رواں سال جانے کو ہے ، نئے سال کی آمد کا ذکر جہان خوش
بختی کی علامت سے لبریز ، امیدوں میں گند ھے جملوں سے ہوگا۔وہاں ہمیں عالمی
ادارے کی جانب سے انتبا ء کو بھی زیر غور لانا ہوگا ۔امید پر دنیا قائم ہے
لیکن امید کو پختہ یقین میں بدلنے کیلئے جدوجہد، کوشش ،انتظامات کی بھی
ضرورت ہے ۔کہیں بھی تباہی کی دوبڑی وجوہات ہوتی ہیں یہ وجوہات آگ اور پانی
ہیں جو اپنی شدت کی بناء پر نہ صرف ذخیروں کو بتاہ کرتی ہیں بلکہ انسانی
نفسیات کو بھی متاثر کرتی ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے لبنان میں ہونیوالی
تباہی آگ ہی کی وجہ سے ہوئی ،سمندری سیلاب، طوفان پانی لاتا ہے،زلزلے آتے
ہیں انہیں ڈیزاسٹر کہا جاتا ہے یہ ایک ناگہانی اور بدنصیب مشکل ہوتی ہے جسے
انسانی آبادی بے بسی ،بے کسی اور تنہائی میں جھیلنے پر مجبور ہوتی ہے ایسی
ہی آفت 2005 میں زلزلہ کی صورت میں کے پی کے ،مانسہرہ ،بالا کوٹ اور آزاد
خطے کے باغ اور مظفرآباد کے علاقے جھیل چکے ہیں آج 15 برس گزرنے کے بعد بھی
قیامت صغریٰ کے نشانات باقی ہیں ۔آفات کی پیش بندی ’’ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ‘‘
ایک ایسی حکمت عملی ہے جس میں بچاؤ ،کم سے کم نقصان اور تباہی کیلئے
اقدامات اپنائے جاتے ہیں اور بعد ازاں بحالی وتعمیر نو کیلئے منصوبہ بندی
کی جاتی ہے ۔خطرات سے ہونے والے نقصانات کو کم کیسے کیا جائے یہ ہمارے لئے
ضروری ہوتاہے ۔
آج کے دور میں معلومات ،اعلانات اور آگاہی کی کمی نہیں۔ قدرتی آفات ،
سانحات سے نمنٹے کیلئے دنیا کے تمام ممالک میں ادارے موجود ہیں ۔ نت نئے
تجربات ، تحقیق زوروں پر ہے ، زلزلہ پروف میٹریل / عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں
، آگ کو نہ پکڑنے والے میٹریل بھی بنائے جارہے ہیں ۔پانی کے اندر تعمیرات
ممکن بنائی جارہی ہیں ۔ترقی پذیر ممالک ابھی بہت پیچھے ہیں جہاں وسائل کم
ہیں وہاں مسائل کی بہتات ہے اگر آگ ،بجھانے ، ہنگامی اخراج کے راستے کسی
عمارت میں ہیں بھی توان کا استعمال یقینی نہیں بنایا جاتا ۔آگ بجھانے والے
آلات کی موجودگی میں ریکارڈ کا ریکارڈ جل جاتا ہے اوردوڑ فائر بریگیڈ کیلئے
ہوتی ہے اس کے پہنچنے تک بہت کچھ راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر راکھ
اڑا دی جاتی ہے قصے کہانیاں ، قیاس آرائیاں سر اٹھاتی ہیں ار پھر سرگوشیوں
میں قصہ پار ینہ بن جاتی ہیں۔ ہماری اکثریتی آبادیاں عدم تحفظ سے دو چار
رہتی ہیں منصوبہ بندی کا فقدان ،باقاعدہ تربیت کا نہ ہونا سانحات میں بڑے
پیمانے پر نقصان کا موجب بنتا ہے ، زلزلہ ،سیلاب ، آتشزدگی سے متعلق متعدد
مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور لکیر پیٹنے کے علاوہ ہم کچھ کربھی نہیں سکتے ،
ڈینگی، پولیو سمیت کئی بیماریاں یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کورونا وبا ء نے
جہاں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے وہاں ہم بھی محفوظ نہیں اور گردو
نواح میں نظردوڑائیں تو آگاہی اور شعور کو سوں دور نظر آئینگے۔ احتیاط ہی
زندگی ہے ۔احتیاطی تدابیر اپنا کر ہم خود بھی محفوظ ہوسکتے ہیں اور دوسروں
کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں بالکل اسی طرح ہم پیش بندی کرکے آنیوالے خطرا ت
کو کم کرسکتے ہیں ۔موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ غذائی قلت سے بچا
جاسکتا ہے وبا ء سے محفوظ رہا جاسکتا ہے سیلاب ، زلزلہ،دریاؤں کی طغیانی کے
خلاف اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں اگر ہم بے دار رہیں تو محفوظ ہو جائینگے
اور اگر سوئے رہے تو آگ ، پانی اور بیماریوں کی شدت ہمیں مٹا کر رکھ دیگی
۔انسانیت کی بقا ہماری ترجیحات میں سر فہرست ہونی چاہیے ۔حکمت عملی ،منصوبہ
بندی خطرات سے آگاہی اور تدارک کیلئے موثر اقدامات ضروری ہیں ہمیں ماضی سے
سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا کرپشن کے ناسور کا خاتمہ
کرکے خود احتسابی کے عمل کو فروغ دینا ہوگا ۔ہم تبدیل ہوکر عالمی دنیا
کیساتھ چلنے کے قابل ہوجائیں تو ہمیں ترقی وخوشحالی میں کون روک سکتا ہے۔
کورونا وبا ء کیخلاف ویکیسین کا تیار ہونا اچھی پیشرفت ہے ۔ا سے بھی سراہا
