فوزیہ وہاب کا دورہ کوٹ ادو

سرائیکی وسیب کی دور دراز پسماندہ اور غریب ترین تحصیل کوٹ ادو میں ppp کے ٹکٹ پر دو مرتبہMNA منتخب ہونے والے درویش منش مرد قلندر اورppp مظفرگڑھ کے ضلعی صدر محسن علی قریشی کی عدم موجودگی کے کارن سیاسی سرگرمیوں سیاسی میلوں ٹھیلوں اور بیٹھکوں پر سکوت و جمود نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ 176 na کے ممبر پارلیمان کو اپنے سیاسی ایمان و ایقان کی روشنی میں مقدس ترین ادارے کا تصور رکھنے تھے وہ پچھلے2 سال سے پمز ہسپتال اسلام اباد میں بستر علالت پر ہیں۔ سیاسی بلوغت کے بلند و بالا مقام پر فروکش کوٹ ادو میں سیلاب نے3 لاکھوں کسانوں فصلوں جانوروں اور مکانات کو ہڑپ کرلیا۔سیلابی قیامت کے بعد عوام کی اکثریت بحالی کے کاموں میں جت گئی۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود بحالی کی شرح 20 فیصد ہے۔سیلاب بھی سیاسی جمود کے بنیادی اسباب کااہم فیکٹر ہے۔ mna کی علالت کے کارن ppp کے مرکزی وزرا نے اس حلقے میں قدم رکھنے کی زحمت ہی نہ کی مگر گیلانی صاحب نے اپنا فرض بجاآوری و فرض شناسی سے انجام دیا۔وزیراعظم 3 مرتبہ کوٹ آدو ائے۔انہوں نے پہلے دورے میں میگا پراجکیٹ ہیڈ محمد والا کا افتتاح کیا جہاں انہوں نے محسن قریشی کے فرزند ڈاکٹر شبیر علی کا شریکین جلسہ سے تعارف کروایا۔تیسری مرتبہ وہ وطن کارڈ کی تقسیم کے لئے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ہمراہ ایک گھنٹے کے لئے ڈگری کالج کوٹ ادو میں تشریف لائے تھے۔ ۔3 مارچ کو صدر مملکت کی مشیر فوزیہ وہاب نے زرداری صاحب کی خصوصی ہدایت پر na 176کوٹ ادو کا دورہ کیا۔ دورے کا اصل مقصد مرکزی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی رفتا رppp کے تنظیمی امور, پارٹی عہدیداروں اور جیالوں کے مسائل اور2012 کے جنرل الیکشن کی تیاریوں کا جائزہ لینا مطلوب تھا۔ایک طرف جہاں فوزیہ وہاب کو ppp کے شریک چیرمین و صدر مملکت زرداری کے ٹاسک کو انکی ہدایات کی روشنی میں مکمل کرنے کا چیلنج تھا تو دوسری طرف کوٹ ادو کےmna محسن علی قریشی کے جانشین فرزند اور 2012 کے انتخابی معرکے میںpppٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ڈاکٹر شبیر علی قریشی اور ppp کی تحصیلی تنظیم کے لئے جاں گسل مسئلہ درپیش تھا کہ فوزیہ وہاب کا شان شایان استقبال کیا جائے۔ کسی وفاقی وزیر و مشیر کے استقبال کے لئے صرف ایک دن کی مہلت دینا قرین انصاف نہیں۔ ڈاکٹر شبیر محسن علی نو خیز نظر نوجوان ہیں جنہوں نے ابھی حال ہی میں نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ڈگری حاصل کی ہے۔وہ اپنے والد mnaمحسن علی قریشی کی برین ہیمبرج کے بعد کوچہ سیاست میں انسان دوستی غریب پروری اور عزم و جنون کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر وارد ہوئے۔ وہ ایک دن کی مہلت پرتناؤ کا شکار تھے ۔ فوزیہ وہاب کے استقبال کے لئے ایک عظیم الشان ریلی اور جلوس کا انعقاد ٹیسٹ کیس تھا۔ فوزیہ وہاب ملتان ایرپورٹ پر اتریں جہاں pppکے علاقائی عمائدین نے دل کی گہرائیوں اور گیراوں سے صدر کی مشیر کو ویلکم کیا۔ فوزیہ وہاب قافلے کی صورت میں مظفرگڑھ پہنچیں جہاں انہوں نے مہر ارشاد سیال MPA کی والدہ کی رحلت پر فاتحہ خوانی کی۔ مہر ارشاد کی رہائش گاہ پر سینکڑوں ورکرز اور عہدیدار امڈ آئے۔ ورکرز جیالوں اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے اپنی تقاریر میں mna جمشید دستی کے روئیے پر تنقید کی اور شکایات کا دفتر کھول لیا۔ مظفرگڑھ سے فوزیہ وہاب ڈاکٹر شبیر علی قریشی ppp صوبائی نشستpp.213 کے ٹکٹ ہولڈر بیرسٹر یوسف پیر ماجد گیلانی میاں رفیق قریشی قاسم مغل غضنفر نیازیٰ عباسو جیالا ظاہر خان پٹھان اور ملک طاہر پتل سابق یونین ناظم اور مظہر پہوڑ ارشاد سیالMPA ملک بلال کھرMPA اور جیالوں کے ہمراہ کوٹ ادو پہنچیں۔فوزیہ وہاب اور اپنے محبوب رہنما ڈاکٹر شبیر محسن علی قریشی کی جھلک دیکھنے کے لئے لعل میر جو کوٹ ادو شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے موجود تھے۔ فوزیہ وہاب اتنی بڑی ریلی اورہزاروں وابستگان قریشی گروپ اور پارٹی کے تاریخ ساز اجتماع نے ایک طرف مخالفین کو لوہے کے چنے چبوادئیے اور دوسری طرف فوزیہ وہاب گرمیوں میں ہزاروں جیالوں کی گرم جوشی پر وہ ششدر رہ گئیں۔ غیر جانبدار زرائع کے مطابق ریلی میں7 ہزار افراد 5 سو موٹر سائیکل2 سو کاریں موجود تھیں۔جیالوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا۔کوٹ ادو کی فضا 3 گھنٹوں تک جئے بھٹو زرداری سب پر بھاری محسن میاں زندہ باد شبیر قریشی زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونجتی رہی۔کوٹ ادو کی تاریخ میں طویل عرصے بعد ppp ایک سحر انگیز شو کرنے میں کامیاب رہی۔سیاسی پنڈتوں کے جائزوں کے مطابق فوزیہ وہاب کی آمد نے پی پی پی کی صفوں میں پھیلی مایوسی اداسی اور نراسیت کو عزم و جنون میں بدل دیا۔ فوزیہ وہاب کو بڑے جلوس کی شکل میں ممبر قومی اسمبلی محسن علی قریشی اور انکے جانشین فرد ڈاکٹر شبیر علی قریشی کی رہائش گاہ پر لایا گیا۔فوزیہ وہاب نے صدر مملکت ذرداری کا خصوصی پیغام سابق ممبر قومی اسمبلی اور ڈاکٹر شبیر علی قریشی کی والدہ محترمہ خالدہ محسن علی قریشی تک پہنچایا۔ فوزیہ وہاب نے ورکرز کو یقین دہانی کروائی کہ انکے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے۔ریلی و جلوس میں ہزاروں افراد کی شرکت نے یہ ثابت کردیا کہ جیالوں اور متوالوں نے ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو اپنا نیا سیاسی مہاراج تسلیم کرلیا۔ شدید ترین گرمیوں میں رنگ پور سے لیکر چوک منڈا اور دائرہ و احسان پور کے دوردراز علاقوں سے ہزاروں افراد نے ڈاکٹر شبیر علی قریشی کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کر کے محسن علی قریشی کی 25 سالہ لازوال و انمٹ خدمات کا اعتراف کیا۔ صدر مملکت زرداری اور پارٹی کے پالیسی میکرز کو چاہیے کہ وہ بھی محسن قریشی ایسے سرتاپا وفا رہنما کی خدمات کا برملا اعتراف کریں اور انکی زوجہ و سابق ایم این اے خالدہ بی بی یا ڈاکٹر شبیر قریشی میں سے ایک کوحکومتی مشیر اور دوسرے کو پارٹی کی ضلعی صدارت کا تاج پہنائیں۔یاد رہے کہ علیل ایم این اے محسن قریشی کو بی بی بینظیر نے ضلع مظفرگڑھ کا صدر نامزد کیا تھا۔محسن قریشی کی صدارت میں پی پی پی نے ملک گیر ریکارڈ قائم کیا تھا۔سابق الیکشن میں ضلع مظفرگڑھ سے پی پی پی نے قومی کی 5نشستیں جیت کر کلین سوئیپ کیا تھا۔ شنید ہے کہ فریال تالپور صاحبہ آجکل پارٹی کے تنظیمی معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔پی پی پی رہنماوں رفیق قریشی، پیر ماجد گیلانی، اراے ملک طارق چانڈیہ قاسم مغل ارشاد سیال mpa رائے عابد حسین مظہر چانڈیہ چوک منڈا سردار شاہ رنگ پور حنیف چانڈیہ مظہر پہوڑ اور دیگر نے صدر مملکت اور فریال تالپور سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد ڈاکٹر شبیر قریشی کو ضلعی صدارت کے عہدے سے سرفراز کریں ورنہ آمدہ الیکشن میں پی پی پی کے ووٹ بنک کو نقصان کا اندیشہ ہے۔ علاقے کے سیاسی عمائدین کی آرا کی روشنی میں قومی حلقے میں اصل مقابلہ پی پی پی اور ن لیگ میں ہوگا۔حلقے بھر میں ہونے والے اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں نے انتخابی دوڑ میں پی پی پی کو پہلی جبکہ ہنجرا گروپ کو دوسری دوسری پوزیشن پوزیشن دکھائی دیتی ہے۔ اگر ڈاکٹر شبیر علی قریشی نے عوام کی خدمت اور جیالوں کی شفقت گیری کا موجودہ پیمانہ برقرار رکھا تو پی پی پی اسی حلقے میں ہیٹرک کرسکتی ہے۔ ریلی میں جھومر مارتے ہوئے رنگ پور کا ایک جیالا شہید جمہوریت دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا۔صدر مملکت فوزیہ وہاب اور مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ رنگ پور کے شہید جمہوریت کے پسماندگان کی پانچ لاکھ کی مالی امداد اور روزگار کی سہولت عطاکرے۔ ڈاکٹر شبیر قریشی کوٹ ادو میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے کیمپس اور محسن علی قریشی سٹیڈیم کی تعمیر کو حتمی شکل دیں۔پی پی پی کے نئے امرت دھارا شبیر قریشی کو قائد عوام بھٹو کے اس قول پر غور و فکر کرکے آگے بڑھیں۔بھٹو نے کہا تھا حکمرانوں عوام کی آواز سنو عوام کی آواز اللہ کی آواز ہے اس پر کان دھرو اگر غریبوں کی آواز کو دھتکارو گے تو خدا کا عذاب تمھارا مقدر ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.