سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم (حصہ 4)

واقعہ معراج(حصہ اول)

(احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں واقعہ معراج مرحلہ اْولیٰ۔۔۔ بیتْ اللہ سے بیتْ المقدس تک)

سفرِ معراج، سفرِ محبت بھی ہے اور سفرِ عظمت بھی۔ بیتْ اللہ سے بیت المقدس اس سفرِ مقدس کا پہلا مرحلہ تھا۔ یہ واقعہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور متعدد طرق، اسناد اور تفصیلات کے ساتھ منقول ہے۔ نیز تابعین نے بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حطیمِ کعبہ میں آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آ کر تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے، اِدھر اْدھر دیکھا اور پھر لیٹ گئے۔
جبرئیل امین علیہ السلام نے دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اِدھر اْدھر دیکھا اور لیٹ گئے۔
پھر جبرئیل امین علیہ السلام نے تیسری مرتبہ درِ اقدس پر آواز دی۔ اس مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی :
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی ملاقات کے لئے بلایا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس حلق سے لے کر ناف تک چاک کیا گیا اور قلبِ اطہر کو نکالا گیا۔
اللہ رب العزت نے ملاءِ اعلیٰ سے ایک طشت کے اندر اپنے خصوصی اَنوار و تجلیاتِ حکمت بھیجے تھے۔ ان اَنوار و تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس کو دھویا گیا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر سفرِ معراج شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذاتی انوار و تجلیات کے فیض کو کماحقہ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک سواری پیش کی گئی جو قد کے اعتبار سے گوش دراز سے اونچی اور خچر سے نیچی تھی۔ اس کا رنگ چمکدار اور سفید تھا۔ اس کا نام ’’براق‘‘ تھا۔
عن مالک بن صعصعۃ، قال :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’بینا أنا فی الحجر. . . و فی روایۃ فی الحطیم. . .
بین النائم و الیقظان، اذ أتانی آت، فشقّ ما بین ہذالی ہذا، فاستخرج قلبی، فغسلہ ثم اعیدہ، ثم أتیت بدابۃ دون البغل فوق الحمار ابیض، یقال لہ ’’البْرَّاق، ، فحملت علیہ، ،
.(روح المعانی، 15 : 5)
حضرت مالک بن صعصعہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حجر۔۔۔ دوسری روایت میں حطیم کا ذکر ہے۔۔۔ میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا جب میرے پاس آنے والا (فرشتہ) آیا۔ اس نے (میرا سینہ) یہاں سے یہاں تک چیرا۔ پھر میرے دل کو نکال کر غسل دیا۔ پھر دوبارہ اندر رکھ دیا۔ پھر ایک سواری لائی گئی جو خچر سے چھوٹی اور گوش دراز سے بڑی تھی۔ اس کا رنگ سفید تھا۔ اسے ’’براق‘‘ کہا جاتا ہے پس مجھے اس پر سوار کرایا گیا۔
جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ فخر و اِنبساط سے ناچنے لگی کہ آج اسے سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ براق اس سعادتِ عظمیٰ پر وجد میں آ گئی۔ اس پر جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا :
’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کرا کے انہیں بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں سوار کی نظر پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبرِ انور میں نماز ادا کرنا
تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبرِ انور میں کھڑے صلوٰۃ پڑھ رہے تھے۔انبیاء صف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھلا تھا۔
جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔

(مرحلہ ثانیہ۔۔۔ بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک)
انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لئے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔
بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی : کون ہے؟۔۔۔
جبرئیل امین نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔۔۔۔
آواز آئی : آپ کے ساتھ کون ہے؟۔۔۔
جواب دیا :
یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا
فانطلق بی، حتی أتی السماء الدنیا فاستفتح، قیل : من ہذا؟ قال : جبرئیل، و من معک؟ قال : محمد، قیل : قد ارسل الیہ؟ قال : نعم، قیل : مرحبا بہ فنعم المجیء جاء .
(تفسیر البغوی، 3 : 93)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر آئے تو
دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی : کون؟
جبرئیل امین نے کہا : جبرئیل۔ پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟
انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے؟
جبرئیل نے کہا : ہاں۔ آواز آئی : خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔
تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ سرور کائنات ہیں, تاجدار ہیں, محبوب خدا ہیں, یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
یہی کل انبیاء کے سرتاج ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پْرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف پہونچایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف پہونچایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلام سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے ہوئے چھٹے آسمان پر پہنچے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ملائکہ کے ہجوم در ہجوم
مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلوؤں کے بعد تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آ کر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاء و رْسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی ساری بلندیاں سدرۃْ المنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔ سدرۃْ المنتہیٰ کا مقامِ اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔ اس مقام پر تفسیر نیشاپوری اور تفسیر دْرِ منثور میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک! جس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تو نے یہ کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبانِ قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمانِ ذی وقار تشریف لا رہے ہیں۔ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما۔ اللہ پاک نے ان مقرب ملائکہ کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائناتِ آسمانی سے سمٹ کر اس درخت ’’سدرۃْ المنتہیٰ‘‘ پر بیٹھ جاؤ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم اْمڈ پڑے۔ فرشتوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آ گیا :یستاذنتِ الملائکۃْ الربَّ تبارک و تعالٰی أن ینظروا لی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فا ذن لہم، فغشیت الملائکۃْ السِّدرۃَ لینظروا لیٰ النبی صلی اللہ علیہ و سلم.(الدر المنثور، 6 : 116)
فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ پس فرشتوں نے سدرہ (بیری کے درخت) کو اپنی کثرت سے چھپا لیا تاکہ نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر سکیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
اِذْیَغشَی السِّدرَۃَ مَا یَغْشیَO
(النجم، 53 : 16)
جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے کہ چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے)o
سدرۃْ المنتہیٰ کے مقامِ عظیم پر قدسیانِ فلک کو مہمانِ ذی وقار کے دیدارِ فرحت آثار کا لازوال شرف حاصل ہوا۔
رخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
جب مہمانِ عرش کے آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :
لو دنوتْ انملۃً لاحترقتْ.
(الیواقیت و الجواہر، 3 : 34)
اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل جاؤں گا۔
سِدرہ سے آگے یکتا و تنہا:
اس مقام پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کے احوال کا مشاہدہ فرمایا اور وہاں کی نعمتوں کی زیارت فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفرِ معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبرئیل اور براق ساتھ نہ تھے۔ آپ یکتا و تنہا ہی اپنے خالقِ کائنات کے اِذن سے روانہ ہوئے۔ اللہ رب العزت نے اپنے مہمانِ عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کا ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا۔ اس تخت کا نام ’’زخرف‘‘ تھا۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرشِ معلی تک پہنچایا گیا۔ جب سدرۃْالمنتہیٰ کی منزل گزر چکی، جب فرشتوں کا استقبال پیچھے رہ گیا تو آگے ایک نور تھا اور دیکھنے والے کو اس نور کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نور میں غائب کر دیا گیا تو دیکھنے والی آنکھ آپ کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ اب کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نور کیا ہے؟ کیسا ہے؟ کہاں سے ہے؟ کہاں تک ہے؟ کہاں جانے والا ہے؟ اس حصارِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرشِ معلی کی سیر کی۔ اس کے بعد مہمانِ مکرم کو بڑی عزت، وقار اور تمکنت کے ساتھ آگے لے جایا گیا۔
(مرحلہ ثالثہ۔۔۔ سدرۃْ المنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک)
