پہلامنظرملاحظہ کیجئے!
یہ16دسمبر1971ءکابڑاہی تکلیف دہ دن ہے،صبح کاوقت ہے،سورج ڈھاکہ ایئرپورٹ کی
شکستہ دیواروں سے اوپراٹھ رہا ہے،ہوائی اڈے پرتباہی کا عالم ہے،ٹوٹے ہوئے
رن وے پرچندفوجی کھڑے ہیں،آسمان پرایک نقطہ ابھرتاہے،یہ نقطہ پھیلتا
پھیلتاہیلی کاپٹرکی شکل اختیارکرلیتاہے،ہیلی کاپٹر ایئرپورٹ کاایک
چکرکاٹتاہوارن وے کے ایک محفوظ کونے پرآہستہ سے اترجاتاہے،پنکھے کی ہواسے
فوجی وردیاں پھڑپھڑاتی ہیں،دروازہ کھلتا ہے، بھارتی فوجی وردی میں ملبوس
ایک سکھ جرنیل باہرنکلتاہے۔رن وے پرکھڑاپاکستانی جرنیل آگے بڑھ کراس
کااستقبال فوجی اندازکے سلیوٹ سے کرتاہے،دونوں ایک اعلیٰ لگژری کارکی طرف
بڑھتے ہیں جہاں کارکے پچھلے دونوں دروازے کھول کرکھڑے چاک وچوبندفوجی
منتظرہیں۔ فوجی بوٹوں کی دھمک کے ساتھ مشینی اندازمیں سلیوٹ کے ساتھ
جرنیلوں کوبیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔کاررن وے پردوڑتی ہے اوردوڑتے دوڑتے
گرد وغبارمیں گم ہوجاتی ہے۔اس کارمیں بھارت کی فاتح فوج کاجرنیل جگجیت سنگھ
اروڑااورپاکستانی فوج کامفتوحہ جرنیل امیرعبداللہ خان نیازی عرف
ٹائیگرنیازی سوارہیں۔
اب دوسرامنظرملاحظہ کیجئے!
صبح کے نوبج کردس منٹ ہوئے ہیں۔ڈھاکہ ریس کورس گراؤنڈکے درمیان میں لکڑی کی
ایک سادہ سی میزپڑی ہے اورمیز کے گردصرف دو کرسیاں دھری ہیں۔گراؤنڈ میں
ہزاروں بنگالی جمع ہیں،بنگالیوں کے آگے پیچھے بھارتی فوج کے سینکڑوں جوان
کھڑے ہیں۔کارگراؤنڈمیں داخل ہوتی ہے، عین میزکے سامنے کاررکتی ہے،دوجوان
آگے بڑھ کر دروازے کھولتے ہیں، دونوں جرنیل باہرنکلتے ہیں،جونہی سامنے پڑی
کرسیوں پربیٹھتے ہیں تو دونوں کے سٹاف آفیسرزان کے پیچھے کھڑے ہو جاتے
ہیں،میزپرایک فائل رکھی جاتی ہے،دونوں جنرل باری باری اس فائل کے کھلے صفحے
کی تحریرکے آخرپرآمنے سامنے دستخط کرتے ہیں۔جنرل نیازی کھڑے ہوتے
ہیں،ہولسٹرسے اپناپستول نکالتے ہیں خالی کرتے ہیں، گولیاں اورپستول جنرل
اروڑاکے حوالے کرتے ہیں۔بھارتی فوج کاایک جوان آگے بڑھتاہے اورجنرل نیازی
کے سینے پرلگے سارے تمغے اور کندھوں پرجمے رینکس اتار لیتاہے۔لگژری کارمیں
آنے والےجنرل نیازی تھکے قدموں کے ساتھ اپنی جیپ کی طرف بڑھتے ہیں،گراؤنڈ
میں ہزاروں بنگالی ان پرگالیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں،وہ چہرہ چھپاتے ہوئے
تیزی کے ساتھ جیپ میں پناہ گزیں ہوجاتے ہیں۔بھارتی جوان غضب ناک بنگالیوں
کے مجمع سے بچاکرٹائیگر نیازی کی جیپ کواپنی حفاظتی تحویل میں لے کراگلی
منزل کوروانہ ہوجاتے ہیں۔فلم ختم ہوجاتی ہے۔
یہ فلم بھارتی ٹیلیویژن نے سینکڑوں مرتبہ اسی طرح دکھائی جس طرح فاسق
کمانڈومشرف کے دورمیں ہماراایک ٹیلیویژن چینل پاک بھارت کے درمیان
دوستی”آشا اورامن”کی تلاش کیلئے چلاتارہاہے۔پاکستان میں ایسے صرف دومواقع
آئے،ایک موقع 16دسمبرکی شام کوآیاجس کے ساتھ یہ خبر نشر ہوئی”دومقامی
جرنیلوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کرلیااور دوسری باریہ فلم
بھٹونے20دسمبر1971ءکومارشل لاءایڈمنسٹریٹرکاحلف اٹھانے کے بعدچلوائی لیکن
آرمی اورعوام کی طرف سے اتناشدید ردِّعمل آیاکہ اس پرتاحیات پابندی لگادی
گئی۔
اب تیسرامنظربھی ملاحظہ کیجئے!