جائے اور ویکسین کی یکساں ومسادی فراہمی کا وعدہ بھی پورا ہونا چاہیے ۔علاج
سنت ہے اس سے انکا رجہالت ہے۔ در پیش چیلنجز سے بنردآزما ہونے کیلئے پہلے
سے تیاری نقصانات کو کم کر دیتی ہے۔ سال 2021 کو چند دن ہی رہ گئے ہیں
۔جہاں ہم نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے وہاں ہمیں اقوام متحدہ کے ذیلی
ادارے ’’ ورلڈ فوڈ پروگرام‘‘ کی جانب سے دی گئی ’’ وارننگ‘‘ کو نظر انداز
نہیں کرنا چاہیے ۔ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ آئندہ برس بدترین انسانی
بحران کا سال ثابت ہوسکتا ہے اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق 12 ممالک اس
بحران کی زد میں آسکتے ہیں یہ بحران انسانی ضرورتوں میں اضافہ اور قحط کی
صورت میں ہوگا ،وبا ء اور جنگوں کی وجہ سے انسانی ضرورتیں 2 گنا بڑھ چکی
ہیں ۔قحط اور فاقہ کشی 12 ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے ایسے میں
عالمی برادری خطرات کے سد باب کیلئے فی الفور اقدامات کرے۔ اس وارننگ میں
مبینہ خطرات سے دو چار ہونے والے ممالک کے نام تو نہیں بتائے گئے مگر معاشی
اشاریے ، بے روزگارہ کی بڑھتی ہوئی شرح ، بے ہنگم آبادی ، وسائل کی کمی یہ
بتاتی ہے کہ اگلا سال ہمارے لئے بھی مشکلات ، مصائب کا سال ہوسکتا ہے۔ زرعی
ممالک میں زرعی اجناس کی قلت اور منہ زور مہنگائی کا سامنا دو سال سے
کرنیوالی قوم کو بخوبی ادراک ہوجانا چاہیے ، غربت کئی گنا بڑھی ہے، روزگار
کے مواقع ناپید ہوچکے ہیں عالمی امداد میں واضح کمی آچکی ہے ایسے حالات میں
قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے ، فلاحی تنظمیں ، مخیر حضرات کو سر جوڑ کر
بیٹھنا ہوگا تاکہ ہم کسی المیے سے دو چار نہ ہوجائیں۔ زندہ قومیں اپنے تدبر
، اپنے وسائل سے چیلنجوں سے نمٹتی ہیں۔ 2021 ء آفت زدہ سال ہونے کی وارننگ
توجہ چاہتی ہے۔ ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے!وطن عزیز کے انسانی
خدمت کے صف اول کے ادارے کی باگ ٖٖ ڈور فلاحی اور سماجی کاموں میں نام
کمانے والے ابرار الحق کے ہاتھوں میں ہے ۔ان کی سربراہی میں یہ ادارہ آفات
کی پیش بندی،سکول سیفٹی،فرسٹ ایڈ کی فراہمی،قدرتی آفات و سانحات میں بروقت
ریسپانس ،خون کے عطیات جمع کرنے اور مفت فراہمی ،نوسنیاتی تبدیلیوں سے
مطابقت کے اقدامات،کیش ٹرانسفر پروگرام،بارودی سرنگوں کے خطرات سے آگاہی
سمیت متعدد پروگرام بطریق احسن چلا رہا ہے۔ان دنوں شعبہ طب بڑا نام ڈاکٹر
عدیل نواز قائم مقام سیکرٹری جنرل ہیں۔ ہلال احمر پاکستان کے اضلاعی نیٹ
ورک کی بدولت سٹاک کی بروقت فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے ۔ادارہ عالمی انتباہ
کو مد نظر رکھے ہوئے ہے اور انسانی بقا کے لیے مکمل فعال و متحرک ہے۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں تربیت یافتہ افرادی وقت کی کمی کو دور کرنے
کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں ۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ چاک و چوبند اور
صحت مند زندگی کیلئے درکار خوراک تک تمام لوگوں کی رسائی ، خوراک کی
دستیابی اور اس کے حصول کے صلاحیت کے فقدان کو ختم کرنا ہوگا ۔عدم تحفظ کے
اسباب کی شناخت کرکے تمام ممکنہ خطرات سے بچاؤ کیلئے سوچ وچار ناگزیر ہے
۔زرعی پیداوار میں مسلسل کمی کے رجحان کو روکنا ہوگا اگر کنکریٹ کے شہرزرعی
اراضی ہڑپ کرتے رہے تو محتاجی ہمارا مقدر ٹھہرے گی ۔مقامی وسائل کی بڑہوتری
پر توجہ دینا ہوگی ، برآمدات بڑھانا ہوگی۔ ہمیں ایسی صورتحال کا گذشتہ ڈیڑھ
برس سے سامنا ہے جس میں روزگار کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں بتدریج کمی
آرہی ہے ۔ابتر ماحولیاتی ،معاشی اور سیاسی حالات کی بدولت عوامی معیار
زندگی کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ انسانی
آبادیاں ،عمارتیں ،تعمیرات ،معاشی سرگرمیاں ، سہولیات عامہ اور انفراسٹرکچر
(بنیادی ڈھانچہ )خطرات میں ہے ، آنیوالا نیا سال ہمیں بحران، خطرات سے آگاہ
کرتے ہوئے اس کے تدارک کی بھی دستک دے رہا ہے۔خدا کرے ہمیں ایسی صورتحال کا
سامنا نہ ہو۔خدا کرے ان ممالک میں پاکستان شامل نہ ہو۔۔۔ |