اس وقت جہاں دنیاکوروناوباکے خطرے سے دوچارہے وہاں حالیہ
امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کے بعددنیاجوبائیڈن کی انتخابی تقریروں
اوردعدے وعید کی بناء پربالعموم دنیابھرمیں اوربالخصوص خلیج میں ٹرمپ کی
جارحانہ پالیسیوں میں واضح اور یقینی تبدیلیوں کی امید لگائے بیٹھی ہے۔
جوبائیڈن نے دنیابھراپنی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف
اورجنوبی ایشیا میں جوہری تبدیلیوں کااشارہ دیکر امریکاکی ساکھ بہتربنانے
کا جو وعدہ کیاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیاامریکاکے پالیسی ساز ادارے ٹرمپ
پالیسیوں سے ”یوٹرن”لینے کاارادہ کر چکے ہیں یاایک مرتبہ پھرسازشوں کاایک
ایسانیاجال تیارکیاجائے گاجہاں صہیونی عزائم کی تکمیل میں کوئی رخنہ نہ
پڑسکے۔جوبائیڈن نے اپنے ایک غیرسرکاری بیان میں کچھ شرائط کے ساتھ ایران کے
بائیکاٹ ختم کرنے کاجہاں عندیہ دیاہے وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے
دیرینہ حلیف سعودی عرب کودی ہوئی رعایات کوپابندیوں میں جکڑنے کاعمل شروع
کریں گے اوراس سلسلے میں ”جمال خاشفجی” کے مبینہ قتل سے آغازکیا جا سکتاہے۔
یوں لگ رہاہے کہ سعودی عرب اوراس کے اتحادیوں کی طرف سے قطر کے خلاف مغرب
اورامریکامیں چلائی گئی بائیکاٹ میں ان کونہ صرف شکست ہوگئی ہے بلکہ قطرنے
ایران کی معاونت سے بڑی تندہی کے ساتھ نہ صرف امریکی کانگرس اورسینیٹ بلکہ
امریکی عوام کے اندرچلائی گئی میڈیامہم میں خاصی کامیابی حاصل کر لی ہے
اوریقیناً انہوں نے اپنے اس مشن کواپنے انجام تک پہنچانے کیلئے جوبائیڈن کے
انتخابات میں اپنے کارڈکو بہترین اندازسے استعمال کیاہے۔ امریکامیں جہاں
انتخابات کی گہما گہمی تھی وہاں امریکی ایوان کی مستقل کمیٹی کے سامنے
سعودی عرب اورامریکاکی انٹیلی جنس تعلقات پربحث جاری تھی جہاں سی آئی اے کے
ایک سنیئر اہلکار”بروس ریڈیل”کی گواہی نے بہت سے خدشات کو یقین میں بدل
دیاہے اوران حالات کاسب سے زیادہ فائدہ صہیونی طاقتوں نے اٹھایاہے جس کیلئے
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پہلا قدم رکھتے ہی اپنے یہودی نژادداماد ”جیراڈ”
کوخلیجی ممالک سے اسرائیل کوتسلیم کروانااورچین کے بڑھتے ہوئے معاشی
اثرورسوخ کے آگے بند باندھناتھا۔چین بروقت اور تیزی سے ان خطرات کاادراک
کرتے ہوئے خطے میں اس کاتدارک کرتے ہوئے کامیاب نظرآرہاہے تاہم خلیجی ممالک
کی آپس کی کشمکش اورباہم خانہ جنگی نے ان کوکمزورہدف بنادیاہے اور اسرائیل
کوتسلیم کرنے اورخطے میں اس کی بالادستی ماننے کے باوجود اپنی سلامتی کیلئے
ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں اورسعودی وزیرخارجہ کے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے مشروط
اعلان نے ساری قلعی کھول دی ہے۔
یقیناًسعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکاکاسب سے پرانااتحادی ہے۔ یہ1943ء کی
بات ہے جب امریکی صدرفرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ کودعوت دی کہ
وہ اپنے بیٹوں کوواشنگٹن کے دورے پربھیجیں تاکہ امریکااورسعودی عرب کے
