دیویندر فردنویس نے مہاراشٹر اسمبلی انتخاب سے قبل
شیوسینا کے ساتھ اتحاد تو کرلیا لیکن وہ پسند کی شادی نہیں ۔ بی جے پی
چاہتی تھی کہ اس بار پھر سے کانگریس اور این سی پی میں تین طلاق ہوجائے۔ اس
کے لیے انہوں نے امیت شاہ کی مدد سے شرد پوار پر دباو بنانے کی پرانی کوشش
کو دوہرایا ۔ اجیت پوار کے گھر انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا چھاپہ مروانے کے بعد
انہیں یقین تھا کہ ۲۰۱۴ کی مانند این سی پی ہتھیار ڈال دے گی کیونکہ پوار
کے کئی ساتھیوں کو پہلے ہی جال میں پھنسایا جا چکا تھا اور ذرائع ابلاغ میں
یہ ہوا بن چکی تھی کہ مہاراشٹر میں حزب اختلاف کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ دیویندر
فردنویس اس بات کو بھول گئے کہ شرد پوار ان بھگوڑوں کی وجہ سے لیڈر نہیں
بنے بلکہ وہ احسان فراموش شرد پوار کے سبب آسمانِ سیاست پر چمکے تھے ۔ اس
کی بڑی مثال ادین راجے بھونسلےہیں جنہیں شیواجی کا خوانوادہ بھی نہیں بچا
سکا ۔ اس شخص نے پلوامہ لہر میں این سی پی کی ٹکٹ پر پارلیمانی انتخابکے
اندر کامیابی حاصل کی مگر بی جے پی کے سہارے اسمبلی الیکشن بھی نہیں جیت
سکا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شردپوار ذرائع ابلاغ کا تراشیدہ کاغذی شیر کا نام
نہیں ہے کہ جس میں میڈیا ہوا بھرتا ہے اور جب چاہتا نکال دیتا ہے۔
شرد پوار نے چونکہ اس بار گھاس نہیں ڈالی اس لیے ایف آئی آر میں ان کا
نام بھی شامل کردیا گیا ۔ فردنویس یہ بات بھول گئے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں
میں مخالفین کے دل سے مودی کا ڈر نکل چکا ہے اس لیے اب کوئی کمل سے خوف
نہیں کھاتا ۔ شرد پوار نے بی جے پی کی دھمکی کویہ کہہ کر اپنے حق میں کرلیا
کہ مجھے جیل جانے کا تجربہ نہیں ہے اس لیے سرکار اس سے آشنا کردے تو
مہربانی ہوگی ۔ اس طرح موانع کو مواقع میں بدل کر شرد پوار نے سرکار کو
مدافعت پر مجبور کردیا اور اسے یہ صفائی پیش کرنی پڑی کہ فی الحال گرفتار
کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس پر جب نامہ نگاروں نے پوچھا تو کیا آگے چل
کر آپ لوگ شرد پوار کو گرفتار کرنے والے ہیں؟ تو پھر سےسرکار کو صفائی
دینی پڑی کہ شردپوار کو کبھی بھی گرفتار نہیں کیا جائےگا۔ اس ایک احمقانہ
فیصلے نے مراٹھوں کو ریزرویشن دے کر حاصل کیے گئے سیاسی فائدے کو زائل
کردیااور مراٹھا قوم کی حمیت کو ٹھیس پہنچا کر اسے این سی پی کی جھولی میں
ڈال دیا ۔ اس طرح اجیت پوار کے بھی وارے نیارے ہوگئے اور انہوں نے دولاکھ
سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے اپنےمخالف بی جے پی امیدوار کی ضمانت ضبط کرواوی۔
شرد پوار نے اس بار یقیناً بہت زبردست انتخابی مہم چلائی مگر بی جے پی کا
بڑا نقصان خود فردنویس کے مرہونِ منت ہے ۔ میدانِ سیاست میں طفیلی رہنماوں
کو سب سے زیادہ خطرہ خود اپنی پارٹی کے حریفوں سے ہوتا ہے ۔ اس کو اپنی
بقاء کے لیے اندر والوں کا سرکچلنا پڑتا ہے۔ یہ جس قدر مودی کی مجبوری ہے
اس سے زیادہ فردنویس اس کے لیے مجبورہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فردنویس نے اپنی
