دسمبر کی وسط میں سردی کی وجہ سے جنوبی اضلاع میں معمولات زندگی بری طرح متاثر

ب کوئی مسئلہ نہیں رہا کیونکہ اب وقت ان پہنچی ہے!
کئی دنوں پہلے پھر سے سائنسدانوں کی پیشگوئی سچ ثابت ہونے لگی۔

دسمبر کی وسط میں سردی کی وجہ سے جنوبی اضلاع میں معمولات زندگی بری طرح متاثر،

معمول کے مطابق گاوں میں رہتے ہوئے شدید سردی کی ناروا سلوک نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ سردی کی لہر نے اغاز ہی میں باشنداگان کو مایوس،اور معمولات زندگی کو مفلوج کر دیا۔ یقننا اس بار سردی کی نتائج کافی مایوس کن رہی۔ کئی دنوں پہلے اخبار میں سانئسدانوں کی گئ پیشگوئی سچ ثابت ہونے لگی۔ قومی اخبار کے مطابق سانئسدانوں نے کچھ یوں انکشاف کیا تھا کہ “ دسمبر کی وسط میں سردی پچھلے 52 سالہ ریکارڈز توڑ ڈالیں گی اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے خاص طور پر بچوں کے لئے اور عمومی طورپر تمام انسانوں کے لئے خصوصی ہدایت بھی جاری کیں تھیں۔ معمول کے مطابق میرا گزر بھی اسی کالم سے ہوا۔ فطرت کے مطابق اگاہی کی خاطر مقامی لوگوں کو بتانے لگا کہ رواں سال سردی پچھلے 52 سالہ تمام تر ریکارڈز توڑ ڈالیں گی۔ کچھ لوگ مذاق سمجھ ان کا تاثر کچھ یوں تھا کہ اخبار والوں کا کام کیا ہے ؟ محض ڈرانا۔۔۔۔۔۔۔

اور کچھ لوگ بمشکل ماننے کو تیار تھیں۔
اج جب دسمبر کی وسط میں متواتر (دیر میں4- اور 5- جبکہ چترال میں 10-) ڈگری سینٹی گریڈتک گر کر یقننا سردی نے وقت سے پہلے انوکھا تحفہ دیا۔ چشموں اور پانی کی ترسیلاتی پائپ لائینز میں منجمد پانی دیکھ کر مقامی لوگوں کی انگلیاں دانتوں میں ہی رہ گئی۔ جنوبی اضلاع ( دیر اپر ، لوئراور چترال )میں پانی منجمد ہونا معمول کی واقعات میں سے ہے لیکن اس بار سردی نے وقت سے پہلے وار کیا۔

ادارہ بارے موسمیات کی سینئر نمائیندئے کے مطابق واقعی اس مرتبہ دسمبر کی وسط والی موسم نے جنوری کی وسط اور فروری کی اول جیسا سلوک شروع کیا ہے ،جو کہ وقت سے پہلے خطرے کی گھنٹی کی مانند ہے۔

مقررہ وقت سے پہلے موسم کا شدید ہونا نہ صرف انسانوں کے لئے بلکہ جانور اور پودوں کے لئے بھی کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کئ سالوں تک تو ہم احتیاطی تدابیر اپنا کر زندگی کی دوڑ کو رواں دواں رکھ سکیں گے۔ لیکن عرصہ بعد شائد ہم کچھ کرنا چاہے گے لیکن کچھ نہیں کر سکیں گے۔ بعد میں خاموش تماشائی بن کر مگرمچھ کی انسو رو رو کر climate change کو قدرتی افات سے تشبہہ دے کر اپنی کئ کی بوجھ قدرت کی سر رکھیں گے۔

اب بھی وقت ہے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچئں۔ متعلقہ سرکاری وغیر سرکاری ادارے بھی ہنگامی تدابیر اختیار کر ترجیحی بنیادوں پر اقدامات لیں۔ اس بار تو ہم احتیاطی تدابیر کا سہارہ لے لے کر اپنے اپ کو اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں گے لیکن اگر اسطر ح خرگوش کی ننید سوتے رہے گے تو عنقریب احتیاطی تدابیر بھی کارگر ثابت ہیں ہونگیں۔
 

Murad Muhammad
About the Author: Murad Muhammad Read More Articles by Murad Muhammad: 3 Articles with 2358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.