درمیان بات چیت کاآغازکیاجا سکے ۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے فیصل
کوبھیجاجوبعدمیں بادشاہ بنے۔1945ءمیں ویلنٹائن کے دن مصرمیں تاریخی اجلاس
ہوا،جس میں امریکانے ابن سعودکے ساتھ براہ راست معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ
امریکااورسعودی عرب کے درمیان ہمیشہ بہت سادہ رہاہے۔اس معاہدے کے تحت
امریکانے سعودی عرب کے توانائی کے ذخائرتک رسائی حاصل کی اوربدلے میں سعودی
عرب کی داخلی اورخارجی سلامتی کی ذمہ داری اٹھائی۔
امریکی،سعودی سلامتی اورانٹلیجنس تعلقات سے متعلق سماعت کے دوران انٹلیجنس
سے متعلق ایوان کی مستقل سلیکٹ کمیٹی کے سامنے بروس ریڈیل نےگواہی دیتے
ہوئے کہاکہ”1977ء میں جب سے میں نے سی آئی اے میں شمولیت اختیارکی،تب سے
میں ان تعلقات پرنظررکھے ہوئے ہوں ۔ان تعلقات میں اتارچڑھاؤآتارہاہے
جیساکہ1991ءکی جنگِ خلیج میں تعاون اپنی انتہاپرتھااور اسی طرح1973ءمیں جب
سعودی عرب نے تیل کی امریکا درآمدپرپابندی لگائی تودونوں ممالک کے درمیان
تعلقات خرابی کی انتہا کوچھورہے تھے۔پھر19برس قبل11ستمبرکاواقعہ پیش
آیالیکن اب سعودی عرب کے ساتھ جوتعلقات تشکیل پارہے ہیں وہ اس سب سے مختلف
ہیں جوگزشتہ75برسوں میں میں نے دیکھاہے۔
حالیہ عرصے میں شاہ سلمان اوران کے بیٹے ولی عہدمحمد بن سلمان نے سعودی عرب
میں ایک تسلسل کے ساتھ ایسی جارحانہ خارجہ پالیسیوں کاآغازکیاجونہ صرف
نقصان دہ ہیں بلکہ خطے میں اوردنیابھرمیں امریکی مفادات کیلئےبھی نقصان دہ
ثابت ہورہی ہیں۔ان سب پالیسیوں کے روحِ رواں ولی عہد ہیں۔ ہرنئی پالیسی کے
پیچھےولی عہدہی نظرآتے ہیں اوروہ ہرکام پرمکمل عملدرآمدتک خودنگرانی کرتے
ہیں،اس بات کااندازہ جمال خاشقجی کے قتل والے معاملے سے بھی لگایاجاسکتاہے
لیکن سارے عمل میں شاہ سلمان کی اہمیت کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتاکیوںکہ
ولی عہدکے ہراقدام کانہ صرف قانونی جوازفراہم کرتے ہیں بلکہ ولی عہد کی
سرگرمیوں کوتحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔
سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت محتاط اورہرقسم کے خطرات سے دوررہنے
والی مملکت ہے۔یہ مسائل سے نمٹنے کیلئےفوجی قوت کے استعمال کی بجائے مالی
وسائل خرچ کرنے کوترجیح دیتی تھی۔اسی طرح منظرنامے پرآنے کے بجائے پس پردہ
رہ کرکام کرنے پرترجیح دی جاتی تھی۔ محمدبن سلمان کے اقتدارمیں آنے کے
بعدگزشتہ پانچ برسوں میں یہ سب کچھ ڈرامائی طورپرتبدیل ہواہے۔جیساکہ میں نے
پہلے کہاسعودی عرب بہت ہی غیرمتوقع،لاپروا، خطرناک ہوچکاہے۔
میں اپنی بات کی وضاحت کیلئےموجودہ پالیسیوں کے تین نکات پربات کروں گا۔ان
میں سب سے اہم یمن جنگ ہے۔یمن کی جنگ آج کی دنیاکا سب سے بڑاانسانی المیہ
ہے۔ہزاروں،لاکھوں بچے مشکلات کاشکارہیں اوران میں سے بہت سے بچے شاید زندہ
بھی نہ رہ سکیں۔محمدبن سلمان نے آغازمیں یمن کے مسئلے کوبہت جلدحل کرلینے
کااعلان کیاتھالیکن یہ سعودی عرب کیلئےدلدل ثابت ہوا، اوراس کی بہت بڑی
قیمت سعودی عرب کواداکرنی پڑرہی ہے۔ بجائے اس کے کہ دارالحکومت صنعاسے حوثی
باغیوں(زیدی شیعوں) کوبے دخل کیاجاتا،اس جنگ نے ایران کوبحراحمر اورباب
