لاہور کے جلسہ میں نہ اِدھر ہوا نہ ہی اُدھر ہو۔ بلکہ
جلسہ خود ہی اُدھرہوگیا۔مریم صفدر صاحبہ نے نواز شریف صاحب کی لندن سے
ہدایات کے مطابق لاہور کے گلی گلی کوچے کوچے میں مہم چلائی۔ مگر لاہور جلسہ
میں افراد کی حاضری توقع سے بہت کم رہی ۔مدارس کے طالبعلم نہ ہوتے تو گیارہ
جماعتوں کے کارکن تو شمار میں ہی نہ ہوتے؟ گیارہ جماعتی اپوزیشن اب تاریخیں
آگے بڑھا رہی ہے۔ اُدھر بلاول زرداری صاحب، پیپلز پارٹی کے پرچی چیئرمین نے
جیل میں شہباز شریف سے بات چیت کی اور لگتا ہے کہ گن گرج کا زور کم ہو جائے
گا۔ خیر دوسری طرف عمران خان کی تحریک انصاف پاکستان نے علامہ شیخ محمد
اقبالؒ کے خواب، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اسلامی وژن کے مطابق مدینے کی
فلاح ریاست طرز کے حکومت بنانے اور ملک کو کرپشن فری بنانے کے منشور پر
الیکشن جیت کر اپنی پارٹی کی موجودہ حکومت بنائی۔عمران خان اپنی ہر تقریر
میں اپنے منشور کے مطابق مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کے اپنے وعدے کو
دھوراتا رہتا ہے۔اپنے منشور پر عمل کر رہا ہے۔ کرپٹ عناصر کو یہ کہہ کر
باور کرا رہا ہے کہ آپ حضرات جتنے چاہیں جلسے کر لیں۔ آپ نہ حکومت کو نہیں
گرا سکتے، نہ ہی کرپشن کے مقدمات اور نیب کوختم کرا سکتے ہیں۔ میں اقتدار
چھوڑ سکتا ہوں مگر میں این اور آر نہیں دوں گا۔کرپشن کے مقدمے اور نیب میرے
دور حکومت سے پہلے کے بنے ہوئے ہیں۔ نیب قانون کے مطابق کام کرتی رہے گی۔
میں ہر قسم کے مذاکرات کرنے کے لیے تیا رہوں ۔ پارلیمنٹ ہی مسائل اور
اختلافات حل کرنے کی جگہ ہے۔ اب تو عمران خان نے شیخ رشید صاحب کو وزیر
داخلہ بنا کر اپوزیشن کو ٹف ٹائیم دینے کا بندوبست بھی کر لیا ہے۔شیخ رشید
نے آتے ہی نواز شریف کو للکار دیا ہے کہ کافی ہو گیا اب مذید ڈیل نہیں دی
جائے گا۔بات تو صحیح ہے کہ ایک تو نواز شریف کو ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم
کورٹ نے صادق و امین نہ ہونے پر سیاست سے تاحیا ت نا اہل قرار دیا۔نیب
عدالت نے کرپشن ثابت ہونے پر سزا سنائی۔ بیماری کا جعلی ڈرامہ کر کے لندن
اپنے مفرور بیٹوں کے پاس چلا گیا۔ عدلیہ کے مطابق ملک کے سسٹم سے دھوکا کیا۔
عدالت نے اشتہاری قرار دیا۔ اب پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف مہم چلائی ہوئی
ہے۔ لفافہ سیاست والے صحافی نواز شریف کی زبان بندی کے خلاف عدالت میں
ریلیف لینے گئے ۔عدالت نے کہا مجرم، کرپشن میں سزا یافتہ، مفرور اور
اشتہاری کو عدالت ریلیف نہیں دے سکتی۔
جس وقت سے عمران خان نے خیبر پختون خواہ میں پہلی دفعہ مولانا فضل الرحمان
صاحب کو شکست سے دور چار کیا۔ اُس وقت سے عمران خان کی پرانی زندگی کی
گردان عوام کو سنا سنا کر یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا ۔ پھرعمران خان نے
مرکز میں بھی حکومت بنا لی تو عین اس وقت مولانا صاحب نے کہا کہ میں
پارلیمنٹ کو چلنے ہی نہیں دوں گا۔ تمام ممبران قومی اسمبلی سے استعفے دیں۔
واحد جماعت اسلامی تھی جس نے اس بیانیہ کی مخالفت کی اور کہا کہ حکومت کو
پانچ سال مکمل کرنے چاہییں۔ پیپلز پارٹی نہ ہی نون لیگ میں بھی استعفوں
والی بات کی پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان دونوں سے
نالاں تھے۔
حسن اتفاق کہ نواز شریف فیملی کا آف شور کمپنیوں میں نام نکلا۔ نواز شریف
کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے امین و صادق نہ ہونے پر سیاست سے تاحیا ت ناہل
