دینی تعلیم کی اہمیت وافادیت
(Abdul Bari Shafique, Mumbai)
تعلیم کی اہمیت وضرورت اور اس کی افادیت ہر دور وزمانہ میں مسلم رہی ہے ،چونکہ علم ہی ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو ظلمت وتاریکی کے عمیق غار سے نکال کرروشن شاہراہ اور بلندی کی اوج ثریا پر فائز فرماتاہے ،تعلیم سے انسان اور اقوام میں بیداری آتی ہے ،صحیح سوچنے وسمجھنے کا شعور پیداہوتاہے۔خصوصا دینی تعلیم انسان کو اعلیٰ اخلاق ،بہتر کرداراور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ اسی تعلیم ہی کے ذریعہ اللہ نے ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو تمام مخلوقات پر فوقیت وافضلیت بخشی اور اسی اہمیت ہی کے پیش نظر اپنے آخری نبی جناب محمد بن عبداللہ ﷺ پر وحی کا آغاز لفظ ’’إقراء ‘‘سے کیا ۔بنیادی طور پرآج ہمارے معاشرے وسماج میں تعلیم کی دو قسمیں کی جاتی ہیں : (1) دینی تعلیم (2): دنیاوی /عصری تعلیم ۔
|
|
|
عبدالباری شفیق سلفی صدرمدرس : مدرسہ الحکمہ جامع مسجد اہل حدیث خیرانی روڈ ،ساکی ناکہ ،ممبئی |
|
دینی تعلیم کی اہمیت وافادیت عبدالباری شفیق سلفی (امام وخطیب جامع مسجد اہل حدیث خیرانی روڈ ساکی ناکہ ،ممبئی ) تعلیم کی اہمیت وضرورت اور اس کی افادیت ہر دور وزمانہ میں مسلم رہی ہے ،چونکہ علم ہی ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو ظلمت وتاریکی کے عمیق غار سے نکال کرروشن شاہراہ اور بلندی کی اوج ثریا پر فائز فرماتاہے ،تعلیم سے انسان اور اقوام میں بیداری آتی ہے ،صحیح سوچنے وسمجھنے کا شعور پیداہوتاہے۔خصوصا دینی تعلیم انسان کو اعلیٰ اخلاق ،بہتر کرداراور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ اسی تعلیم ہی کے ذریعہ اللہ نے ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو تمام مخلوقات پر فوقیت وافضلیت بخشی اور اسی اہمیت ہی کے پیش نظر اپنے آخری نبی جناب محمد بن عبداللہ ﷺ پر وحی کا آغاز لفظ ’’إقراء ‘‘سے کیا ۔بنیادی طور پرآج ہمارے معاشرے وسماج میں تعلیم کی دو قسمیں کی جاتی ہیں : (1) دینی تعلیم (2): دنیاوی /عصری تعلیم ۔ دنیاوی تعلیم کے بالمقابل دینی تعلیم کا اپنا ایک الگ مقام ومرتبہ ہے ،چاہے دنیا کے معاملے میں ہو یا آخرت کے معاملے میں ۔کیونکہ دینی تعلیم سے روشناس انسان کو سماج کے اندر عزت وشرف کی نگاہ سے دیکھاجاتااور ان کی عزت وتوقیر کی جاتی ہے ،اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ فرمایاہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے، نیز اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے درجات کو بلند کردیتاہے جو صاحب ایمان اور صاحب علم ہوتے ہیں ۔اسی طرح نبی کریمﷺ نےفرمایاکہ "تم میں سب سے اچھے اور بہتر لوگ وہ ہیں جو کتاب وسنت کی باتیں سیکھتے اور لوگوں کو سکھاتے ہیں "۔ نیز دوسری حدیث میں نبی کریم ﷺ نے علم دین کو سیکھنے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کراتےہوئےاس کا تاکیدی حکم بھی دیاہے کہ "طَلبُ العِلمِ فَريضةٌ عَلى كلِّ مُسلمٍ " ۔ یعنی علم دین کا سیکھنا ہر مسلمان ( مردوخواتین ) پر فرض ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ : 224) غرض اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں نبی ﷺ نے تمام مسلمان مردوخواتین ، امیر وغریب،چھوٹے بڑے، پڑھے لکھے وان پڑھ ، مزدور وکسا ن اور نوکر ومالک غرض کوئی بھی ہو اس پر دین کا ضروری و بنیادی علم حاصل کرنا میں فرض عین ہے۔ اسی طرح دینی تعلیم انسان کو صحیح وغلط ،حلال وحرام میں تمیز کرنے اور صراط مستقیم پر چلنے کی رہنمائی نیز معاشرہ کی اصلا ح میں اہم کردار اداکرتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر انسان کے پاس علم کی دولت نہیں ہے تو معاشرہ میںذلیل وحقیر سمجھا جاتاہےاور اس کو سماج میں وہ مقام ومرتبہ نہیں مل پاتاجو ایک پڑھے لکھے انسان کو ملتی ہے ۔اگر ہم عہدِصحابہ سے لے کر آج تک کے ادوار کا جائزہ لے لیں تو ہمیں ہر جگہ اور ہر موڑ پر تعلیم کی اہمیت وفضیلت کا پتہ چلے گا ،نیزنبی کریمﷺ کا جابجا مساجد اور ان میں دینی مدارس ومکاتب کا قائم کرنا علم کی اہمیت وافادیت کو واضح کرتی ہے ،چاہے دارارقم کا اسلامی ودینی قلعہ ہو یا مسجد قباء کا دینی مدرسہ یامسجدنبوی کا چبوترہ (صفّہ ) ہو یا پھر جنگِ بدر کے ان ستر قیدیوں کا معاملہ ،جنہیں محض اس شرط پر بلامعاوضہ چھوڑ دیاجاتاہے کہ وہ مدینہ کے دس دس لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ۔ یا پھرہجرت مدینہ سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اسلام کا پہلا داعی ،مبلغ ومعلم بناکر بھیجاجانا ۔یہ تمام عظیم الشان کارنامے دینی تعلیم کی اہمیت وافادیت کی روشن دلیل ہیں ۔ خصوصا آج کے اس پرُآشوب دور میں جب کہ ہر چہار جانب فتنوںکا بول بالا ہے ،مساجد و مدارس اور مکاتب نیز اسلام ومسلمانوں کے ساتھ بہت سارے نت نئے چیلنجز ہیں ،ایسے پرُفتن دور میں مدارس ومکاتب کو قائم کرنا نیز قائم شدہ مدارس کے نظام کو مزید منظم ومستحسن کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ چونکہ یہ مدارس اسلام کے مضبوط ترین قلعے ہیں ،یہیں سے صبح وشام قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کی جاتیں ، عقائد وعبادات اوراخلاقیات وسماجیات کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہیں،یہیں سے منبرومحراب کی زینت بننے والے قوم وملت کے معمار وسپوت تیار کئے جاتے ہیں ،قوم کی بہن بیٹیوں کی اصلاح وتربیت کا فریضہ انجام دیاجاتاہے ۔ لیکن سوء اتفاق اگر آج اسلام کے ان قلعوں کی حفاظت اور احسن طریقے سے دیکھ بھال نہ کی گئی ،ان کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیاگیا، اپنا مال ووقت صرف نہ کیاگیا تو یقینا وہ دن دور نہیں کہ آنے والی نسلیں ہم پر طعن وتشنیع کے نشتر برسائیں اور گھنائونے القاب سے ملقب کریں گی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیم کی اہمیت وافادیت کو سمجھتے ہوئے ہر سماج ومحلے اور مساجد میں دینی مکاتب ومدارس قائم کریں اور ان میں ٹھوس وبنیادی تعلیم کا بندوبست کریں ،باخلاق وباکردار اور ماہر اساتذہ کا انتخاب کریں جو قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو سنوارنے میں اپنا اہم کردار اداکرسکیں ۔چونکہ یہی مدارس ومکاتب اور ان میں زیر تعلیم طلباء وطالبات مستقبل کے معمار اور قوم وملت کا قیمتی اثاثہ وسرمایہ ہیں اگر آج ہم نے ان کی حفاظت نہ کی تویقینا ہم دنیامیں بھی ذلیل وخوار ہوں گےاور کل قیامت کے دن بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہاں ان کے متعلق جوابدہ ہونا ہے ۔ عبدالباری شفیق سلفی صدرمدرس : مدرسہ الحکمہ امام وخطیب : جامع مسجد اہل حدیث خیرانی روڈ ،ساکی ناکہ ،ممبئی -72
|
|