المندب میں ایک مستقل جگہ فراہم کردی اورایران کوحوثی باغیوں پرزیادہ وسائل
نہیں لگانے پڑے۔یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور ایران کے اخراجات کااگرتقابلی
جائزہ لیاجائے تونتیجہ بہت ہی مختلف نظرآتاہے۔بجائے اس جنگ کے ذریعے ایران
کے گردگھیراتنگ کیاجاتاالٹا سعودی شہرحوثیوں کے حملوں کی زد میں آ گئے
۔سعودی انفراسٹرکچرپرحملے اورایک مرتبہ توبراہ راست ایرانی میزائل اورڈرون
بھی ان حملوں میں استعمال ہوئے اور سعودی عرب کواس صورتحال سے
دوچاردیکھناایک قابل غورمعاملہ ہے۔
میراخیال ہے اب سعودی عرب کواپنی غلطی کااحساس ہوچکاہے،اوروہ جلداز جلد اس
جنگ کاخاتمہ چاہتاہے۔سعودی عرب دومرتبہ جنگ بندی کی آفر کر چکاہےلیکن یمن
سے اپنی فوجیں نکالنے پرتیارہے اورنہ ہی وہ یمنی صدرکی فوج کی حمایت سے
پیچھے ہٹ رہاہے۔دوسری طرف زیدی شیعوں کوجنگ بندی کی کوئی جلدی نہیں۔اورصاف
ظاہرہوتاہے کہ زیدی شیعوں کویہ یقین ہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں۔یہ جنگ کلی
طورپر محمدبن سلمان کاآئیڈیاہے۔وہ پانچ برس قبل جب اس جنگ میں کودے تونہ
ہی انہوں نے اس کی کوئی تزویراتی منصوبہ بندی کی تھی،اورنہ ہی اپنے
اتحادیوں خاص طورپرپاکستان اور عمان کواعتمادمیں لیا،جوکہ اس قسم کے
تنازعات کوختم کرنے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔اوروہ اب اپنی غلطی
کیلئےقربانی کابکراتلاش کرنے کیلئےبے چین ہیں۔محمدبن سلما ن کواس بات
کابخوبی علم ہے کہ شاہی خاندان میں بہت سے لوگ انہیں اس دلدل میں پھنسانے
کاذمے دارسمجھتے ہیں۔حالیہ دنوں میں محمد بن سلمان نے یمن میں سعودی فوج کے
کمانڈرکوبدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔جنگ کے آغازپرسعودی عرب کے
اتحادی ممالک خاص طور پرعرب امارات،اردن اوربحرین جواس جنگ میں سعودی عرب
کے ساتھ تھے،اب وہ ساتھ چھوڑچکے ہیں۔ اگرچہ امارات اب بھی تھوڑابہت ساتھ دے
رہاہے لیکن عملی طورپروہ سب اس جنگ سے نکل چکے ہیں۔
صرف امریکااورکسی حدتک برطانیہ اس جنگ میں ایسی تکنیکی امداددے رہے
ہیں،جواس جنگ کوجاری رکھے ہوئے ہے۔اب یہ بہت ضروری ہے کہ اس جنگ کے خاتمے
کیلئےکچھ کیاجائے۔اس جنگ کی وجہ سے انسانی المیے نے جنم لیاہے اوربے حساب
تباہی ہوئی ہے۔اس جنگ نے ہمیں اس مقام پرلاکھڑا کیا ہے،جہاں ہم سعودی عرب
کے ساتھ مل کرعرب دنیاکی غریب ترین ریاست پرظلم ڈھارہے ہیں،امریکاکواس جنگ
سے نکلنے کیلئےتیزی سے اقدامات کرنے چاہییں۔
میری سفارشات تویہ ہوں گی کہ امریکاکوسعودی عرب سے اپنی فوج کونکال
لیناچاہیے،ان کے ٹریننگ پروگرام ختم کر دینے چاہییں،اسلحے کی فروخت کاکوئی
نیامعاہدہ نہیں کرناچاہیے،بلکہ سب سے اہم تویہ کہ اسلحے کی فروخت کے موجودہ
معاہدات کو بھی ختم کردیناچاہیے۔سعودی رائل ائیرفورس کے پاس موجوددوتہائی
لڑاکاطیارے امریکانے دیے ہیں،جبکہ ایک تہائی برطانیہ نے فراہم کیے
ہیں۔درحقیقت اگرامریکااوربرطانیہ سعودی شاہی فضائیہ کی رسد بندکردیں تووہ
یک دم ہی زمین پرآجائے گی۔اس بات سے امریکاکے اثرورسوخ کا اندازہ
لگایاجاسکتاہے،تاہم جتنااثر ورسوخ ہے اتنی ہی ذمے داری بھی۔
