جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتی پاکستان کی سیاست کا یہ
المیہ رہا ہے کہ ہر دور میں اپوزیشن حکومت کیخلاف برسر پیکار رہی اور حکومت
نے اپوزیشن کیخلاف انتقامی کارروائیاں، مقدمات، ریفرنس دائر کیے اور اپنے
اختیارات کا خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالفین کو جیل یاترا تک کروائی۔
اپوزیشن نے ہر حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دے کر برسر اقتدار حکمران
جماعت کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اپنایا، اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی
آئی کے کپتان نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیخلاف ملکی تاریخ کا طویل ترین
دھرنا دیا، 2018ء کے انتخاب میں کپتان ایم کیو ایم اور کچھ سیاسی جماعتوں
سے اتحاد کر کے عددی برتری حاصل کر کے ملک کے وزیر اعظم بنے تو پاکستان
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ملک کی دیگر اپوزیشن جماعتوں نے وہی نعرہ جو
ماضی میں کپتان نے پہلے پیپلز پارٹی اور پھر (ن) لیگ کی حکومت کیخلاف لگایا
کہ پی ٹی آئی کی حکومت دھاندلی کی پیداوار اور الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہے،
موجودہ اپوزیشن تو پہلے روز سے ہی پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف صف آرا اور
مختلف طریقوں سے احتجاج کر رہی ہے، دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت پاکستانی
سیاست کی روایت کے مطابق اپوزیشن یعنی مخالف کے ساتھ مخالف والا سلوک کر
رہی ہے، جس کے نتیجہ میں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے بڑے
بڑے قائدین جیل یاترا کے لئے آ جا رہے ہیں، میاں نواز شریف جو سزا یافتہ
ہیں مگران کے نام پر مسلم لیگ (ن) اب بھی قائم دائم ہے، وہ علاج کے نام پر
بیرون ملک پہنچ کر ملک سے باہر بیٹھ کر اپوزیشن کے جلسوں اور میٹنگوں کے
ساتھ (ن) لیگ کے اجلاسوں سے ویڈیو لنک اور ٹیلیفونک خطاب کرتے ہیں، میاں
نواز شریف اور آصف علی زرداری نے تو 13 دسمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسہ
سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنے کا عندیہ بھی دے رکھا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی
میں اس طرح بیرون ملک بیٹھ کر الطاف حسین ایم کیو ایم کے جلسوں اور میٹنگوں
سے خطاب کرتے اور کراچی اور سندھ میں سیاست کرتے رہے ہیں۔ الطاف حسین کو
انکے پاکستان مخالف بیانات پر غدار قرار دیا جا چکا ہے، سو بات کہاں سے
کہاں نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی اپوزیشن کے احتجاج اور حکومت کے جواب کی، تو
اپوزیشن (پی ڈی ایم) ملتان میں حکومتی رکاوٹوں کے باوجود جلسہ کرنے کے بعد
13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ جسکے بارے میں (ن) لیگ کی
خاتون لیڈر مریم نواز کا کہنا ہے کہ جلسہ حکومت کیلئے آر ہو گا یا پار؟ یہ
جلسہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گا اور اسے بہا کر لے جائے
گا۔
قبل ازیں پی ڈی ایم کی قیادت کی طرف سے عندیہ دیا گیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ
13 دسمبر کے جلسہ میں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان
قومی و صوبائی اسمبلی استعفے دیں، اسی تناظر میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی
کے کچھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنے استعفے قیادت کو پیش کر دیئے
ہیں، استعفے دینے والوں کی تعداد تا دم تحریر قلیل ہے، ذرائع کہتے ہیں کہ
اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی کے خال خال اور (ن) لیگ کے بہت سے
ارکان اسمبلی نے استعفے دینے کی بجائے وفاق میں فارورڈ بلاک بنانے اور
پنجاب میں پہلے سے بنے فارورڈ بلاک میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے، جس کو
اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بھی بھانپ چکی ہے اور سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ
اسی تناظر میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سیاسی پینترا
بدلا ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفے دوسرے مرحلہ میں دیئے جائیں گے، اس سے
پہلے جنوری میں حکومت کیخلاف لانگ مارچ ہو گا، مولانا فضل الرحمان کا یہ
سیاسی بیان (ن) لیگ کی لیڈر مریم نواز کے اس بیان کہ 13 دسمبر کو آر ہو گا
یا پار کی خود نفی کرتا دکھائی دیتا ہے، سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ بر سر
اقتدار حکمران جماعت پی ٹی آئی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ وفاق فارورڈ
بلاک بنائے اور پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی کا فارورڈ بلاک
میں مزید ارکان اسمبلی کو شامل کرا لے، حکومت اس میں کامیاب بھی نظر آ رہی
ہے، کیونکہ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص (ن) لیگ میں بننے والے فارورڈ بلاک میں
ارکان اسمبلی کی شمولیت کی آوازیں روز بروز بڑھ رہی ہیں، سیاسی ذرائع کہتے
ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان نے ببانگ دہل چیلنج کیا
ہے کہ اپوزیشن جتنے جلسے مرضی کر لے حکومت کو کئی فرق نہیں پڑے گا، جلسوں
سے صرف کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہو گا۔ یہاں اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن
جماعتیں اپنے ارکان اسمبلی کو سنبھالنے اور ان سے استعفے لینے کیلئے کیا
حکمت عملی اپناتی ہیں اور حکومت وفاق میں فارورڈ بلاک بنانے، اور پنجاب میں
پہلے سے موجود فارورڈ بلاک میں شامل کرنے کیلئے اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو
کس حد تک شیشہ میں اتارنے میں کامیاب ہوتی ہے، اس بارے کوئی رائے قائم کرنا
قبل از وقت ہو گا؟ تا ہم ملک میں امراء سیاست اور سیاست دانوں کے کھیل سے
خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں اور عوام تماشہ بنے پس رہے ہیں، نجانے کب ہمارے
ملک میں حقیقی جمہوریت آئے گی جس سے ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کو سکون ،
انصاف اور روزگار مل سکے گا؟
|