20دسمبر1971ءکویحییٰ خان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عبدالحمیدنیشنل
ڈیفنس کالج میں داخل ہوتے ہیں۔جونیئر آفیسرزانہیں دیکھتے ہی غصے سے بے
قابوہوجاتے ہیں،ان کی آنکھوں میں گویاخون اترآیاہو،انہیں گالیاں دی جاتی
ہیں اور وہ بے بسی کے ساتھ ان جونیئر آفیسرزکو دیکھتے ہیں اورچپ چاپ ہال سے
باہرنکل جاتے ہیں۔
اب چوتھامنظرملاحظہ کیجئے!
دس اپریل1974ءکوٹائیگرنیازی بھارت کی قیدسے چھوٹتے ہیں،واہگہ سے پاکستان
میں داخل ہوتے ہیں اورچندروزبعد وہ افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف سے شکوہ
کرتے ہیں کہ”میں فوج کالیفٹیننٹ جنرل ہوں،میری گاڑی پرپاکستانی جھنڈانہیں
لگایاجاتا،یہ رولزکی خلاف ورزی ہے”!
اب پانچواں منظرملاحظہ کیجئے!
نواگست1980ءکوآغامحمد یحییٰ خان کاتابوت باہرنکلتا ہے،تابوت پرپاکستانی
جھنڈالپٹاہے،جنازہ ہوتاہے،تابوت کوسلامی دی جاتی ہے،بینڈبجتا ہے اورپورے
فوجی اعزازات کے ساتھ انہیں دفن کردجاتاہے!
اب چھٹامنظرملاحظہ کیجئے!
بھٹو صاحب تمام سیاسی جماعتوں کوساتھ ملاکرملک کاایک آئین بناتے ہیں جس میں
خودہی اپنے اقتداراوراختیارات کودوام دینے کیلئے کچھ آئینی ترامیم بھی
منظورکروالیتے ہیں۔پوری تحقیق اورتسلی کے بعد چھٹے نمبرکے جونیئرجرنیل
ضیاءالحق کوفوج کاکمانڈرانچیف مقررکرتے ہیں اور اسی اسمبلی کے فلورپربڑے
تیقن کے ساتھ پاکستان میں فوجی مارشل لاءکوہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنے
کااعلان کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسی جرنیل کے ہاتھوں نہ صرف اقتدارسے
فارغ کردیئے جاتے ہیں بلکہ دنیابھرسے رحم کی درخواستیں موصول ہونے کے
باوجوداسی جرنیل کے حکم سے پھانسی کے تختے پر جھول جاتے ہیں۔جنرل ضیاءالحق
کے دورِاقتدارمیں سرخ ریچھ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان پردھاوابول دیتاہے۔اس
کواپنی طاقت کا اس قدرگھمنڈہوتاہے کہ وہ گرم پانیوں تک رسائی کوچنددنوں
کاکھیل سمجھتاتھالیکن دنیاکی اس سپرطاقت کواس کی بڑی بھاری قیمت اداکرناپڑی
اور افغان مجاہدین اورپاکستان کی بے پناہ قربانیوں سےاسی ملک سے دنیاکی چھ
نئی مسلم ریاستیں معرضِ وجود میں آئیں۔جنرل ضیاء الحق جواس خطے میں ایک نئے
اورانتہائی مضبوط اسلامی بلاک کاخواب دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کاطیارہ
فضامیں تباہ کردیاجاتاہے اورچند اہم امریکی شخصیات کے ساتھ ساتھ پاک افواج
کے کئی جنرل موت کی آغوش میں پہنچادیئے جاتے ہیں اورپاکستاان کی تاریخ میں
پہلی مرتبہ ایک اہم ادارے کواتنے بڑے ناقابل تلافی نقصان سے
دوچارکردیاجاتاہے
ساتواں منظرملاحظہ کیجئے!