مدت کار کے دوران وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا۔ یہی حال یوگی
ادیتیہ ناتھ کا بھی ہے کہ انہیں اپنی پوری جماعت میں اس عہدے کا کوئی اہل
نظر نہیں آیا اور خود مودی نے مرکز میں کسی طرح پانچ سالوں تک اس عہدے پر
راجناتھ کو برداشت کیا مگر موقع ملتے ہی اپنے دست راست امیت شاہ کو اس پر
فائز کردیا ۔ یہ معاملہ صلاحیت کا نہیں بلکہ اعتماد کا ہے۔ یہیں سے اپنے
سیاسی حریفوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے پولس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پچھلے
پانچ سالوں میں فردنویس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس شکست سے لت پت
کامیابی کے باوجود جس نے انہیں ہیرو سے زیرو بنادیا ہےپارٹی کے اندر ان کو
چیلنج کرنے والا کوئی نہیں بچا ہے ۔
فردنویس نے اپنی انتقامی سیاست کی ابتداء چھگن بھجبل سے کی جن کا تعلق این
سی پی سے تھا اور اس کے بعد اپنی ہی پارٹی کے ایکناتھ کھڑسے پر ہاتھ ڈالا۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل پینتیس سالوں تک پارٹی کی خدمت میں
اپنی زندگی وقف کردینے والے ایکناتھ کھڑسے ایک زمانے میں وزارتِ اعلیٰ کے
سب سے بڑے دعویدار تھے۔ ان کو جب پتہ چلا کہ کسی اور کے نام پر غور ہورہا
ہے تو وہ اس قدر بددل ہوے کہ وزیراعلیٰ کو منتخب کرنے کے لیے بلائی گئی
ارکان اسمبلی کی نشست کا بائیکاٹ کردیا ۔ موجودہ کارگذار صدر جے پی نڈاّ کو
منانے کی خاطر ان کے گھر جانا پڑا۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس یقین دہانی یا
دھمکی کے بعد انہوں نے لوٹ کر دیویندر فردنویس کا نام پیش کیا لیکن یہ سب
جانتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت نے اپنے وزیر محصول پر بدعنوانی کے بے
بنیاد الزام لگایا۔ یہاں تک داود ابراہیم سے رابطے کا بھی سنگین بہتان لگا
کر ان سے استعفیٰ لے لیا گیا ۔ آگے چل کردیویندر فردنویس نے براہمنی مکاری
کا مظاہرہ کرتے ہوے ان کو کلین چٹ تو دی مگر وزارت نہیں لوٹائی ۔
ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ کھیلا جانے والا چوہے بلی کا کھیل قابلِ دید تھا ۔
پارلیمانی انتخاب کے وقت کھڑسے کی بہو کو ٹکٹ دے کر ان کا غصہ کم کرنے کی
کوشش کی گئی اس کے بعد اسمبلی الیکشن سے پہلے ان سے کہا گیا کہ پارٹی ان کو
کوئی بڑی ذمہ داری دینا چاہتی ہے۔ کھڑسے جہاندیدہ سیاستداں ہیں۔ وہ سمجھ
گئے کہ کسی دور دراز کے صوبے میں گورنر بناکر ان کا کانٹا نکالنے کی تیاری
ہورہی ہے۔ یہ عہدہ دراصل سیاسی سنیاس کی رشوت کے طور دیا جاتا ہے۔ کھڑسے اس
پر راضی نہیں ہوے۔ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں کام کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے
جب دیکھا کہ بی جے پی کی پہلی فہرست میں نام نہیں ہے تو ازخود جاکر فارم
بھردیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ چوتھی اور آخری فہرست میں ایکناتھ کھڑسے کی
بیٹی روہنی کا نام مکتائی نگر کے امیدوار کی حیثیت سے آگیا ۔ فردنویس نے
