تعلیم کے فروغ میں اسلام کا کردار

تعلیم کی اہمیت وضرورت ہر دور وہرزمانہ میں مسلم رہی ہے ۔ چونکہ علم ہی ایک ایسا زیورہے جس کے ذریعہ انسان دنیا کے اندر ترقی کے منازل طے کرتاہے ،اچھے برے کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ حلال وحرام کے درمیان فرق پیداکرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے علم سیکھنے پر جابجا ابھارا ہے،جہاں ایک طرف اللہ رب العالمین نے اس کی عظمت کو اپنے مقدس کلام کے اندر بیان فرمایاہے وہیں دوسری طرف نبی آخرالزماں ﷺنے بھی اس کی عظمت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے امت کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ علم دین حاصل کریں اور لوگوں کو سکھائیں ۔اورایسے افراد دنیا کے افضل ترین لوگ ہیں جو کتاب اللہ وسنت رسول کی تعلیمات کو سیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی سکھاتے بھی ہیں۔

عبدالباری شفیق سلفی (امام وخطیب جامع مسجد اہلحدیث خیرانی روڈ ،ساکی ناکہ -ممبئی )

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعلیم کے فروغ میں اسلام کا کردار
عبدالباری شفیق السلفی
(امام وخطیب جامع مسجد اہلحدیث خیرانی روڈ ،ساکی ناکہ -ممبئی )
تعلیم کی اہمیت وضرورت ہر دور وہرزمانہ میں مسلم رہی ہے ۔ چونکہ علم ہی ایک ایسا زیورہے جس کے ذریعہ انسان دنیا کے اندر ترقی کے منازل طے کرتاہے ،اچھے برے کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ حلال وحرام کے درمیان فرق پیداکرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے علم سیکھنے پر جابجا ابھارا ہے،جہاں ایک طرف اللہ رب العالمین نے اس کی عظمت کو اپنے مقدس کلام کے اندر بیان فرمایاہے وہیں دوسری طرف نبی آخرالزماں ﷺنے بھی اس کی عظمت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے امت کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ علم دین حاصل کریں اور لوگوں کو سکھائیں ۔اورایسے افراد دنیا کے افضل ترین لوگ ہیں جو کتاب اللہ وسنت رسول کی تعلیمات کو سیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی سکھاتے بھی ہیں۔ جیساکہ نبی کا فرمان ہے : (خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ) ترجمہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے(صحیح بخاری:5027)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ : (إن اللهَ يَرفعُ بهذا الكِتابِ أقْواماً ويَضَعُ به آخَرِينَ۔(مسلم) ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے۔اس اعتبارسے دینی تعلیم جہاں ایک طرف نعمت خداوندی ہے وہیں دوسری طرف رحمت ربانی بھی ہے۔ اور خصوصا علم دین دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کا اور باعث نجات ہے ۔
اسی تعلیم کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو فرشتوں اور تمام مخلوقات پر فوقیت وافضلیت بخشی۔ اور اسی اہمیت کے پیش نظر تمام انبیائے کرام کے سردار خاتم النبین جناب محمدرسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز لفظ اقراء یعنی پڑھ سے ہوا اور سورہ علق کی ان ابتدائی پانچ آیتوں سے تعلیم کی اہمیت اور علم کی عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے ۔غرض امت محمدیہ کے نام اللہ تبارک وتعالیٰ کا سبب سے پہلا پیغام تعلیم کے حوالے سے ہے ،اسی طرح سیدنا ابراہیم واسماعیل ؑ نے جب دنیا کے سب سے پہلے عبادت خانے (مسجدحرام) کو تعمیر فرمایا اور جب وہاں چند قبیلے وافراد آباد ہوئے تو انہوں نے اپنے پرودرگار سے دعا فرمائی کہ :(رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [سورة البقرة:129)ترجمہ :اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقیناً تو غلبہ والا اور ۔حکمت والا ہےنیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ کا اس دارفانی کے اندر بھیجے جانے کا اولین مقصد ہی تعلیم تعلم ہے جیساکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ (ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ)ترجمہ:وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے ۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ (جمعہ : 2)اسی طرح آپ ﷺ کے قلوب واذہان کی اصلاح اور آپﷺ کی تعلیم وتربیت کااہتمام عرش والے نے براہ راست فرمائی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :( وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا)(نساء:113)ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھااور اللہ تعالٰی کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے ۔
اسی طرح علم وحکمت اور دین ودانائی کا مقام ومرتبہ اور اہل علم کی عظمت وفضیلت اسلام میں کتنی عظیم ہے اس کااندازہ کتاب وسنت کے اندر موجود دلائل سے لگا یا جاسکتاے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ(يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ) ترجمہ:(وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس شخص کو حکمت و دانائی عطا کی گئی اسے خیر کثیر عطا کردی گئی اور نصیحت تو صرف عقل مندہی قبول کرتے ہیں)(بقرہ:269)اور اہل علم کے متعلق اللہ نے فرمایاکہ (قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب.“ (الزمر:۹)(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔) اور تاریکی وجہالت ،روشنی وعلم کے درمیان تمیز کرتے ہوئے فرمایاکہ : کیااندھے (جاہل )اور دیکھنے والے (عالم) برابر ہوسکتے ہیں۔ایسا ہرگز نہیںہوسکتاہے ۔ اسی طرح بے شمار احادیث میں بھی علم سیکھنے ،سکھانے اور اس کے پھیلانے پر کافی زور دیاگیاہے اور اہل علم کی عظمت وفضیلت کو جابجا بیان فرمایاگیاہے ۔ کہیں تو انھیں سب سے بہترین انسان کہاگیا ہے کہیں عالم کو جاہل پر فضیلت دی گئی اور کہیں یہ مژدہ اور بشارت سنائی گئی کہ ایک عالم اور دین اسلام کی نشرواشاعت کرنےوالےخوش نصیبوں کے حق میں دینا کی تمام مخلوقات حتی کی مچھلیاں سمندر اور چونٹیاں اپنے سوراخوں میں اہل علم کے حق میں دعائیں دیتی ہیں۔
اب آیئے دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ میں اسلام نے کیا کردار ادا کیاہے ۔ تو اس سلسلے میں جب ہم کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مذہب اسلام نے شروع ہی سے تعلیم کےفروغ میں کافی زور دیاہے اور جابجا تعلیم کو حاصل کرنے اور لوگوں کو سکھانے کا حکم دیاہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ(بلِّغوا عنِّي ولو آيةً)(بخاری )میرایہ پیغام دنیا کے گوشے گوشے او ر چپے چپے میں پہنچادو چاہے تمہارے پاس ایک ہی آیت کا علم کیوں نہ ہو۔
تعلیم وتعلم کے حوالے سے جب ہم نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کی سیر ت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ آپ ﷺ کو نبی بنائے جانےاور اقراء کا آفاقی پیغا م نازل ہونے کے بعد آپﷺ نے مکہ میں دارارقم میں چوری چھپے اپنے جانثار صحابہ کی ایک قلیل تعداد کو کتاب وسنت کی تعلیم دیتے اور علم وحکمت کی باتیں بتاتے ہیں۔ہجرت مدینہ سے پہلے ایک طرح دارارقم اسلام کی پہلی دینی درسگاہ تھی جہاں صحابہ کو کتاب وسنت کی تعلیم اور ایمان وعقیدہ کی اصلاح اور شرک وبدعت نیز بت پرستی کی غلاظتوں سے روکاجارہاہے ۔ اسی طرح ہجرت مدینہ سے پہلے اور بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد اہل یثرب کو کتاب وسنت کی تعلیم کو فروغ دینے اور اس کی نشرواشاعت کے لیے اسلام کے پہلے داعی حضرت مصعب بن عمیر کو معلم بناکر مدینہ بھیجا گیا تاکہ وہاں جاکر اہل یثرب کو کتاب وسنت کی آفاقی تعلیم سے روشناس کرائیں اور تعلیم وتعلم نیز دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیں۔ اسی طرح ہجرت مدینہ کے موقع پر مدینہ منورہ سے پہلے نبی کریمﷺ کا قبا ءکی مختصر سی بستی میں ورودمسعود ہوتاہے اور وہاں چودہ دنوں کے دوران قیام ایک مسجد اور دینی درسگاہ کا سنگ بنیاد تعلیم کےفروغ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ،جس اسلامی درسگاہ کی بنیاد نبی آخرالزماں ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے رکھی اور ایک معمار نفیس کی طرح بنفس نفیس اسکی تعمیر وتوسیع میں کافی اہم کردار اداکیا اور تاحیات اس اسلامی یونیورسٹی اور وہاں کے طلبہ کا ہمیشہ خیال رکھتے رہے۔ اسی طرح قباء سے روانگی کے بعد مدینہ منورہ میں جس جگہ آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھتی ہے بحکم الہٰی وہاں ایک مسجد کی تعمیر کا فیصلہ اور اسی سے متصل طالبان علوم نبوت کے لیے ایک خصوصی چبوترہ (صفہ) کا اہتمام علم دین کے فروغ میں کافی اہمیت کاحامل ہے ۔ جس چبوترہ میں رہ کر بڑے بڑے اجلہ صحابہ نے کئی کئی دن بھوکے رہ کر علم کی جستجو میں پڑے رہتے ،بسااوقات جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور اسے بیچ کر کچھ غلہ وغیرہ خرید کر اپنی بھو ک مٹالیتے یاکبھی کسی کے گھر سے کچھ مختصرسا کھانا وغیرہ آجاتا تھا جسے سب مل کر کھالیتے یا بسااوقات پیٹ پر پتھر رکھ کر اسی چبوترہ میں پڑے رہتے اور اپنے نبی نیز ساتھیوں سے علم دین سیکھتے اور سکھاتے رہتے تھے۔سیدنا ابوہریرۃجیسی عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں آتاہے کہ بھوک سے چکر اجاتے اور کبھی کبھی بیہوش ہوجاتے تھے لیکن علم کی تلاش وجستجو میں نبی کی رفاقت کو چھوڑنا گوارا نہ کرتے تھے بلکہ اپنے حبیب سے کتاب وسنت کا علم حاصل کرتے اور اسے یاد کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ احادیث کا سب سے بڑا ذخیرہ حضرت ابوہریرہ کے پاس تھا ،جو مفتی اعظم اور قاضی القضاۃ جیسے اہم منصب پر فائز ہوئے اور خلفائے راشدین کے زمانے میں اپنے علم کو دنیا کے چپے چپے اورگوشے گوشے میں پھیلایا اور تعلیم کے فروغ میں اہم رول اداکیا ۔ غرض اصحاب صفہ کا وہ مختصر سامکان بعد میں اسلام کی ایک عظیم الشان دینی درسگاہ (یونیورسٹی) بن کر تعلیم کے فروغ میں عظیم الشان کردار اداکرتی ہے۔
محترم قارئین !چونکہ تعلیم کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور اہل یثرب کے باشندوں میں بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھےاس لیے غزوہ بدر کے موقع پر مکہ کے قیدیوں کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی کہ جو لوگ فدیہ نہیں دے سکتے وہ اہل مدینہ کے ہر دس دس لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دویہی ان کا فدیہ اور آزادی کا پروانہ ہوگا اس طرح مکہ کے خطرناک قسم کے مجرموں کا فدیہ لکھنا پڑھنا قرار پاتاہے جو صحابہ اور نبی کے جانی دشمن تھے جنہوں نے مکہ میں نبی اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہر قسم کی بدتمیزی کی تھی ۔ لیکن چونکہ نبی آخرالزماں ﷺتعلیم کی اہمیت سمجھتے تھے اس لئے آپ نے یہ شرط لگائی کہ اہل مدینہ کو لکھنا پڑھنا سکھا دو اور آزاد ہوجائو۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت ؓ نے جوکاتب وحی تھے اسی طرح اور انھیںقیدیوںسے لکھنا پڑھناسیکھا تھااور بعد میں تعلیم کے فروغ میں ایک کردار اداکیا ۔ غرض اس طرح کی بے شمار دلیلیں کتاب وسنت کے اندر موجود ہیں کہ اسلام نے تعلیم کے فروغ میں کافی اہم کردار اداکیاہے اسی طرح صلح حدیبیہ6ہجری کے بعدصحابہ دنیا کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں پھیل کر اسلام کی نشرواشاعت اور تعلیم وتعلم کا فریضہ انجا دیتے ہیں ۔ جس کی بدولت دوسال کی قلیل مدت میں لاکھوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں اور فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع پر لاکھوں صحابہ کا مجمع نبی کے ساتھ فاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہوکر اسلام کی نشرواشاعت اور کفروشرک کی بیخ کنی کرتاہے اور اسلام کے پرچم کو بلند کرتاہےاور جاہلی تمام رسوم ورواج کا خاتمہ کرتاہے ۔اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کا سوالاکھ صحابہ سے خطاب کرنا اور اسلام کی نشرواشاعت ،دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دینا اور تعلیم وتعلم کی طرف رغبت دلانا اور (لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ منكمُ الغائِبَ؛ فلَعَلَّ الغائِبَ أنْ يَكونَ أوعى له مِنَ الشَّاهِدِ)(بخاری)نیز (بلِّغوا عنِّي ولو آيةً)(بخاری )کا آفاقی پیغام دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام نے شروع ہی سے تعلیم کے فروغ میں کا فی اہم کردار اداکیاہے ۔ اورنبی آخرالزماںﷺ نے جابجا تعلیم وتعلم کے حوالے سے یہ بشارت دی ہے کہ ( مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَبْتَغِی فِیْہِ عِلْماً سَلَکَ اللّٰہُ بِہ طَرِیْقاً اَلَی الْجَنَّةِ، وَاِنَّ الْمَلائِکَةَ لَتَضَعُ اَجنِحْتَھَا رَضًی لَطَالِبِ الْعِلْمِ، وَاِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہُ مَنْ فِی السَّمَواتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ حَتَّی الْحِیتَانُ فَی الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِم عَلَی الْعَابِدِ، کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، انَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَاءِ، اِنَّ الْاَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلَا دِرْھَماً، اِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ اَخَذَ بِہ فَقَدْ اَخَذَ بِحَظّ وَافَرٍ.“ (جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔) اور اللہ نے فرمایاکہ ((”یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ.“(المجادلہ:۱۱)(تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے ،اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔)اور نبی نے بشارت دی کہ((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ) ترجمہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے(صحیح بخاری:5027)۔
اس طرح کی بے شمار دلیلیں کتاب وسنت کے اندر موجودہیں جو ہماری اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ اسلام نے تعلیم کے فروغ میں ہمیشہ سے مثبت پہلو اختیار کیا ہے اورخوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اہل علم کی اس جانب خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے ۔ نیز اپنے متبعین وپیروکاروں کو علم سیکھنے وسکھانے کی طرف راغب کیاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ بئر معونہ پر ستر اہل علم صحابہ کے شہادت کی خبر سنتے ہیں تو دلبرادشتہ ہوجاتے ہیں آنکھیں آنسوئوں سے اشکبارہوجاتی ہیںاور تقریبا ایک مہینہ تک ان مظلوم اہل علم قراءوحفاظ ا صحابہ کے حق میں فرض نمازوں میں ان کےحق میں دعائیں اور ان مردود ظالمین ،غداروں اور دھوکہ بازوں کے حق میں بدعائیں فرماتے ہیں ۔ جنہوں نے اسلام کی نشرواشاعت اور تعلیم کے فروغ کی کوششوں میں اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیا۔
لہذاآج کے اس پرفتن دور میں ہماری بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی اسلام کے متبعین وپیرکار کی حیثیت سے کتاب وسنت کی تعلیما ت کو اپنے زبان وقلم ،سیر ت وسلوک کے ذریعہ پوری دنیا میں عام کریں اور تعلیم کے فروغ میں اسلام نے جو آفاقی کردار اداکیا ہے اس کو اپنے قلوب واذہان کے اندر پیوست کرتے ہوئے صحابہ وسلف صالحین کے منہج کو اپناتے ہوئے اسی روشن شاہراہ پر چل کر تعلیم کے چراغ کو اخلاص وللہیت کے ساتھ پوری دنیا میںعام کریں ،اسی میں ہماری فلاح وبہبود نیزدنیا وی واخروی کامیابی کا رازمضمر ہے ۔
اللہ ہمیں اخلاص وللہیت کے ساتھ تعلیم کے فروغ میں اسلام کے روشن شاہر اہ پر چلنے اور خلوص کے ساتھ تعلیم کے فروغ میں اپنا مثبت اوراہم کردارادا کرنے کی توفیق بخشے ۔ اللہ ہماراحامی وناصر ہو ۔آمین !

عبدالباری شفیق السلفی
امام وخطیب جامع مسجد اہلحدیث 
خیرانی روڈ ،ساکی ناکہ -ممبئی
موبائل نمبر:8268131366
[email protected]

 

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 117 Articles with 162420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.