دوسرااہم معاملہ قطرکے بائیکاٹ کاہے،جس کاآغاز2017ءمیں ہواتھا۔سعودی عرب،
متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اعلان کیاکہ وہ قطرکے ساتھ ہرقسم کے سفارتی
تعلقات ختم کررہے ہیں،اس کے فضائی حدودبھی بندکررہے ہیں اورآپس کی سرحدیں
بھی بند کرنے کااعلان کیا۔ان اقدامات سے خلیج تعاون کونسل کوشدیدنقصان
پہنچا۔خلیج تعاون کونسل کوبنانے میں امریکانے اہم کرداراداکیا تھا۔80ءکی
دہائی میں خلیج فارس میں ایرانی اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئےصدررونلڈریگن نے
یہ تنظیم بنوائی تھی۔آج کی خلیج تعاون کونسل بہت ہی کمزورتنظیم بن چکی
ہے۔درحقیقت خلیج تعاون کونسل اب ٹوٹ چکی ہے،قطرنے اس سے علیحدگی اختیارکر
لی ہے اورترکی نے اس کی بھرپورحمایت کی ہے۔بحرین،سعودی عرب اورامارات ایک
الگ اتحادہے،جس کی حمایت مصرکررہا ہے۔کویت اپنے آپ کوان سب معاملات سے الگ
رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے،جبکہ عمان ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی غیر
جانبدارہی رہاہے۔
امریکانے ان ممالک کی افواج کواکٹھاکرنے اوران کی تربیت کرنے میں کئی سال
لگائے۔یہ اندازہ لگاناتومشکل ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کس حد تک خراب ہوئے
ہیں،لیکن اس کاتعین ضرورہوناچاہیے کہ ان سب کاذمے دارکون ہے؟اوران حالات
کاسب سے زیادہ فائدہ کس کوہواہے؟ایک مرتبہ پھرایران نے ہی ان سب حالات
کابھرپورفائدہ اٹھایاہے،جیساکہ اس نے یمن جنگ کااٹھایا،بالکل اس طرح خلیج
تعاون کونسل کے ٹوٹنے کاسب سے زیادہ فائدہ بھی ایران کوہی ہواہے۔ ان
تنازعات کے خاتمے کی کوئی امیدنظرنہیں آرہی۔میں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ان
حکام سے بات کی جوقطر بائیکاٹ ختم کروانے کی کوششیں کررہے ہیں ان
کاکہناتھاکہ ہمیں حالات کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نظرنہیں آرہی۔اس وقت
امریکاکوچاہیے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اوربحرین پرقطرکے بائیکاٹ کے
خاتمے کیلئےدباؤڈالے۔
آخرمیں ایک اہم معاملہ سعودی عرب میں جبراوردباؤکاہے۔اس کوسمجھنے
کیلئےبہترین مثال خاشقجی کے قتل کی ہے۔اس پربہت بات ہوچکی ہے۔تاہم پچھلے
عرصے میں محمدبن نائف کوبھی گرفتارکرلیاگیا۔محمدبن نائف نے نہ صرف سعودی
عرب بلکہ باقی دنیامیں بھی القاعدہ کے خاتمے میں اہم کرداراداکیا ۔انہیں
بدعنوانی کے الزام میں گرفتارکیاگیاہے،اوران کی صحت کے حوالے سے کافی خدشات
موجودہیں۔انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کی تاریخ کوئی اچھی نہیں
رہی۔خاص طورپرصنفی مساوات پرتوبہت خدشات رہے ہیں۔لیکن ماضی میں اپنے
مخالفین کودوسرے ممالک میں قتل کروانے کا کام کبھی نہیں کیاگیا۔اس سب میں
اہم کردارمحمدبن سلمان اداکررہے ہیں۔اورامریکابھی ان غیرقانونی کاموں میں
سعودی عرب کے اتحادی کے طورپر سب کے سامنے ہے”۔
یوں لگتاہے کہ جلدہی جمال خاشفجی کابے گناہ خون سرچڑھ کربولے گااورذمہ
داروں کواس کااسی دنیامیں حساب دیناپڑے گا۔
یہ امیرمینائی کہاں سے چلے آئے ہیں:
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
|