ارشادِ ربانی ہے:’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صحیح و
سیدھی بات کہا کرو‘‘۔ یہاں پر سچی اور سیدھی بات کہنے کی تلقین سے قبل اللہ
کی نافرمانی سے ڈرنے یا بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان گہرا
تعلق ہے ۔ دنیا میں کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے اپنے ساتھ جھوٹی یا گول
مول بات کی جائے، اس کے باوجود وہ دوسروں کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے
کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو اپنے قول میں
راستبازی سے باز رکھتے ہیں؟ اس کا ایک جواب تو انسانوں کا ڈرہے ۔ انسانوں
کے غضب یا ناراضی کا خوف یا دوسروں سے وابستہ مفادات ۔ یہ چیزیں نہ چاہتے
ہوئے بھی انسان کو کتمان حق پر مجبور کردیتی ہیں ۔ وہ یاتو سیدھے سیدھے
جھوٹ بول دیتا ہے یا حق گوئی سے گوناگوگوں وجوہات کی بناء پر احتراز کرتا
ہے یا سچ بولتا بھی ہے تو اس قدر گنجلک انداز میں کہ اس میں سچ کے ساتھ
جھوٹ کی بھی گنجائش نکل آتی ہے ۔ اس منافقانہ ڈپلومیسی پر قرآن حکیم کی
یہ آیت صادق آجاتی ہے کہ :’’اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور
جانتے بوجھتے ہوئے حق کو نہ چھپاؤ۔‘‘
ان سارے مسائل کی جڑ ، انسانی خوشنودی یا ناراضی و غضب کا خوف ہے اور اس
کاواحدعلاج اللہ کی خالص محبت اور اس کا ڈریعنی تقویٰ ہے ۔ اس کے بغیر سچی
اور سیدھی بات کا تصور بھی محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی کتاب سچی اور
سیدھی بات کہنے کی تلقین سے قبل تقویٰ کو شرطِ اول کے طور پر بیان کردیتی
ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں سے احسان کا معاملہ فرماتے ہیں یعنی
بندہ جتنا کچھ کرتا ہے اس سے بڑھ چڑھ کر نوازتے ہیں ۔ رب کائنات کی جانب سے
حق گوئی کا انعام یہ ہے :’’تاکہ تمہارے کام سنوار دے‘‘۔ اصلاح کے معنیٰ
ویسے تو درستگی کے ہوتے ہیں لیکن جب کوئی عمل درست ہوجائے ، اس کی کجی دور
ہوجائے تو لازم ہے کہ اس میں نکھار آجاتا ہے اور وہ سنور جاتا ہے۔تقویٰ کی
صفت عالیہ مزید توفیق سے نوازے جانے کا سبب بھی بنتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے
احسانات کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ مزید فرمایا:’’ اور تمہارے
گناہ معاف فرما دے‘‘۔ ایسا کون سا انسان ہے جو بغیر بھول چوک اورکوتاہی و
کمزوری کےخیرہی خیر کرنے کا دعویٰ کرے تو فرمایا وہ تمہارے اخلاص کےباعث ان
کوتاہیوں سے درگزر فرما دے گا ۔ اس مرحلے میں عظیم ترین بشارت اور کیا
ہوسکتی ہے کہ ’’ اورجو بھی خدا اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی
کے درجہ پر فائز ہوگا‘‘۔
صحابہ کرام ؓ کی عملی تربیت کا بہترین نمونہ حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن
روانہ کرتے وقت نبی ٔ کریم کی نصیحت ہے۔ آپؐ نے فرمایا’’ اے معاذ توایک
حامل کتاب قوم کی طرف جا رہا ہے۔ انھیں دعوت دینا کہ گواہی دیں ،اﷲ کے سوا
کوئی معبود نہیں اورمحمد اﷲ کے رسول ہیں ۔ جب وہ یہ بات مان لیں تو انھیں
بتانا،اﷲ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔یہاں پر عقیدہ و عبادت کے
استدراج کا پاس و لحاظ قابلِ توجہ ہے۔آگے فرمایا اس کی تعمیل ہو جائے تو
خبر کرنا،اﷲ نے ان پر زکوٰۃ عائد کی ہے جو ان کے دولت مندوں سے لے کر
غریبوں کو دی جائے گی‘‘۔یہاں زکوٰۃ کا حکم اور حکمت دونوں موجود ہے۔ حضرت
معاذؓ چونکہ حاکم کے طور پر بھیجے رہے تھے اس لیے ایک اندیشے کا قبل از وقت
ازالہ کرتے ہوئے فرمایا ’’ مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اﷲ کے
درمیان کوئی حجاب حائل نہیں ہوتا۔‘‘ برموقع اور حسب ضرورت (need based )
تربیت اس کو کہتے ہیں ۔
موعظت کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ، ’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ،ان کو
مشکلات میں مبتلا نہ کرنا‘‘۔ظاہر ہے ’’دین (چونکہ) خیر خواہی ہے‘‘تو خیر
خواہی میں مشکلات نہیں بلکہ آسانیاں ہی ہوں گی ۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے
لیے آسانی اور دوسروں کے لیے پریشانیاں پیدا کرتاہے حالانکہ مومن کو تو
دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرنا چاہیے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ نبیٔ
کریم ؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ، انھیں پیغام مسرت دینا اور ایسی بات نہ کرنا
جس سے وہ دین سے دور ہوجائیں‘‘۔ سلیقہ مندی ہرگزسیدھی باتکی ضد نہیں ہے ،
مدعو کو داعی برگشتہ نہیں کرتا بلکہ اس کا دل جیت لیتا ہے۔
|