پاکستان میں یکے بعددیگرے دوسیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوتی ہیں لیکن
کوئی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتی۔ملک کی سیاسی جماعت مسلم
لیگ(ن)جودوتہائی اکثریت کے ساتھ ملک میں حکومت کررہی ہوتی ہے،اس کے اپنے ہی
مقررکردہ فوجی چیف سے سخت اختلافات شروع ہوجاتے ہیں جس کاجوہری سبب کارگل
کی وہ جنگ بتایاجاتاہے جس میں بھارتی سیناکولگے زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکے
جبکہ نوازشریف حکومت پہلی مرتبہ بھارتی بنئے کے ساتھ ایک خوشگوارسیاسی
تعلقات بحال کرنے کی شروعات میں مصروف تھی۔سول حکومت کی ملک کے سب سے بڑے
دفاعی ادارے کے سربراہ کواچانک تبدیل کرکے اس کے جہازکوسری لنکاسے واپسی
پرملک میں اترنے کی اجازت نہ دیکرتین سوزائد مسافروں کی جانوں کوداؤ
پرلگادیاگیالیکن نوازشریف کی غلط پلاننگ ہی ان کے گلے پڑ گئی۔فوج نے اپنے
جرنیل کوبچاتے ہوئے اپنی کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے ادارے کو بھی کسی بڑی
تباہی سے محفوظ کرلیالیکن اس کے جواب میں ایک دفعہ پھرفوجی کمانڈوجنرل
پرویز مشرف اوراس کے ساتھی منتخب حکومت کومعزول کردیتے ہیں اورمنتخب
حکمرانوں کوجلاوطن کردیا جاتاہے اورگیارہ سال اس ملک کے نہ صرف تمام اداروں
کوتباہ وبرباداور ملکی دیتاہے بلکہ اپنے ناجائزاقتدارکودوام بخشنے کیلئے
خودمختاری کوبھی امریکاکے ہاتھوں فروخت کردیتا ہے ۔اس ملک کے ہزاروں بیٹوں
اوربیٹیوں کو عافیہ بیٹی کے ہمراہ ڈالروں کے عوض امریکاکے ہاتھ فروخت
کردیاجاتاہے اوربڑے تفاخرسے اپنے ان سیاہ کرتوتوں کااپنی کتاب میں بھی
ذکرکرتاہے۔ اسی ترقی یافتہ دورمیں افغان سفیرملاضعیف کوبھی قصرسفیدکے فرعون
کی سپاہ کے حوالے کردیاجاتاہے جواسے گھسیٹ کرپہلے سے منتظراپنے جہازمیں
لادکراپنی منزل کوروانہ ہوجاتاہے اورتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ زمانہ جاہلیت
میں بھی غیرملکی سفیروں کوہرقسم کی امان کاحق حاصل ہوتاتھالیکن اقتدارکے
اندھےجوش میں ان تمام روایات کو اپنے پاؤں تلے روند کر ایک بدترین مثال
قائم کردی گئی۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے آخری وقت تک اپنے اقتدارکودوام کی
سازشیں کرنے والا بالآخر اقتدارکی انہی غلام گردشوں کاشکار ہوکراپنے انہی
مخالفین جن کے بارے میں کئی باراعلان کرچکاہوتاہے کہ یہ جلاوطن کبھی بھی
ملک میں واپس نہیں آسکتے،خوداپنے ہاتھوں سے ان سب کوسنگین ترین مقدمات میں
منحوس”این آراو”دینے کےباوجودآخری گارڈ آف آنر کے بعدملک سے رخصت ہوجاتاہے
اوراس ملک کوان کے حوالے کردیتاہے جن کے خلاف ملک کی اعلیٰ عدالت میں کرپشن
کے کئی مقدمات زیرِ سماعت تھے۔
اب آٹھواں منظرملاحظہ کیجئے !
