سولہ دسمبر انیسواکہتر پاکستان کی زندگی کا بہت ہی
اہم دن ہے جس میں پاکستا ن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا پاکستان رقبے اور
آبادی کے حساب سے چھوٹا ہی نہیں ہوا بلکہ معاش ، اسلامی معاشرے میں عزت
دنیا میں عزت دفاعی قوت گو ہر لحاظ سے چھوٹا ہو گیا لیکن ہمارے قائدین خواہ
سیاسی ہوں یا عسکری نے اسے محسوس تک نہیں کیا ۔ اگر اس سانحہ کے پس منظر پر
نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مشرقی پاکستا ن گو رقبے کے لحاظ سے مغربی
پاکستان سے بہت چھوٹا تھا مگر آبادی کے لحاظ سے بڑا تھا۔ معاشی طور پر
مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے مضبوط اس لئے تھا کہ وہاں پٹسن ،چاول ،مچھلی
اور چائے کی پیداوار زیادہ ہوتی تھی وہاں یہ سب چیزیں اس علاقے کی ضرورت سے
زیادہ ہوتی تھیں جن کو ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ حاصل ہو تا تھا جس سے ملک
چلتا تھا اور ترقی بھی کر تا تھا۔ اس سارے معاملات کے باوجود مغربی پاکستان
کی اشرافیہ ان کو دوسرے درجے کے شہری گردانتے تھے یہ اپنے آپ کو حاکم اور
ان کو محکوم سمجھتے تھے اس کے لئے پہلی آواز ۱۹۵۲ میں اس وقت اٹھی جب
بنگالیوں نے قومی زبان بنگلہ کے لئے تحریک پیش کی جسے بے توقیر سمجھ کر رد
کر دیا گیا اس کے بعد ۱۹۵۸ میں الیکشن کا علان کیا گیا ۔ اس وقت کی مغربی
پاکستان کی اشرافیہ نے محسوس کیا کہ اگر الیکشن ہوئے تو ہمیں اکثریت نہ
ہونے کی وجہ سے حکومت نہیں مل سکے گی یہ سمجھتے ہوئے اس وقت کے گورنر جنرل
سکندر مرزا نے پاکستان میں پہلا سول مارشل لا نافذ کر دیا جو بمشکل بیس دن
ہی چل سکا ۔ جنرل ایوب خان جواس وقت آرمی چیف اور وزیر دفاع بھی تھے اس نے
گور نر جنرل سکندر مرزا کو فارغ کر کے نظر بند کر دیا اور خود مارش لا
اڈمنسٹیٹر بن گئے ۔ اس سے بنگالیوں میں یہ سارا لاوہ بن کر پکتا رہا ۔ ۱۹۷۰
میں الیکشن ہوئے جسکے نتیجے میں مجیب الرحمان نے بہت بڑی اکثریت حاصل کی
جسے مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے تسلیم کر نے سے انکار کر دیا ۔ مغربی
پاکستان کی اشرافیہ نے بزور ان پر اپنا قبضہ رکھنے کی کوشش کی انہوں نے
انڈیا جو کہ پہلے ہی اس تاک میں بیٹھا تھا سے مدد طلب کرلی اور مشرقی
پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اس کا پوراساتھ دیا۔ اسوقت مغربی پاکستان
کی تقریبا ً ایک لاکھ فوج مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو فتح کر نے کے لیے
موجود تھی ۔ ایک ہزار میل کا فاصلہ ہو نے کی وجہ سے اپنی فوج کی مدد کر نے
سے قاصر تھا ۔اس وجہ سے مغربی پاکستان کی فوج مدد نہ پہنچنے کی وجہ سے
بنگالی اور انڈیا کی فوج کا مقابلہ نہ کر سکی اور سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کو
ہتھیار ڈال دیئے ۔
یہ تو تھے وہ محرکات جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ۔ اس سے پہلے پاکستان
معاشی طور پر مضبوط تھا آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا تھا اگر گیا بھی تھا
تو بروقت ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کا وقار بلند تر تھا تمام ادارے نفا
بخش تھے پی آئی اے ۔ ریلوے اور واپڈاسب ادارے درست کام کر رہے تھے سب
ٹرینیں وقت پر آتی اور جاتیں تھیں لاہور سے خانیوال تک ریل بجلی سے چلتی
تھی پی آئی اے دوسرے ممالک کو آئیر لائین بناکر دیتی تھی ایکپورٹ زیادہ اور
امپورٹ کم تھی معیشت کا حال یہ تھا کہ پاکستان نے جرمنی کو بارہ کروڑ ڈالر
قرض دیا ہوا تھا اگر وقار کی بات آئے تو اسلامک فورم ( او آئی سی ) کا پہلا
اجلاس ۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ مراکو کے شہر رباط میں ہونا تھا طے پا یا تھا کہ کسی
غیر مسلم ملک کو شامل نہیں کیا جا ئے گا مگر انڈیا کو مدعو کر دیا گیا اور
پاکستان کو یہ بات بتائی نہیں گئی ۵۲ ستمبر کی صبح انڈیا کے صدر کا طیارہ
صدر کو لے کر اڑ گیا پاکستان کو پتہ چلا تو پاکستان سے صدر آفس سے رباط میں
مطلع کر دیا کہ اگر انڈیا والے اجلاس میں شامل ہونگے تو پاکستان شمولیت
نہیں کرے گا اس اطلاع پر ہی انڈیا کے صدر کو راستے سے ہی واپس کیا اور
انڈیا کے صدر اپنا سامنہ لے کرواپس آگئے تھے ۔
اب کے پاکستان کا حال یہ ہے کہ پی آئی اے ، ریلوے واپڈا سب ادارے خسارے میں
ہیں ایکسپورٹ زیادہ اور امپورٹ کم ہے قرض دینے کی بجائے لیا ہوا قرض کا سود
ادا کر نے کے لئے مزید قرض لینا پڑتا ہے ۔ جو ریل بجلی سے چلتی تھی وہ بند
ہو چکی ہے وقار کا یہ حال ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم ملیئیشیا جانے کا
علان کر تا ہے تو سعودیہ کا فون آجاتا ہے کہ تم اگر گئے تو ہم سے بھی گئے
پاکستان کے وزیر اعظم کو دورے سے معضرت کرنا پڑتی ہے ۔
|