قرار دیا۔ نیب عدالت نے کرپشن پر سزا سنائی۔بیماری کا بہانہ بنا کر لند ن
گیا وہاں شیر بن گیا۔مریم صفدر صاحبہ بھی کرپشن میں سزا ہوئی۔ ۲۰۱۸ء کے
قومی انتخابات بھی عمران خان جیت گئے۔ نواز شریف نے اسکا الزام فوج اور
عدلیہ پر لگا کر سارے پاکستان میں جلسے ، جلوس اور ریلیاں کر کے محاذ
کھولا۔مولانا صاحب بھی پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست ہا رگئے ۔ نواز شریف
نے مولانا صاحب کے کندھوں پر بندوق رکھ کر پی ڈی ایم ( پاکستان ڈیموکریٹک
موو منٹ) میں پیپلز پارٹی سمیت گیارا پارٹیوں کو شریک کر کے فوج کے خلاف
تازہ دم ہو کر میدان میں پھر نکل آئے۔نواز شریف اور مریم صفدر پہلے سال بھر
خاموش رہ کر این اور آر کی کوششیں کرتے رہے ۔شہباز شریف نے بھی کافی کوشش
کی۔ نواز شریف نے اپنی سندھ کے گورنر جس کے والد فوج کے جنرل تھے، کے ذریعے
سپہ سالار سے ملاقات کرا کے نواز شریف اور مریم صفدر کے مقدمات ختم کرانے
کی درخواست کی۔ سپہ سالار نے کہا کہ فوج کا اس معاملے کچھ لینا دینا نہیں۔
یہ عدلیہ سے متعلق بات ہے اسے عدلیہ کے ذریعے حل کروائیں۔ اس کے بعد سال
ڈیڑھ سال کی خاموشی توڑ کر اب فوج کو بلیک میل کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
اپوزیشن کو نہ اپنے ملک کی پروا ہے ، نہ ہی ملکی مسائل سے واسطہ ہے اور نہ
ہی کررونا کی دوسری لہرکی۔ا نہیں صرف اپنی کرپشن کے مقدمات ختم کرانے ہیں۔
نواز شریف کوپینتیس برس بعد اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ جس کا ان کو بڑا
صدمہ ہے۔نوازشریف نے پاک فوج کے سپہ سالار اور دیگر احساس اداروں میں
تعینات فوج افسروں کے نام لے کر ان پر بے جا تنقید کی ہے۔ یہ فوج میں بغاوت
کرانے کی ناکام کوشش ہے۔ اپنے حلف کی پاسداری بھی نہیں کی۔ قوم کے خفیہ راز
فاش کر کے ملکی تاریخ میں سنگین غلطی کی ہے۔ ذرائع اس پر مقتدر حلقوں سے
مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ نواز شریف کی اس سنگین غلطی پر ملک کے قانون کے
مطابق ایکشن لیں اور ملکی سا لمیت کو یقینی بنائیں۔غدار وطن الطاف حسین کی
طرف سے ملک اور فوج کے خلاف پروپیگنڈے کے خلاف صحیح وقت پر ایکشن نہ لے کر
پہلے والی غلطی کو نہ دھرائیں۔ مولانا صاحب نے بھی فوج کے خلاف اعلان جنگ
کرکے کہا افغانستان میں جیسے امریکی فوج حشر ہوا۔ ایسا تمھارابھی حشر کریں
گے۔ اب پورے ملک میں پی ڈی ایم کے کارکن یہی قوالی کر رہے ہیں۔ محمود
اچکزئی ، منظور پشین، اخترمینگل، اسفندیار ولی توپہلے سے پاکستان اور پاک
فوج کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اب نواز شریف نے ان کو پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم
مہیا کر دیا ہے۔ اﷲ کا کرنا کہ مریم کی انتہائی کوشش کے باوجود پی ڈی ایم
کا لاہور کا جلسہ ناکام ہوا۔عمران خان نے شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنا کر
اپوزیشن کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
صاحبو! بُرا ہو مغربی جمہوریت کا کہ اس میں مخالفت برائے مخالفت کا رواج
ہے۔حکومت کے کرپشن فری پاکستان کے اچھے کاموں کی بھی مخالفت کی جاتی ہے
بلکہ مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ نیکیوں میں
ایک دوسرے سے تعاون کر و اور برائیوں میں تعاون نہ کرو۔ بلکہ جتنا ہو سکے
برائی کو روکو۔ اے کاش! کہ بحیثیت قوم ہم اچھے کو اچھا اور بُرے کوبُرا
کہنے کی عادت ڈالیں اور ملک کو کرپشن سے پاک کریں۔آمین
|