امام رومیؒایک حکایت میں
لکھتے ہیں کہ ایک فقیر شیخ بغداد میں ایک نابینا کے مہمان ہوئے وہاں وہ
نابینا ایک کٹیا میں تنہا رہتے تھے انہوں نے وہاں قرآن حکیم کا ایک نسخہ
دیکھا وہ حیران ہوئے کہ یہ صاحب خانہ تو نابینا ہیں پہلے سوچا کہ سوال کریں
مگر پھر سوال کرنے کی بجائے صبر کو ترجیح دی ۔
ایک رات انہوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنی دیکھا کہ وہ نابینا
میزبان دیکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں مہمان نے ان سے دریافت کیا
کہ آپ نابینا ہیں اور پھر بھی آپ درست تلاوت کررہے ہیں جس جگہ پر آپ نے
انگلی رکھی ہوئی ہے وہی تحریر ہے جو آپ زبان سے پڑھ رہے ہیں اس میں کیا
حکمت ہے ۔۔؟ میزبان نے کہا کہ میں حافظ قرآن نہیں ہوں میں نے اللہ سے دعا
کی میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں لہٰذا مجھے قرآن کی تلاوت کے وقت بینائی عطا
کردے اللہ نے میرے خلوص اور محبت قرآن کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ طاقت دی کہ
میں قرآن کی تلاوت کے وقت آنکھوں سے دیکھ کر پڑھ لیتا ہوں اگر جذبہ خالص
اور مقصد نیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی استعانت سے انسان پر کرامات کا ظہورہوتا
ہے ۔
قارئین !آزاد کشمیر میں 26جون کوہونے والے انتخابات کے موقع پر سیکرٹری
اطلاعات وسیاحت سلیم بسمل نے ایک پریس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ
الیکشن کے موقع پر ”ضابطہ اخلاق “پر سختی سے عملدرآمدکیا جائے گا، دھاندلی
روکنے کیلئے تمام محکمہ جات کے سربراہان کو سخت ہدایات جاری کردی گئی ہیں
میڈیا آزادی کے ساتھ الیکشن مانیٹر کرے گا تقرریوں،تبادلوں اورمختلف منصوبہ
جات کے افتتاح پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ”یہاں تک کہ اگر الیکشن مہم میں
کوئی بھی سرکاری ملازم ملوث پایا گیا تو ایکشن لیاجائےگا۔۔۔“
ضابطہ ءاخلاق بنانا اور بات ہے اور اس پر درست معنوں میں عمل درآمد
کروانادوسری بات۔ ”ضابطہ اخلاق“کب کس وقت کس کے اشاروں پر ”ضابطہ ءبداخلاق“
بن جائے اس پر تبصرہ کرنا گردن کٹوانے کے مترداف ہے ۔بقول شاعر
صدحیف ،صدہزارسخن ہائے گفتنی
خوف ِفساد ِخلق سے ناگفتہ رہ گئے
افسوس کہ ایسی لاکھو ں باتیں اورموضوعات جن پر ہم بات کرنا چاہتے ہیں اور
بات کی جا سکتی ہے صرف اور صرف خلقت میں ہنگامے کے خطرے کے پیش نظر ہم ان
پر بات نہیں کرسکتے ۔
قارئین کون نہیں جانتاکہ محکمہ تعلیم کے 30ہزار سے زائد ملازمین ہر الیکشن
کے موقع پر کسی نہ کسی شخصیت کی الیکشن کمپین کھلم کھلا چلارہے ہوتے ہیں اس
بات سے کون زی عقل انکار کرسکتا ہے کہ پٹواری سے لے کر گرداور تک مختلف
افسران واہلکار اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے محبوب قائدین کو اسمبلی
میں پہنچانے کیلئے کیا کیاحربے اورحیلے اختیار نہیں کرتے اور کھل کر
انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیتے سرکاری ملازمین انتخابات کے بعد اپنی اپنی
خدمات کا حوالہ دے کر اپنے اپنے معاملات بھی حل کرواتے ہیں۔ تقرریاں
،تبادلے ،ترقیابیاں اور بہت کچھ حاصل کیاجاتا ہے یہاں خودی کی باتیں کیا
کرنی کہ میرٹ اورضابطہ اخلاق پر درست معنوں میں عملدرآمد کرنا اور کروانا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔
بقول اقبالؒ
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداکیا ہے
کیامیں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیاہے
خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیرسے پہلے
خدابندے سے خود پوچھے بتاتیر ی رضا کیاہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشین مجھ سے وہ چشم سرمہ ساکیاہے
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کردیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
قارئین! خردمندی کے تقاضے تویہ ہیں کہ آزادکشمیر کے 30لاکھ سے زائد ووٹرز
کو اپنا حق رائے دہی آزادی سے استعمال کرنے دیاجائے اور حق رائے دہی کے اس
عمل کے دوران سرکاری ملازمین سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب کو دیانتداری سے
اپنا کام کرنے کا موقع دیاجائے اگر نیت درست اور ارادوں کی سمت صیحح ہو تو
امام رومیؒ کی تحریر کردہ حکایت کی مثال صادق آتی ہے اور نابینا کوبھی
بینائی عطا ہوجاتی ہے بدقسمتی سے اس علّت کا شکار تمام سیاسی جماعتیں ہیں
کہ کچھ تو علی الا علان اور کچھ پس پردہ ہی یہ پریکٹس کرتے ہوئی دکھائی
دیتی ہیں یہ بات مزید خوفناک شکل اس وقت اختیار کرجاتی ہے کہ سرکاری
ملازمین جب اس سیاسی عمل میں اپنا اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں تو بعدازاں جس جس
فرض منصبی کیلئے وہ تعینات ہوتے ہیں وہ فرائض منصبی اس دیانتداری اورکمٹمنٹ
سے ادانہیں کئے جاتے کیونکہ انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے چشم بینا
کیلئے قطر ہ کے اندر ایک قلزم پوشید ہ ہوتاہے ضابطہ اخلاق کے اس ایک چاول
سے پوری دیگ کی غذائیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
قارئین عوامی خدمت کے دعوؤں کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ
ن ، مسلم کانفرنس ،جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتیں امیدواروں کے ساتھ
سامنے آرہی ہیں کشمیری قوم کے ہاتھ میںاپنے فیصلے ہیں دل یاشکم ۔۔۔؟قومی
مفادات یا ذاتی فوائد۔۔۔؟
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک امریکی سیاستدان نے عوامی خدمت کیلئے اپنی کاوشوں کا زکر کرتے ہوئے کہا
کہ ”ہم نے اپنے سائنسدانوں کو حکم دیا ہے کہ ایک ایسا الارم کلاک ایجاد
کریں کہ جس کے بجتے ہی ڈبل روٹی ،انڈا تلنے اور چائے کی خوشبو آئے گی “
غریب عوام بے حال ہیں سیاسی قائدین سے گزارش ہے کہ اعلانات کی بجائے
اقدامات پر توجہ دیں روس کی ملکہ کی طرح روٹی نہ ملنے پر ڈبل روٹی کھانے کے
مشورے نہ دیئے جائیں ضابطہ اخلاق کا اخلاقیات کے دائرے کے اندر رہنا یہ
سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔؟ |