آٹزم ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے جس میں مریض کو بات چیت، میل
جول، سوچ سمجھ اور اپنے حواس کو کنٹرول کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ آٹزم
سے متاثرہ مریض کا دماغ عام انسان کے مقابلے میں ایک مختلف طریقے پر
نشوونما پاتا اور کام کرتا ہے۔ یہ دنیا کو مختلف انداز سے دیکھتے اور
سمجھتے ہیں۔ آٹزم کا شکار ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اس کی علامات
بھی دوسرے آٹزم بچوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ بچے یا تو ہر پل تبدیلی چاہتے
ہیں یا پھر یکسانیت کو پسند کرتے ہیں اور نئے ماحول یا ہر صورتِ حال کے
مطابق ڈھلنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں اور اپنی
بات سمجھا نہیں پاتے۔ عام طور پر یہ بچے دوسروں سے نظریں نہیں (poor eye
contact) ملاتے۔ ان کا نام پکارا جائے تو متوجہ نہیں ہوتے اگرچہ وہ اپنا
نام سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کے زیادہ قریب آئے اور
ان کو چھوئے (don’t liked to be touch)۔ یہ اپنے جذ بات کا اظہار نہیں کر
پاتے۔ ان کو کچھ کام بہت آسان لگتے ہیں اور کچھ انتہائی آسان کام بہت مشکل
لگتے ہیں۔ عام طور پر ایسے بچے کھلونوں سے کھیلتے نہیں ہیں بس انھیں جمع
کرتے ہیں اور ایک خاص ترتیب میں رکھتے ہیں اور اس ترتیب میں تبدیلی برداشت
نہیں کرتے۔ انھیں چیزوں کو گھمانا اور ان کو گھومتے ہوئے دیکھتے رہنا اچھا
لگتا ہے۔ یہ بہت دیر تک بغیر اکتائے پنکھے کو گھومتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
یہ ہاتھوں کو پھڑپھڑاتے (hand flapping) ہیں۔ ہاتھوں پر لرزہ بھی ہوتا ہے۔
اپنی خوشی کا اظہار ہاتھوں کو پھڑپھڑا کر کرتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں کومختلف
انداز میں گھما گھما کر ان سے کھیلتے ہیں۔ چلنے کے دوران ایڑھیاں اٹھا کر
چلتے (toe walking) ہیں اور سارا وزن پنجوں پر ڈال دیتے ہیں۔ کئی مرتبہ
مسلسل ایک ہی لفظ کو بہت دیر تک دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں غصہ (aggressive)
بہت زیادہ آتا ہے۔ کسی ایک ہی بات کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر فکر
مند اور سوچوں میں رہتے ہیں یا پھر بالکل سپاٹ۔ کبھی یہ منہ سے عجیب وغریب
آوازیں نکالتے ہیں تو کبھی عجیب و غریب شکلیں بناتے یعنی منہ بگاڑتے رہتے
ہیں۔ منہ سے رالیں بہنا، اپنے پرائیویٹ پارٹ کو چھیڑتے رہنا، جنسی جذبات کو
کنٹرول نہ کر سکنا، یکدم غصہ کرنا، چیزیں پھینکنا یا پھاڑنا یا آگ لگاتے
رہنا، دانتوں سے خود کو یا دوسروں کو کاٹنا، اچانک رونے دھونے لگ جانا بھی
اہم علامات ہیں۔ یہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے غافل نظر آ سکتے ہیں۔ دنیا سے
رابطہ (socially isolated) نہیں رکھنا چاہتے۔ بعض آٹسٹک بچے ہر وقت بال
کٹوانا چاہتے ہیں تو بعض کے بال یا ناخن کٹوانا بہت ایک بہت بڑی مصیبت ہوتی
ہے۔ یہ کئی کئی دن ایک ہی قسم کی خوراک کھانا چاہتے ہیں۔ اگر ڈر ہو تو
مکھی، مچھر، چیونٹی تک کو دیکھتے ہی چیخیں مار مار کر بھاگیں گے اور اگر ڈر
نہیں ہے تو کسی بھی چیز کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ بادل کی گرج چمک،
اندھیرا، روشنی، اونچی آواز سے بھی شدید قسم کا ڈر ہو سکتا ہے۔ یہ بہت
زیادہ ایکٹو ہو سکتے ہیں کہ سارا دن چلتے، دوڑتے بھاگتے رہیں یا اتنے شل
کمزور اور تھکے ہارے کہ کچھ بھی نہ کریں۔
آٹزم کا شکار سب بچے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ آٹزم سے
متاثر ہے تو ضروری نہیں کہ یہ تمام علامات اس میں موجود ہوں۔ سب سے زیادہ
پائی جانے والی علامات میں دیر سے بولنا (lack of speech)، دیر سے چلنا،
تنہائی پسند ہونا اور حواس خمسہ (sensory issues) کو کنٹرول نہ کر پانا ہے۔
ان بچوں کا بولنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے کا انداز عام بچوں سے
مختلف ہوتا ہے۔ اگر ایک جگہ پر پچاس آٹزم بچے ہوں تو ان سب کی علامات ایک
دوسرے سے مختلف ہوں گی۔
اکثر والدین یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ان کا بچہ کب تک ٹھیک ہو جائے گا؟ علاج
کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا؟
درحقیقت یقینی طور پر کوئی بھی بڑے سے بڑا ڈاکٹر اس سوال کا جواب نہیں دے
سکتا۔ صرف آٹزم ہی نہیں دیگر پرانے اور شدید امراض جیسے دمہ (Asthma)،
الرجی(Allergy)، چنبل (psoriasis)، گنٹھیا (Arthritis)، ہائپوتھائرائڈزم
(Hypothyroidism)، ایگزیما (eczema)، مرگی (epilepsy) وغیرہ میں بھی علاج
کی مدت بتانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر انسان کے علاج کا دورانیہ دوسرے انسان سے
مختلف ہوتا ہے۔ آٹزم کے پہلے لیول (mild autism) عام طور پر ایک سے تین سال
کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تیسرے لیول (severe autism) کے کیسز میں پانچ سے
دس سال بھی لگ سکتے ہیں۔
مکمل طور پر شفایابی ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی۔ مکمل صحت یابی کا مطلب ہے کہ
بچہ بالکل ٹھیک ہو جائے۔ اگر کسی ہومیو پیتھک ڈاکٹر سے جلدی اور بروقت علاج
کروایا جائے تو مائلڈ آٹزم (mild autism) میں بہت سے بچے صحت یاب ہو جاتے
ہیں۔ دوسرے (mild to moderate autism) اور تیسرے لیول (severe autism) کے
آٹزم کیسز میں ایک عرصے تک علاج سے ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جاتا
ہے۔ ہر تبدیلی مزید بہتری کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ علاج لمبا ہوتا ہے اور
بہتری کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔
عام طور پر ہاتھوں اور پیروں کی حرکات میں پہلے بہتری آتی ہے۔ بچے نارمل
طریقے سے چلنے لگتے ہیں اور ہاتھوں کو بلاوجہ نہیں ہلاتے ۔نظریں ملانے (eye
contact) کا مسئلہ بھی کچھ بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر بچوں کی سمجھ
بوجھ (comprehension)، بات چیت اور حسی مسائل میں بہتری آتی ہے۔ وہ سماجی
طور قابل قبول حیثیت اختیار کرنے لگتے ہیں؛ لوگوں میں گھلنے ملنے لگتا ہے۔
اس دوران دوسروں سے آنکھیں ملا کر بات کرنے میں بھی سدھار آنا شروع ہو جاتا
ہے۔
جس طرح سب بچوں کی علامات ایک جیسی نہیں ہوتیں؛ اسی طرح ان کے علاج کا
دورانیہ اور نتائج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ بچوں میں کوئی ایک
پہلو پہلے بہتر ہو جاتا ہے اور کچھ بچوں میں دوسرا۔ کچھ بچے پہلے چند ہفتوں
میں ہی اچھا رسپانس دیتے ہیں اور کچھ بچوں میں بہتری آنے میں چند مہینے لگ
جاتے ہیں۔
اگر حال ہی میں آپ کے بچے میں آٹزم کی تشخیص ہوئی ہے تو آپ کو یہ بات اچھی
طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آٹزم کا کوئی جادوئی یا معجزاتی علاج دستیاب نہیں
ہے۔ آپ کےبچے کے علاج کے لیے بہت سا وقت اور محنت درکار ہے۔ علاج کے ساتھ
ساتھ آپ کو دوسری پیشہ وارانہ تھراپی (occupation therapy) ، ABA تھراپی
(ABA therapy) اور اسپیچ تھراپی (speech therapy) کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔
دل چھوٹا نہ کریں۔ بہت سے بچے مکمل طور پر بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ آٹزم کے
دوسرے لیول (mild to moderate autism) کے کیسز میں بچے مستقبل میں ایک
خودمختار زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
والدین کی ایک پریشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ میرا ہی بچہ آٹزم کا شکار کیوں
ہوا؟
اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن یہ وجوہات وہ بہرحال نہیں ہوتیں جو
عام طور پر بتائی جاتی ہیں یا جو والدین سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ سوچنے یا
پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آخر مجھے ہی یہ کیوں ہوا یا میرے بچے کے ساتھ
کیوں ہوا۔۔؟ یہ ایک بے کار سوال ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ بیماری صرف آپ کے بچے تک محدود نہیں ہے۔ ہر اسّی
(80) بچوں میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے۔
مائلڈ آٹزم (mild autism) جسے ہائی فنکشن آٹزم (high function autism) بھی