سدرۃْ المنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک سفرِ معراج کا نقطۂ عروج ہے۔ یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آگے ایک عالم نور تھا۔ اَنوار و تجلیاتِ الٰہی پْرفِشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپور عالمِ لامکاں کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔ مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تن تنہا ان جلوؤں میں داخل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اللہ پاک کے اسماء کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے اور ہر اسم مبارک کے رنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزارا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ بیداری میں تھے لہٰذا اس عجیب سی کیفیت کو دیکھ کر بتقاضائے بشریت کچھ معمولی سی وحشت بھی محسوس فرمانے لگے جیسا کہ انسان اکثر لمحاتِ تنہائی میں محسوس کرتا ہے۔ جونہی حضور پْرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس پر یہ کیفیت وارد ہوئی اللہ رب العزت کی طرف سے آواز آئی:
قف یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ان ربک یصلی.(الیواقیت و الجواہر، 2 : 35)
پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک جاؤ! بے شک تمہارا رب (استقبال کے لئے) قریب آ رہا ہے۔
سفرِ وصال:
معجزہ معراج میں یہاں تک کا سفر، سفرِ محبت و عظمت تھا۔ اب یہاں سے آگے سفرِ وصال شروع ہوتا ہے۔ سفرِ معراج کے اس مرحلہ پر مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ ’’قاب قوسین‘‘ پر پہنچ گئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ثْمَّ دَنَا فَتَدَلیَّOفَکاَنَ قَابَ قَوسَیْنِ اَوَاَدْنَیO
(النجم، 53 : 8، 9)
پھر (اس محبوبِ حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھےo پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ دو قوسوں پر بات ختم نہیں کی بلکہ قْرب اور بْعد کے تمام جھگڑے ختم کرنے کے لئے تمام حدوں کو توڑ دیا، تمام فاصلے مٹا دیئے، تمام فاصلے یکسر ختم کر دیئے، سوائے ایک فرق کے کہ وہ خدا تھا۔۔۔ خدائے لاشریک اور یہ اس کے محبوب بندے اور رسول تھے۔ وہ خالق تھا اور یہ مخلوق۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
فَاَوْحَی اِلَی عَبْدِہِ مَااَوْحَیO
(النجم، 53 : 10)
پس وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کہ اس نے وحی کی
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں جو باتیں ہوئیں ان کا بیان بھی نہیں فرمایا لہٰذا محب اور محبوب میں کیا کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط اتنا بیان فرمایا کہ جب ملاقات ہوئی تو خالقِ کائنات نے فرمایا :
اَلسَّلَامْ عَلَیْکَ ایُّہَا النَّبِیُّْ وَ رَحْمَۃْ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتْہْ
(معارج النبوۃ، 3 : 149)
اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔حضور پْر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے اس پیغام کے جواب میں عرض کیا :
اَلسَّلَامْ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ.
(معارج النبوۃ، 3 : 149)
سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔
اور پھر واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اْمت کے لئے پچاس نمازوں کا تحفہ عطا کیا گیا جسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذاتی و صفاتی تجلیات اور تمام فیوض و برکات سمیت واپس کرۂ ارضی کی طرف پلٹے۔
(جلد پنجم مشکوۃ شریف معراج کا بیان !
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معراج کا بیان ۔حدیث 444)

" معراج " کا لفظ " عروج " سے ہے جس کے معنی ہیں ، چڑھنا ، اوپر جانا ۔ اور معراج اس چیز کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھنے کا ذریعہ بنے یعنی سیڑھی ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آسمانوں کی سیر کرائی اور وہاں خاص خاص نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائیں ۔ اس کو معراج اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سیڑھی رکھی گئی ۔ جس پر چڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے اور ایک روایت میں " معراج " یعنی سیڑھی کا تذکرہ بھی آیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم بالا کا سفر شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سیڑھی رکھی گئی جس کے ذریعہ آسمان کے اوپر تشریف لے گئے اور یہ وہی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ فرشتے آسمان سے آمدورفت رکھتے ہیں اور جس پر سے بنی آدم کی ارواح آسمان تک چڑھتی ہیں ۔
معراج کا زمانہ!
اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ معراج نبوت کے بارھویں سال یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ رمضان کی ستائیس تاریخ کو ہوئی، کچھ حضرات کا قول ستائیسویں رجب کا ہے اور عوام میں بھی یہی مشہور ہے ، کچھ حضرات ہجرت سے تین سال پیشتر معراج ہونے کے قائل ہیں ۔
معراج اور اسراء کا فرق!
جاننا چاہئے کہ ایک تو " معراج " ہے اور ایک " اسراء " ۔ اسراء اس سفر کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب میں مسجد حرام ( بیت اللہ ) سے مسجد اقصی ( بیت المقدس ) تک کیا ، اور مسجد اقصی سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے ۔ اسراء نص قرآن سے ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ہے اور معراج، مشہور و متواتر حدیثوں سے ثابت ہے، اس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدعتی کہلاتا ہے ۔
خواب میں یا عالم بیداری میں!
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معراج پیش آئی وہ خواب کا واقعہ ہے یا عالم بیداری کا ؟ یہ واقعہ ایک بار پیش آیا یا متعدد بار ؟ یا یہ کہ ایک بار تو عالم بیداری میں پیش آیا اور خواب میں متعدد بار پیش آیا ؟ یا یہ کہ اگر یہ واقعہ خواب میں بھی پیش آیا تو کیا وہی اصلی واقعہ ہے یا وہ اس حقیقی واقعہ کا ابتدائیہ اور تمہید تھی جو عالم بیداری میں پیش آیا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جسمانی طور پر آسمانوں کے سیر کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں روحانی اور نفسیاتی طور پر اس عالم بالا سے ایک گونہ مناسبت اور تعلق پیدا ہو جائے جیسا کہ ابتدائے نبوت میں رویائے صادقہ ہی کو وحی اور عالم بالا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت کا ذریعہ بنایا گیا تھا ؟ اور یا یہ کہ اسراء یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کے سفر کا واقعہ تو جسمانی طور پر پیش آیا تھا اور معراج یعنی مسجد اقصی سے عالم بالا تک کا واقعہ محض روحانی طور پر پیش آیا تھا ؟ بہر حال ان تمام اقوال اور ان سے متعلق بحث دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے اتنا بتا دینا کافی ہے کہ اس بارے میں جو قول تحقیقی اور زیادہ صحیح سمجھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ معراج کا واقعہ ایک بار پیش آیا ہے اور عالم بیداری میں جسم وروح کے ساتھ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک پھر مسجد اقصی سے آسمانوں تک اور پھر آسمانوں سے ان خاص مقامات تک جہاں تک اللہ نے چاہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایا گیا ۔ جمہور فقہا و علماء محدثین و متکلمین، اور صوفیاء کا یہی مسلک ہے ۔ نیز اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیثیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال نہایت کثرت سے منقول ہیں جن میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر معراج کے واقعہ کا تعلق محض خواب سے ہوتا ( جیسا کہ گمان کیا جا سکتا ہے ) تو نہ اس غیر معمولی انداز میں اس واقعہ کو بیان کیا جاتا اور نہ اس سے متعلق وہ تمام بحث وتحقیق ہوتی جو علماء ومحققین نے کی ہے ، علاوہ ازیں اس مسئلہ کو لے کر بعض لوگوں نے جو فتنہ خیزی اور غوغا آرائی کی ہے نہ وہ ہوتی اور نہ یہ مسئلہ اختلاف وانکار نیز ارتداد کے ابتلاء کا باعث بنتا ۔
معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی شرف ہے
جسم وروح کے ساتھ معراج کا حاصل ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی شرف ہے یہ مرتبہ کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا ، اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے آخری نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و برگزیدگی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ خارق عادت قدرت ظاہر فرمائی ۔ لہٰذا واقعہ معراج کو اسی سیاق و سباق میں دیکھنا چاہئے ۔ اس مسئلہ کو عقل و قیاس کے پیمانہ سے ناپنا بے سود بھی ہے اور حقیقت واقعہ کو محض دماغی قابلیت کے بل پر سمجھنا اور سمجھانا گرفتاران عقل کے بس سے باہر بھی ہے یہ مسئلہ خالص یقین و اعتقاد کا ہے بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت و کیفیت کو علم الٰہی کے سپرد کر دینا ہی عین عبادت ہے، اور ویسے بھی نبوت، وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل و قیاس سے باہر کی چیزیں ہیں ، جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل و فہم پر موقوف رکھے اور کہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں اس کو نہیں مانوں گا اور اس پر اعتقاد نہیں رکھوں گا تو سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم ہے ، ہاں اولیاء اللہ اور عارفین بیشک معرفت کے ایک خاص مقام تک پہنچنے کے بعد اتنی صلاحیت کے حامل ہو جاتے ہیں کہ ان پر ان چیزوں کی کچھ حقیقت روشن اور واضح ہو جاتی ہے ، جو لوگ معرفت کے اس مقام کو نہ پہنچے ہوں ان کے لئے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جو کچھ فرما دیں بس اس کو مان لیں اور بلا چون وچرا اس پر ایمان لے آئیں ، سلامتی اور نجات کی راہ اس کے علاوہ کوئی نہیں.
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558382 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More