میں اپنے پوتے کے سامنے دنیاکانقشہ بچھائے بیٹھاہوں۔میں پانیوں میں گھرے
ایک جزیرے کے اردگردپنسل پھیرتا ہوں،پنسل گھماتاہواکراچی کے ساحل
پرلاکرکہتاہوں”بنگلہ دیش انچاس سال پہلے پاکستان کا حصہ تھا،پاکستان شروع
ہی یہاں سے ہوتاتھا۔ دراصل قیام پاکستان کے بعدمحمد علی جناح جلدہی ہم سے
رخصت ہوگئے۔ان کی رخصتی کے آخری لمحات میں ان کی شکستہ ایمبولینس کراچی کی
سڑک پرخراب کھڑی رہی اور کسی کویہ علم نہ ہوسکاکہ اس میں بانی پاکستان اپنی
بہن کے ساتھ آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ان کے ساتھی لیاقت علی خان کوایک سازش
کے تحت راولپنڈی کے اجتماع میں گولی مار کر شہیدکردیاگیااورقاتل اکبرخان
کووہی گولی مارکرقصہ تمام کردیاگیااورگولی مارنے والاپولیس افسرنجیب خان
کوعہدہ پرترقی دے دی گئی۔اس عمل کے بعدیہ عقدہ آج تک نہیں کھلاکہ اس سازش
کے پس پردہ کون سے چہرے تھے۔
اب آخری نواں منظرملاحظہ کیجئے !
اس آخری دردناک منظرنامے کوملاحظہ کرنےکیلئے اپنے دل پرہاتھ رکھناہوگا۔ایک
بیوریو کریٹ غلام محمد کوگورنرجنرل بناکرکچھ عرصے کیلئے خواجہ ناظم الدین
کووزیراعظم کاقلمدان سونپ دیااوران کوجلدہٹاکرمحمد علی بوگرہ کووزیر اعظم
بناکراقتداراعلیٰ سے بنگال کی نمائندگی ختم کردی گئی جہاں سے مایوسی میں
اضافہ ہوالیکن 1956ءکے آئین سے بنگالیوں کی خوشی اس وقت کافورہوگئی جب
1958ءمیں مارشل لاءنے بنگال کی سیاسی قوتوں کوپھر سے مایوسی کی دلدل میں
دھکیل دیا۔فوج کے سینئررینکنگ میں صرف دو بنگالی افسرتھے جن میں ایک کرنل
اور ایک میجر جنرل تھالہذا بنگالی یہ سوچنے پرمجبورہوگئے کہ فوجی حکومت کی
موجودگی میں اقتدار تک ہماری کبھی رسائی نہیں ہوسکتی۔ اس پر مستزادون یونٹ
کے قیام کااعلان کرکے آبادی کے تناسب کوختم کرنے کیلئے مشرقی پاکستان
کے56%ووٹوں کو44 %کے برابرقرار دےدیاگیاجس کے بعدمغربی پاکستان کی نوکرشاہی
نے سول اورملٹری بیوروکریسی سے ساز بازکرکے قومی اداروں پراپنی گرفت مضبوط
کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے ہرضلع کاڈی سی اورایس پی مغربی پاکستان سے
مقررکرنا شروع کردیا۔یہی وجہ ہے جب ایوب خان کے خلاف مادرِملت فاطمہ جناح
انتخابی میدان میں اتریں تومشرقی پاکستان کی جمہوری قوتیں اورعوام آپ کے
ساتھ کھڑی ہوگئی لیکن ایوب شاہی الیکشن میں جعلی نتائج جاری کرکے محترمہ
کوہرادیا جومشرقی پاکستان کی جمہوری قوتوں اورعوام کیلئےبہت
بڑادھچکاتھا۔بنگالی سپیکرقومی اسمبلی مولوی تمیز الدین کے ساتھ ہتک
آمیزسلوک دوسرادھچکاتھا۔
1965ءکی جنگ میں ساری قوت مغربی محاذپرمامورکرنے کی وجہ مغربی محاذسے مشرقی
پاکستان کادفاع قراردیاگیالیکن اس حکمت عملی نے بنگالی عدم تحفظ
کاشکارہوگئے۔ان حالات کاہمسایہ دشمن نے بھرپورفائدہ اٹھانے کیلئے ایک منظم
سازش کے تحت 95%ہندوبنگالی ہندواساتذہ کے ذریعے دوقومی نظریہ کونابودکرنے
کیلئے غلط پروپیگنڈے سےنئی نسل کومغربی پاکستان کومشرقی پاکستان کی دولت
لوٹنے اورشدیدغربت کاذمہ دارقراردیتے ہوئےان کے جذبات کوخوب بھڑکاتے ہوئے
دل میں دراڑیں پیداکردیں جس کافائدہ اگرتلہ سازش کیس میں ملوث شیخ مجیب
الرحمان انہیں اپنا مسیحا نظرآیا۔
ان حالات میں ملک کی تمام اپوزیشن نے ایوب خان کے خلاف ایک تحریک شروع کردی
گئی اوراپوزیشن نے شیخ مجیب الرحمان کورہائی دلوا دی جبکہ اس پرمضبوط شواہد
کی بناء پرمقدمہ چل رہاتھا۔مذاکرات کے کئی ناکام ادوارکے بعد1969ء میں ایوب
خان نے بیماری کی وجہ سے صدارت چھوڑتے ہوئے غیرقانونی طورپراقتدارایک دوسرے
جرنیل کومنتقل کردیا جبکہ قانون کے مطابق قائم مقام صدرکیلئے اسپیکرکویہ
منصب سنبھالنا تھالیکن بنگالی سپیکر کی وجہ سے ایسانہ کیاگیاہو۔ان حالات
کافائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے چھ نکات کی بنیادپرمشرقی پاکستان
میں مکمل اکثریت حاصل کرلی لیکن مغربی پاکستان میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے
والے بھٹونے”ادھرتم ادھرہم”کانعرہ لگاکران کی اکثریت تسلیم کرنے سے انکار
کردیا۔اس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی اور”کشورِحسین،شادباد”دولخت ہوگیا۔
میری آوازکی ارتعاش کے بعدمیرے پوتے کی آنکھوں میں حیرت امڈ آتی ہے۔ وہ
تھوڑی دیرسوچتاہے اورپھرمیری حالت کودیکھ کرگھبراکرنہائت معصومیت سے
پوچھتاہے”کیا ان لوگوں کوکوئی سزادی گئی؟”میں اپنے پوتے کے منہ پر ہاتھ رکھ
دیتاہوں،میں اس کے کانوں پرجھکتا ہوں اوراسے پیارسے کہتاہوں”نہیں بیٹا،وسیع
ترقومی مفادنے ہمارے ہاتھ روک لئے تھے”میرا پوتامیراہاتھ ہٹانے کی کوشش
کرتاہے لیکن میں اپنی گرفت مضبوط کرلیتاہوں۔میں جانتاہوں میں اس کے مزید
سوالوں کا جواب نہیں دے سکوں گالیکن یہ منظریہ آٹھواں منظرمیرے حافظے سے
چپک کررہ جاتاہے اورمیں باربارسوچتاہوں یہ ہاتھ اس بچے کے منہ پر کب تک رہے
گا،جب اس کے بازوؤں میں طاقت آجائے گی،جب یہ بڑی آسانی سے میرا ہاتھ جھٹک
دے گا،جب اس کے سارے سوال بول پڑیں گے تواس وقت میراردِّعمل کیاہوگا،اس وقت
میں کہاں جاؤں گا،اس وقت میرے پاس کیا جواب ہوگا۔
میں سوچتا ہوں کاش!اس بچے کے بڑے ہونے سے پہلے میں دنیاکے سارے نقشے
جلاسکوں،میں تاریخ کی ساری کتابیں دریابرد کرسکوں،میں وقت کو،تاریخ
کو،حالات کواورساری حقیقتوں کونئے نام،نئے لفظ دے سکوں،میں شکست کوفتح میں
تبدیل کرسکوں،میں اپنی بزدلی،اپنی خاموشی کو نظریئے کی شکل دے سکوں،میں
اپنے آپ کو مطمئن کرسکوں،کاش اے کاش!
بہت اداس تھامنظرچراغ بجھنے کا
لپٹ کے رودیا،میں بھی ہواکے جھونکے سے
|