کہتے ہیں، ان کیسز میں زیادہ تر بچے ذہنی طور پر بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی
حرکات وسکنات میں ایسی علامات نہیں ملتی جن سے ظاہر ہو کہ بچہ ذہنی طور پر
کمزور ہے یا پھر دماغ ضرورت سے زیادہ متحرک ہے۔ ان بچوں میں نظریں ملانا
(eye contact) اور لوگوں کا سامنا کرنے جیسے مسائل دیر سے ظاہر ہوتے ہیں
تاہم ان کی سمجھ بوجھ تقریباً نارمل ہوتی ہے۔
ہومیوپیتھی میں آٹزم کا علاج ممکن ہے اور ہومیوپیتھی میں مائلڈ آٹزم کے
علاج کے بہترین نتائج (best result for mild autism in homeopathy) ملتے
ہیں۔ آٹزم جتنا واضح اور شدید ہوتا ہے علاج کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے کا
یقین دلانا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
آٹزم کے علاج میں ہومیوپیتھی علاج اس وقت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جب
کلاسیکل ہومیوپیتھی طریقہ علاج (Classical homeopathy treatment for
autism) اپنایا جائے۔ یہ معیاری طریقہ علاج بیماری کے اسباب اور علامات کے
اصول پر کام کرتا ہے۔ اس لیے مائلڈ آٹزم کے علاج کے لئے ماہر کلاسیکل
ہومیوپیتھ سے کیس ڈسکس کریں۔
ہومیوپیتھی طریقہ علاج ادویات کا ایک وسیع نظام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ
بیماری کا علاج اس کے نام کے حوالے سے نہیں کرتا خواہ وہ آٹزم ہی ہو۔
بیماری کا نام صرف تشخیص، معائنے اور علاج کے انتخاب کے لیے اہم ہوتا ہے۔
ہومیوپیتھی میں محض بیماری کے نام پر دی جانے والی دوا سے صحت یابی ممکن
نہیں ہوتی۔ ایک ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر، مریض کے ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر
دوا کا انتخاب کرتا ہے۔ دوائی علاج کا فیصلہ اسباب، موجودہ علامات اور
فیملی ہسٹری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے آٹزم کے کسی مریض کے لیے
موزوں ترین دوا کے انتخاب کے لیے آپ کو کلاسیکل ہومیوپیتھ (best
homeopathic doctor) سے رجوع کرنا ہو گا۔ ایسا ہومیوپیتھک ڈاکٹر مریض کی
مکمل میڈیکل ہسٹری لے گا۔ اسے ہومیوپیتھی میں کیس لینا کہتے ہیں۔ کیس
ڈسکشن، درست تشخیص، علاج کا لائحہ عمل اور درست دوا کا انتخاب ایک محنت طلب
اور تحقیقی معاملہ ہوتا ہے۔
ایک تجربہ کار ہومیوپیتھک ڈاکٹر کیس ڈسکشن میں مریض کے ہر چھوٹے، بڑے،
ذاتی، خاندانی، ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل کے بارے میں تفصیلی
معلومات لے گا۔ اس کی پسند ناپسند، کھاناپینا، ہنسنا بولنا، سونے جاگنے کی
روٹین، عمومی رویے، لوگوں سے میل جول، غرض ہر معاملے میں غوروغوض کے بعد
موجودہ صورت حال کے مطابق مناسب ترین دوا کا انتخاب کرے گا۔
والدین یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا ہومیوپیتھی علاج سے مکمل شفا مل جاتی ہے؟
کیا آٹزم سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ مل جاتا ہے؟
تو ان کے لیے عرض ہے کہ"شفا " ایک بہت بڑا لفظ ہے جس سے مراد صحت کی مکمل
طور پر بحالی ہے۔ مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں صحت کی مکمل بحالی عام
طور پر ممکن نہیں ہوتی۔ البتہ آٹزم کے مختلف مریضوں میں الگ الگ درجے کی
بہتری دیکھنے میں آتی ہے جس کا انحصار وجوہات، مرض کی شدت اور معیاری
ہومیوپیتھی علاج پر ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی میں آٹزم سے شفا ممکن ہے لیکن
کامیابی کا تناسب ہر مریض میں مختلف ہوتا ہے۔ کچھ مریض جلدی ٹھیک ہو جاتے
ہیں اور کچھ میں بہتری آنے میں بہت وقت یعنی سالوں لگ سکتے ہیں۔
ہومیوپیتھی ایک جامع طریقہ علاج ہے جو علامات کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔
ہومیوپیتھی لٹریچر میں بہت سے ایسے آٹزم کیسز کا ذکر ملتا ہے جو صحت یاب
ہوئے ہیں یا پھر پہلے سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہومیوپیتھی سےآٹزم کا
علاج صرف تبھی ممکن ہے جب کلاسیکل طریقہ علاج سے استفادہ کیا جائے۔
یاد رکھیے! آٹزم کے نہیں بلکہ اپنے مریض کے بہترین علاج کے لیے کسی ماہر
ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ |