب نئی ٹیکنولوجی کے ذریعے خبروں کا تبادلہ
باآسانی انٹرنیٹ بلوگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس اور موبائل ایس ایم ایس
کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی ان نئی اقسام کے ذریعے عوام اپنے جذبات کا باآسانی اظہار کر
سکتی ہے۔ لوگ اس قسم کے میڈیا پر اعتماد کرتے ہیں اور ہر ایک کو کھل کر
اپنے جذبات کے اظہار کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ نیوز لیٹرز، بلاگز، آڈیو
ویڈیو شئیرنگ ویب سائٹس، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معاشرے میں
مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ موبائل کلپس سے عوامی شعور کی بیداری کا کام
لیا جا سکتا ہے تو ایس ایم ایس روزانہ کی بنیاد پر اچھی باتوں کو پھیلانے
کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ای میلز، آن لائن گروپس، چیٹنگ اور دیگر سہولیات سے
فائدہ اٹھا کراہل علم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسی
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، یہ ہر قسم
کے مواد کو پھیلانے کا باعث ہیں۔ ان سماجی روابط کی ویب سائٹس کے ذریعے کسی
بھی خبر یامعلومات کو باآسانی چند ہی سیکنڈ میں عام کیا جا سکتا ہے۔
انٹرنیٹ بلوگ کے ذریعے نہ صرف تصویری خبر بلکہ ویڈیو کو بھی شائع کیا جا
سکتا ہے۔ امریکہ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی حکمران ان دنوں وکی لیکس
ویب سائٹ کی کارستانیوں کے باعث پریشان ہیں۔ یہ بھی آن لائن میڈیا کی طاقت
کا نتیجہ ہے کہ ایسا مواد جو کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سامنے
لانا شاید ممکن ہی نہ ہوتا وہ ویب سائٹ کے ذریعے بے نقاب ہو چکا ہے۔
عوام اپنے مسائل اور جذبات کو سوشل میڈیا پر شائع کرکے اپنی پسند و ناپسند
کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیامیں بلاگنگ کا آغاز 1999ءمیں ہوا لیکن بعض وجوہات
کے باعث پاکستانیوں میں اتنی مقبولیت نہ حاصل کرسکا۔ پاکستان میں بلوگنگ
زیادہ تر ٹیکنولوجی کی خبروں کے لنک شائع کرنے اور روزمرہ زندگی کے معمولات
قلم بند کرنے تک محدود ہے۔ جون دو ہزار چھ میں آل تھنگس پاکستان نامی
انگریزی بلاگ نے پاکستانی بلاگنگ کی دنیا میں ہل چل مچادی۔ اسی سال ایک بین
الاقوامی خبر رساں ادارے نے اردو بلوگنگ کے لئے بلوگ کا آغاز کیا۔ شروع میں
تو اردو بلوگنگ کو کوئی خاص فروغ حاصل نہیں ہوا مگر آہستہ آہستہ اردو
بلوگنگ نے بھی بلوگنگ کی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا
کو ہم اردو میں رابطوں کی دنیا کہیں گے، اظہار خیال کےلئے لکھنے کی قید سے
نکل کر ایک بڑے دائرے میں آجانا جہاں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ تصاویر، آواز
اور سب سے بڑھ کر دوسروں کے وہ خیالات اور جذبات جس کی آپ تائید کرتے ہوں
ان کو اپنا بنا کر آگے بھیجنا بھی ممکن ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر
ضروری ہے کہ اس کے درست استعمال کے لئے کوششیں تیز کی جائیں۔
فیس بک سماجی رابطوں کی تیزی سے ابھرنے والی ویب سائیٹ کہلاتی ہے ۔ فیس بک
نے چند ہی سال میں پوری دنیا میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے۔ متعدد
سائنسداں، ادیب، شاعر، سیاستداں اور مصنفوں نے فیس بک پر اپنے صفحات بنا
رکھے ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف بھی فیس بک پر
لاکھوں مداح ہونے پرفخر کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ لوگ کتنا انحصار کرنے لگے ہیں۔ مختلف مصنوعات
بنانے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لئے سوشل میڈیا کا بھی
سہارا لیتی ہیں۔ فیس بک، مائی اسپیس، اورکٹ، فرینڈ سٹر، بیبو اور میکسی
پراربوں لوگوں نے اپنے اکاﺅنٹس بنا رکھے ہیں اسی لئے کسی بھی چیز کو عام
کرنا کوئی بڑی بات نہیں رہی ہے۔ اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا اورالیکٹرونک میڈیا
پر مارکیٹنگ کی نسبت سوشل میڈیا مارکیٹنگ سستی ہے۔
دنیا میں سوشل میڈیا کی بدولت کروڑوں افراد ٹیکنولوجی اور اس کی جدید
ایجادات سے متعلق تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان کے تعلقات میں اضافہ بھی
ہو رہا ہے۔ جہاں سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد ہیں وہیں پر اس کا منفی
استعمال بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس نئے میڈیا کی بدولت تعلقات میں اضافہ
ہونے کے ساتھ ساتھ برے لوگوں کے گروپ سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ دہشت گردی
پھیلانے والی بڑی بڑی تنظیموں نے اپنے پیغامات کو پھیلانے کے لئے سوشل
میڈیا کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے باعث کاروباری اور کام
کرنے والے حضرات کے وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر اور ایسی ہی دیگر
ویب سائٹس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے متعدد لوگ ذہنی امراض کاشمار ہو گئے
ہیں۔ ان سماجی ویب سائٹس کی وجہ سے ہیکرز کو ہیکنگ میں آسانہ ہو گئی ہے۔
کسی بھی ہیکنگ لنک کو چند ہی سیکنڈوں میں کروڑوں افراد میں عام کیا جاسکتا
ہے۔سوشل میڈیا کے نقصانات میں اہم نقصان اس کا تیزی سے پھیلاﺅ ہے کوئی بھی
ایسی خبر جس سے کسی عام آدمی کی عزت کو نقصان پہنچتا ہے ،جلد ہی ملین افراد
میں عام ہو جاتی ہے۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر لوگوں کی جانب سے پھیلائے
گئے پیغامات اور ان کے جذبات کا احساس کرے۔ ضروری نہیں کہ عوامی اشتعال کے
بے قابو ہونے کا ہی انتظار کیا جائے بلکہ بہت سے طوفانوں کو اچھی منصوبہ
بندی سے روکا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا نہایت اہم کردار ادا کررہا
ہے، اسکے مثبت استعمال کو فروغ دےکر اس سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ |