ایک نظر ادھر بھی

فعال تعلیمی نظام اور مربوط تعلیمی پالیسیز کے بغیر قومی ترقی ممکن نہیں۔ پرائم منسٹر عمران خان نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں مستقبل قریب میں جن پالیسیز کے اطلاق کا ذکر کیا تھاوہ تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے سے متعلق تھیں بعد میں نامساعد حالات کے باوجود گورنمنٹ نے ترجیحی بنیادوں پر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لانے کے لئے بھر پور کوششیں جاری رکھیں۔اس کے لئے ہی ہمایوں یاسر راجہ کو وزیر ہائر ایجوکیشن بنایا گیا تاکہ وہ اس شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لاسکیں۔یہ باتیں خود انہوں نے سہیل وڑائچ کو ایک انٹرویو میں بتائیں۔یہ تبدیلی اب نظر بھی آنے لگی ہے کہ چکوال ایسے علاقے میں بھی وہ یونیورسٹی منظور کرواچکے ہیں سکول ایجوکیشن میں جہاں یکساں نظام تعلیم پر بات شروع ہوئی وہیں ہائر ایجوکیشن میں بہتری لانے کے لئے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی پالسیز ترتیب دی گئیں۔ غربت میں کمی لانے کے لئے ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن کے فروغ کے لئے اداروں کو متحرک کیا گیا۔ یونیورسٹی ایجوکیشن کو عام آدمی کے لئے با سہولت بنانے کے لئے احساس سکالر شپ پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت پاکستان کے لاکھوں یونیورسٹی طلبا کے لئے اپنے تعلیمی اخراجات کو برداشت کرنا ممکن ہو گیا۔اگرچہ یونیورسٹیز ایک لحاظ سے اپنی پالیسیز ترتیب دینے کے حوالے سے خودمختار ہوتی ہیں اور انکی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کے وڑن کے مطابق اپنی پالسیز ترتیب دیں۔ نئی اور ترقی پذیر یونیورسٹیز کے وسائل محدود ہونے کی وجہ سے ان کے لئے ایسا کرناایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جائزہ لیا جائے تو جنوبی پنجاب کے تعلیمی افق پر خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک روشن ستارے کی مانند ہیجو کہ نہ صرف علاقے کو اعلی تعلیم اور ہنر کی روشنی سے ترقی کی نئی راہیں دکھا رہی ہے بلکہ ایجوکیشنل مینجمنٹ اور بہترین تعلیمی پالسیز کی بنیاد پر ایک قابل تعریف و قابل تقلید مثال بھی ہے۔اگرچہ اس ادارے کی بنیاد ن لیگ کے سابقہ دور میں رکھی گئی مگر موجودہ حکومت کی دلچسپی کے باعث اس ادارے کی ترقی پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں جاری ھے جس کا سہرہ بھی ہمایوں یاسر۔ہاشم جواں بخت اور گورنر وچانسلر چودھری محمد سرور کے سر جاتا ھے کہ انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود فنڈز دئے جس سے کئی رکے ھوئے کام مکمل ھوئے۔خواجہ فرید یونیورسٹی کی انتظامیہ نے محدود وسائل کے باوجودحکومت پنجاب کی سرپرستی میں گذشتہ ایک سال میں جن پالسیز کا اطلاق کیاوہ پرائم منسٹر عمران خان کے وڑن کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتی ہیں جس کا سہرہ یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر اور ڈین آف آل فیکلٹیز اصغر ہاشمی اوران کی ٹیم کے سر جاتاہے۔ ایک سال پہلے جب پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے بطور وائس چانسلر چارج سنبھالا تو یونیورسٹی چار سو چھ ملین کی مقروض تھی۔ صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے ان کی سربراہی میں یونیورسٹی کیتمام انتظامی ڈیپارٹمنٹس میں کفایت شعاری اور سادگی پر مبنی پالسیز کا اطلاق کیا گیا جس کے نتیجے میں یونیورسٹی مصارف میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ تدریس و تعلیم کی کوالٹی میں بہتری کے لئے مربوط حکمت عملی کے تحت اکیڈمک ڈیپارٹمنٹس کو با اختیار کیا گیا اورہیڈز کو نئی ذمہ داریاں دی گئیں۔ نئے ڈگری پروگرامز کا اجراء کیا گیا۔ ریسرچ میں بہتری کے لئیانفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز میں داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس کے لئے بطور ٹیچنگ اسسٹنٹ جابز اور پراجیکٹ گرانٹس متعارف کروائی گئیں جس سے ان پروگرامز میں داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔جس سے یونیورسٹی سے شائع ہونے والی ریسرچ میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ گورنمنٹ کے احساس سکالر شپ پروگرام کو یونیورسٹی میں بھر پور طریقے سے متعارف کروایا گیاجس کے نتیجے میں ۰۴۷۱ سٹوڈنٹس کو ۰۲۲ ملین روپے مالیت کے احساس سکالر شپ کا اجراء ہوا۔ یونیورسٹی کی طرف سے دئے جانے والے میرٹ سکالر شپس اس کے علاو ہ ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی میں ایک بھی یتیم بچہ ایسا نہیں ہے کہ جسے سکالر شپ نہ مل رہا ہو۔ یونیورسٹی داخلوں میں شفاف طریقے سے میرٹ پالیسی کا سختی سے اطلاق کیا گیا۔ رواں سمیسٹر کے داخلوں میں میرٹ سے متعلق کوئی ایک بھی شکایت درج نہ ہوئی۔ یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کی تعداد بڑھنے سے تمام فیکلٹیز میں نئی جاب پوزیشنز پیدا ہوئیں جن پر بھرتیاں حکومت پنجاب اور پرائم منسٹر عمران خان کے وڑن کے تحت شفاف طریقے سے میرٹ پر کی گئیں۔ غربت میں کمی کے لئے پرائم منسٹر عمران خان اور حکومت پنجاب کی پالیسی برائے ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ بذریعہ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ بڑی واضح ہے۔ ملک میں نوجوانوں کے لئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے مواقع بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لئے ان کی ٹیکنیکل تربیت ضروری ہے تاکہ بیروزگاری میں کمی واقع ہو سکے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی پاکستان کی ایک ابھرتی ہوئی یونیورسٹی بن چکی ہے۔ جس کی تمام پالیسیز گورنمنٹ کے ایجوکیشنل وڑن کے مطابق ہیں۔ یقینا اس یونیورسٹی کے قیام کا مقصد اعلی تعلیم کے ساتھ علاقے کی تعمیر و ترقی اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ ہے۔ ڈگری کے ساتھ ہنر دینا یونیورسٹیسز کی بنیادی ذمہ داری ھوتی ہے۔ اسی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں سال خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ساوتھ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف سکل ڈویلپمنٹ کا آغاز کیا گیا جس میں NAVTTC کے تعاون سے چالیس ڈپلومہ اور ڈگری پروگرامز متعارف کروائے گئے ہیں۔ ڈپلومہ پروگرامز میں داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس کو یونیورسٹی کی ہائی ٹیک لیبز میں ٹریننگ کی سہولت بھی میسر ہو گی جن میں اعلی تعلیم یافتہ اور ٹرینڈ فیکلٹی سٹوڈنٹس کو رہنمائی فراہم کرے گی۔ تمام کورسزجاب مارکیٹ اور انڈسٹری کی ڈیمانڈ کے مطابق ڈیزائن کئے گئے ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا مقصدعلاقے کے نوجوانوں کو ٹیکنیکل سکل مہیا کر نا ہے تاکہ وہ ملک میں یا بیرون ملک مناسب روزگار حاصل کر سکیں یا اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔اس وقت اسی انسٹی ٹیوٹ میں آٹھ سو سے زائد طلبا مختلف کورسز میں زیر تعلیم ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کفایت شعاری و سادگی ، اعلی تعلیم ، کوالٹی تدریس و تحقیق، اور ٹیکنیکل سکل کے فروغ سے متعلق جن پالسیز پر عمل پیرا ہے ان کے اعلی تعلیم کے فروغ، ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ ، غربت میں کمی اور علاقے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے خاطر خواہ نتائج برامد ہوں گے۔ یونیورسٹی حکومت پنجاب کی سرپرستی میں پرائم منسٹر عمران خان کے وڑن کے مطابق ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہے جس پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر اور ان کی ٹیم خراج تحسین کی مستحق ہے۔آخر میں صوبائی وزیر اور وزیراعلی سے بس اتنا کہنا ھے کہ جن یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی سیٹیں خالی ہیں انہیں فوری پر کیا جائے تاکہ کوئی بے جاتنقید بھی نہ کرسکے اور یونیورسٹیاں بھی ترقی کرسکیں
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.