نائن الیون اور ایبٹ اباد آپریشن
اپس میں گہرا بندھن رکھتے ہیں۔امریکہ نے الزام عائد کیا کہ نو ستمبر کو
ٹوئن ٹاورز کو زمین بوس کرنے کے ملزمان اسامہ اور القاعدہ ہیں۔ امریکی صدر
بش نے آو دیکھا نہ تاو امریکن فورسز اور اتحادیوں سمیت پہلے کابل اورر پھر
بغداد پر سفاکیت و انسانیت کی حرمت تار تار کرنے والے حملے کئے کہ آسمان
دہل گیا زمین پھٹ گئی اور انسانی روح سسک اٹھی۔ امریکی قصابوں نے اسامہ اور
القاعدہ کو کریش کرنے کی خونخوار مہم میں30 لاکھ افغانیوں اور عراقیوں کو
بھون ڈالہ۔ دفاعی ماہرین اور تجزیاتی فلاسفرز نے دونوں مسلمان ملکوں پر
قبضہ کرنے پر امریکی جواز حیلوں اور بہانوں کو رد کردیا تھا بعین اسی طرح
امریکہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے بیدار مغز تجزیہ نگاروں کی اکثریت
اسامہ ڈیتھ آپریشن کو جھوٹ کا پلندہ کہتی ہے ۔ امریکیوں کے سفید جھوٹ و کذب
بیانی کا پرچہ مغرب کے ہی مقبول ترین تجزیہ نگار گورڈن ڈف نے wetern today
میں لکھے جانیوالے آرٹیکل) جھوٹ برائے فروخت (میں بے نقاب کیا ہے۔ گورڈن ڈف
لکھتے ہیں کہ مجھے ان امریکیوں پر ترس آتا ہے جو اسامہ کی موت پر جشن کی
اچھل کود کررہے ہیں۔ نائن الیون کی10 سالہ تحقیقات کے بعد بھی اسامہ کے
ملوث ہونے کا شائبہ تک نہ مل سکا۔نو دو گیارہ کی تحقیق کرنے والے کمیشن نے
برملا کہا ہے کہ حقیقت کی پردہ پوشی کی گئی ہے۔ فاکس نیوز چینل نے تمام
مصلحتوں کو طاق نسیاں کے سپرد کرکے بغیر کسی لگی لپٹی خبرنشرکی تھی کہ تمام
ثبوت بش کے وائٹ ہاؤس اور موساد کی طرف جاتے ہیں۔ غیر متنازہ ثبوت ورلڈ
ٹریڈ سنٹر کی بلڈنگ نمبر7 سے ملتے ہیں کہ دیوہیکل سنٹر کے نیچے بارود سے
بھرے ہوئے ڈیوائسز ایڈجسٹ کئے گئے تھے۔ ڈف کف افسوس ملتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
اس خبر کو فاکس نیوز نیٹ ورک نے بھی ریلیز نہ کیا۔کسی نے ایک ماہ تک بارود
والی خبر کی جانب دھیان نہ دیا۔ سڈنی کے اخبار ہیرالڈ سن نے ایک سروے
کروایا تھا کہ77٪ آسٹریلین شہریوں اور امریکیوں کی اتنی تعداد کا حادثہ
حکومت کے اندرونی ہاتھوں کا کمال ہے۔ امریکی میڈیا نے حقائق چھپانے کی خاطر
شرمناک کردار انجام دیا۔فاکس نیوز اس ضمن میں بڑا مجرم ہے۔چینل کےgemmida
revera کا ہے جس نے خبر دی تھی کہ اسامہ کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بربادی سے
کوئی تعلق نہیں مگر اب وہ ٹی وی سکرین پر نہ صرف اسامہ کو دوشی قراردیتا ہے
بلکہ اب وہ اپنے بیمار زہن کو ہر وقت اسامہ کے خلاف نت نئی گل افشانیاں
کرتا رہتاہے حالانکہ یہ وہی جرنلسٹ ہے جس نے یقین سے کہا تھا 11/9اور اسامہ
بن لادن کا کوئی تعلق نہیں۔ ڈف اسرائیل اور امریکی جمہوریت کی جانب اشارہ
کرتے ہیں کہ جب مشرق وسطی کے چھوٹے سے غیر اسلامی ملک کے مفاد پرست گروپس
امریکی میڈیا کے95٪ حصے پر قابض ہوں جسکے کارن حقیقت و خیال آرائی کے
درمیانی فرق کو تباہ ہوتا جا رہا ہو تو پھر امریکہ میں جمہوریت کی کیا
حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ جمہوریت کی بنیاد رائے عامہ پر ہوتی ہے مگر جب کسی
کی سوچ پر قدغن لگادیا جاتا ہو اور عوام پر جھوٹ کے ایٹم بم گرائے جائیں تو
پھر اپنے آپکو مہذب باوقار اور سپرپاور کہنا تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔
اقوام عالم کے سیاسی جمہوری انتظامی معاملات اور دہشت گردی کے خلاف
غیرسروپا جنگوں کے تناظر میں امریکہ کو جمہور پرور ملک کا نام دینا درست
ہوگا؟ دنیا کا کوئی براعظم سماج یا خطہ ایسا نہیں ہے جہاں ایسی کسی جمہوریت
کا تصور ہاتھوں پر سرسوں اگانے کے مترادف ہو گا۔2000 میں سپریم کورٹ نے
صدارتی الیکشن کا فیصلہ کیا تھا حتیٰ کہ کورٹ کو ایسا کوئی آئینی اختیار
نہیں ہے۔ ڈف کا کہنا ہے ہم اسی روز اس ڈھلوان کی جانب پھسلنا شروع ہوگئے
تھے جو ڈکٹیٹرشپ پر ختم ہوتی تھی۔9/2/11اور دو ملکوں پر قبضے سے تھوڑا عرصہ
پہلے اسامہ کو دہشت گردی کا لقب دیا گیا۔ اسے تب بھی دنیا کے سب سے بڑے
مائنڈ ماسٹر دہشت گرد کہا جاتا رہاہے اور یہ سلسلہ اسکی ہلاکت کے بعد بھی
جاری و ساری ہے کہ وہ دنیا کی تاریخ کا سفاک قاتل ہے۔اسامہ تو امریکہ کے
قریبی ساتھی کے طور پر کام کرتا رہا ہے مگر جب وہ امریکی پالیسیوں پر واجبی
تنقید کرنے لگا تو اسے دہشت گردی کا حامی سمجھا جانے لگا۔ مغربی میڈیا ہالی
وڈ قانونی فرموں اور ایجنسیوں کو یہودی سرمایہ مہیا کرتے ہیں۔ امریکہ میں
20 ایسے گروہ کام کررہے ہیں جو اسامہ اور القاعدہ سے زیادہ خطرناک ہیں۔
نفیس ، معصوم اور پاکباز نظر آنے اس گروہ میں وہ گروپ بھی شامل ہیں جو
امریکہ کو فیوڈل غلام ملک بنانا چاہتے ہیں۔انہی یہودیوں نے بدنام زمانہ
قوانین بنائے الیکشن میں یہی شرپسند دھاندلیاں کرتے ہیں اربوں کی انتخابی
سرمایہ داری کرتے ہیں۔امریکن سٹاک ایکسچینج کا کریش اسی گروہ کا تازیانہ
تھا۔ وکی لیکس کا مالک اسانج اسرائیل کا ہم نوالہ ہے۔ ابتدا میں تو اسکے
انکشافات نے دنیا کو لرزادیا مگر اب یہی انکشافات قابل اعتماد نہیں ہیں۔وکی
لیکس جب تک اسرائیل کے ٹونی بلیر کا کام کرتا رہے گا وہ دنیا بھر میں متعصب
سمجھا جائے گا۔ اسامہ ڈیتھ ڈرامہ اپنی نوعیت میں نائن الیون کی دیانت
دارانہ تحقیق کے مطالبے سے مختلف ہے۔اسامہ کو جب بحر ہند کے سپرد کیا جارہا
تھا تو آزاد اور متبادل میڈیا کے ایکٹرز حرکت میں اگئے۔ بن لادن فیملی کے
مشکوک انٹرویوز وڈیوز اور متنازعہ اور جھوٹی خبروں کا پرچار شروع ہوگیا۔
امریکیوں نے 9/2/11اور اسامہ آپریشن کے متعلق مضحکہ خیز کہانیاں پیش کی ہیں۔
امریکی جھوٹ در جھوٹ بول رہے ہیں جبکہ لوگ سچائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
امریکیوں کو آجکل نائن الیون بھول چکا ہے اور یہ وہ امریکی ہیں جو دلکش من
گھڑت اور لچسپ جھوٹ کے اتنے بھوکے ہیں کہ خیال آرائی کو سچ پر فوقیت رکھتے
ہیں۔ امت مسلمہ باہمی انتشار افراتفری اور گروہی تضادات میں تقسیم ہوچکی
ہے۔مسلم ریاستوں کے مابین رنجشیں امریکی چالوں اور سفید جھوٹ کا شاہکار ہیں۔
مسلم آقاؤں کو چاہیے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرکے امریکی جھوٹ کا قلع قمع
کرے۔ ڈف کے محولہ بالہ آرٹیکل پر بنظر غائر نگاہ دوڑانے سے کئی سچائیاں
آشکار ہوتی ہیں کہ 9/2/11سے لیکر کابل پر ناٹو کے وحشیانہ تسلط تک اور
امریکی جنگ سے اجڑے ہوئے بغداد سے لیکر اسامہ کی مشکوک موت تک کے سارے
سانحات امریکی جھوٹ کا نتیجہ ہیں۔امریکی عیاریوں فسوں کاریوں اور جھوٹ ساز
کہانیوں کا نفس ناطقہ بند کرنے کے بعد ہی امت مسلمہ اپنے پیروں پر کھڑا
ہونے کے قابل بن چکی ہے۔ |