یہ کام بھی بادلِ ناخواستہ کیا تھا ۔ بعید نہیں کہ وزیراعلیٰ کی سازش سے
روہنی کو ہرایا گیا ہو۔ فردنویس کو ایک چیلنج گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی پنکجا
سے بھی تھا ۔ ان پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے اور کردار کشی ہوتی رہی
یہاں تک کہ اس بار وہ بھی روہنی کی طرح ناکام ہوگئیں ۔
بھجبل ، کھڑسے اور منڈے دیگر پسماندہ ذاتوں کی نمائندگی کرنے والے تین اہم
ترین رہنماوں کا نام ہے ۔ مہاراشٹر میں جس وقت مراٹھا کانگریس کے ساتھ اور
براہمن اشتراکیت کے علمبردار تھے اس وقت دیگر پسماندہ طبقات کے کندھے پر
چڑھ کر بی جے پی نے میدانِ سیاست میں قدم جمائے ۔ وزیراعلیٰ وسنت راو نایک
کے بعد اسی طبقہ کی مدد سے بی جے پی نے ودربھ میں اپنی ساکھ بنائی لیکن
فردنویس نے اسی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کی جس پر سوار ہوکر وہ وزیراعلی ٰ بنے
تھے ۔ اس بار اگر شیوسینا کھلے طور پر اور پرکاش امبیڈکر کا پوشیدہ ساتھ
نہیں ہوتا تو وہ منہ کے بل زمین پر آجاتے ۔ پرکاش امبیڈکر کے سبب بی جے پی
کو پچیس نشستیں جیتنے میں مدد ملی ۔ دورانِ جنگ وہ رسد اگر نہیں آتی تو
کمل ۱۰۷ پر بھی نہیں پہنچ پاتا۔ ویسے اپنے بل بوتے پر ۱۲۲ نشستوں پر
کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی کا شیوسینا کے ساتھ ہونے پر بھی ایک سو
سات پر سمٹ جانا کوئی کم ذلت و رسوائی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ ان دیگر
پسماندہ طبقات کا بی جے پی سے دور ہوجانا ہے۔
دیویندر فردنویس کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ نقصان ہوگا مگر اس کو پورا
کرنے کے لیے انہوں نے کانگریس اور این سی پی سے اپنے مخالفین کو توڑنے کی
حکمت عملی بنائی اور اس میں انہیں کامیابی ملی ۔ ایوان اسمبلی میں کانگریس
کے لیڈر وکھے پاٹل کا بی جے پی میں آجانا بہت بڑی بات تھی اور پھر تو یہ
ہوا کہ آئے دن ایک نہ ایک رہنما کے بی جے پی یا شیوسینا میں شامل ہونے کی
خبر ذرائع ابلاغ میں آتی اور اس سے حزب اختلاف کی ہوا اکھاڑنے کا کام لیا
جاتا ۔ فردنویس یہ بھول گئے کہ ہر رہنما کے ساتھ اس کےاپنے اور پارٹی کے
وفادار ہوتے ہیں ۔ کوئی رہنما جب دل بدلی کرتا ہے تو پارٹی کے وفادار اس کے
ساتھ نہیں جاتے بلکہ وہ نمبر دو رہنما کے ساتھ ہوجاتے ہیں ۔ انتخابی نتائج
میں موقع پرستوں کی شکست اس کا بینّ ثبوت ہے۔ غیروں کو اس حکمت عملی
سےمرعوب کرتے کرتے خود وزیراعلیٰ بھی اس کے نشے میں دُھت ہوگئے اور آخر
آخر میں تو انہوں نے ممبئی کے مراٹھا رہنما ونود تاوڑے اور کامٹی کے چندر
شیکھر باون کلے کو بھی نہیں بخشا ۔ اس کے بعد اپنے چیف وہپ راج پروہت اور
پرکاش مہتا تک کو ٹھکانے لگادیا ۔ اس طرح غیروں کے بھروسے اپنوں کی پیٹھ
میں چھرا گھونپنے والے وزیراعلیٰ کو انتخابی نتائج نے لہولہان کردیا۔ اس
میں ان مسلم سیاستدانوں کے لیے بھی سامانِ عبرت ہے جو اپنے ذاتی یا جماعتی
مفاد کو ملت پر فوقیت دیتے ہیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|