عالم بالا سے میری امی اور ابا کا خط‘ میرے نام
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
عالم بالا سے میری امی اور ابا کا خط‘ میرے نام ڈcاکٹر رئیس احمد صمدنی دسمبر کا پہلا ہفتہ، مجھے اپنی امی اور پاپا(ہم اپنی ماں کو امی‘اور ابا کو ’پاپا‘ کہا کرتے تھے) کی یاد زیادہ ہی آرہی تھی۔ اسی دوران اپنے ایک ادبی دوست سے بات ہوئی تو میں نے اس بات کا ذکر اس سے کیااور کہا کہ اس وجہ سے بات کرنے کو دل نہیں کررہا، پھر کسی وقت بات کرونگا، میرے اس ادبی دوست کے والدین بھی حیات نہیں اور بہت جلد اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ اس نے کہا کہ ’اگر والدین اللہ کو پیارے ہوچکے ہوں تو ان کی یاد اس موسم میں زیادہ آتی ہے‘۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کی بھی آج کل یہی کیفیت ہے۔ اس کی اس رائے سے اتفاق کرنا یا نہ کرنااپنی جگہ ہے، اُس کا اپنا تجربہ یا مشاہدہ ہوگا، اگر ایسا واقعی ہوتا ہے تو یہ میری معلومات میں اضافہ ہوا۔البتہ موسم خزاں یا سرما 15ستمبر سے 14فروری تک رہتا ہے، دسمبر میں خنکی بڑھ جاتی ہے، سردی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ دسمبر کا مہینہ سرد موسم،ٹھنڈی ہواؤں کا مہینہ ہوتا ہے۔ اسے رومان پرور کے طور پربھی جانا جاتا ہے۔اس موسم میں سورج کی تپش اور آگ یا ہیٹر کی گرماہٹ لطف دیتی ہے۔ یہ مہینہ تو پیار و محبت کے دلداؤں کے لیے، عاشقو ں کے لیے رومانوی ماحول فراہم کرتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ دسمبر کا خشک و سرد ماحول اپنوں کے بچھڑجانے والوں کی یاد میں بھی اضافے کا باعث ہوتا ہو۔والدین ایسی ہستی ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کے لیے ان کے محبوب، ان کا آئیڈیل ہوتے ہیں اور اپنے آئیڈیل اور اپنے محبوب کی یادکا آنا ایک قدرتی عمل ہے۔ 7دسمبر کو شہناز (میری شریک سفر)کا جنم دن تھا، ہمارے بڑے بیٹے عدیل کا جنم دن ایک دن قبل یعنی 6دسمبرکو ہوتا ہے۔ عدیل کیوں کہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہے اس لیے اس کے لیے دعائیں فیس بک، میسج یا واٹس اپ پر لکھ دی جاتی ہیں، رات میں فون پر بات بھی ہوجاتی ہے۔ ہمارا چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل اور بہو ڈاکٹر ثمرا ہم سے جڑی باتوں کا زیادہ ہی خیال رکھتے ہیں۔ عصر کی نماز پڑھ کر مَیں اور بیگم اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے، موضوع یہی نکلا کہ جنم دن ہے کتنی بہاریں دیکھ چکے ہم، اس پر کچھ گفتگو دنیا سے جانے کے حوالے سے ہونے لگی اور ہوتے ہوتے بات اپنے اپنے والدین تک جا پہنچی جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے سالوں ہوچکے۔ شہناز کے والدین بھی رخصت ہوچکے۔ میرا کہنا تھا کہ جب تک ہم زندہ ہوتے ہیں، ڈھیروں سامان، بے شمار اشیاء، الماریاں بھری ہوئی، بینک اکاؤنٹ پر ہما وقت نظر، کب کتنی ہے، کتنی آئی اور کتنی گئی،گھر میں کتنے پیسے ہیں، کب لانے ہیں، گھر کی دیکھ بھال ٹوٹ پھوٹ اور مرمت کا ہر دم خیال، گاڑیوں کا خیال، ہر شادی پر نئے کپڑے بنانا، سردی آئے تو، گرمی آجائے تو نئے کپڑے الغرض ہر بات کا خیال کہ یہ بھی ہو وہ بھی ہو، عمر زیادہ ہوجائے تو دواؤں کا خیال، کتنی باقی ہیں، ختم ہونے سے پہلے ہی آجائیں، شوگر ٹیسٹ، بلڈ پریشر چیک، ہر چھ ماہ بعد مکمل چیک اَپ۔ لیکن جوں ہی آنکھ بند ہوتی ہے رفتہ رفتہ وہ تمام مال و متع، فکر و خیال، ساز و سامان کچھ اپنوں میں اور غیر ضروری سامان اپنوں کے ہاتھوں ضرورت مندوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ جانے والے نے جس بستر پر آخری سانسیں لی تھیں اس کے رخصت ہوجا نے کے فوری بعد چادر بدل دی جاتی ہے، تکیہ غلاف بدل دیا جاتا ہے، اس لیے کہ اس پر وہ عزیز اَز جان نہیں بلکہ ایک مردہ لیٹا تھا، الماریاں خالی ہوجاتی ہیں،یہاں تک کہ جانے والے کی کوئی ایک نشانی گھر میں دکھائی نہیں دیتی۔ اگر مرحوم کتابوں کا دلدادا تھا اور ڈھیروں کتابیں بھی جمع کر کے چھوڑ گیا تو انہیں لینے کے خواہش مند کم ہی ہوتے ہیں۔ ان کی قسمت میں کباڑی والا ہی ہوتا ہے، جس کے توسط سے وہ علمی خیرہ پرانی کتابوں کے بازار میں فٹ پات پر کوڑیوں کے مول شائقینِ کتب تک پہنچ جاتا ہے۔ میں نے اپنے والدین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ جب تک وہ حیات تھے بھر پور زندگی گزار رہے تھے، ان کا گھرتھا،کمرہ تھا، بیڈ تھا، الماریاں کپڑوں سے دیگر اشیاء سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ سب چیزیں اب کہاں ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ تمہارے پاس تمہاری ماں یا باپ کی کوئی نشانی موجود ہے تو میرا جواب ہوگاکچھ بھی نہیں لبتہ پاپا کے ہاتھ کی لکھی تحریر جو ایک یا ایک سے زیادہ خطوط ہیں جو میرے نام آئے جب وہ انڈیا گئے تھے، میرے خطوط کی فائل میں ضرور محفوظ ہیں اور یہ فائل اب میرے پاس بھی نہیں بلکہ اپنے نام آئے ہزار کے قریب خطوط اور تحریروں کی فائلیں اور اپنا ذاتی ذخیرہ کتب وفاقی اردو یونیورسٹی گلشن اقبا ل کی ”بابائے اردو مولوی ڈاکٹر عبدا لحق میموریل لائبریری“ کو عطیہ کردی ہیں۔ اگر کوئی دیکھنا چاہے تو میرے نام سے قائم ”گوشہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی“میں خطوط کی کئی فائلیں موجود ہیں وہ دیکھ سکتا ہے۔ یہ کتب اور خطوط اب اس لائبریری کی ملکیت ہیں۔ اس تحریر کے علاوہ ان کی جائیداد میں جو شرعی حصہ چند لاکھ تھا وہ مجھے ضرور ملا۔ پیسہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو وہ ماں باپ کی نشانی نہیں ہوا کرتا، وہ تو جلد ہوا ہوجاتا ہے۔ میں باتیں کر تا جاتا اور آنسوں بہاتا جاتا کہ مجھے بروقت اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا۔ بہت دیر تک امی اور پاپا کی ڈھلتی جوانی سے بڑھاپے تک کے حالات اور واقعات،ان کا گھر، ان کی گفتگو، اولاد کی پرورش، عزیز رشتے داروں سے حسن اخلاق، پڑوسیوں سے تعلقات، اپنے ہم عمر احباب کے علاوہ اپنے سے چھوٹوں سے شفقت، ہنسی مزاق، محنت، وقت پر آفس جانا، محنت اور ایمانداری سے آفس کے امور نمٹانا، حلال روزی کمانا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا۔ الغرض کیا کیا باتیں تھیں جو ایک ایک کر کے میرے ذہن میں نہیں آئیں اور میں خاموشی سے اپنے آنسوؤں سے ٹشو پیپر کو نم کرتا رہا،کمرہ کی لائٹ بند ہوئی اور میں افسردہ کیفیت میں بستر پر لیٹ گیا، بستر پر لیٹ کر بھی خاموشی سے بہت دیر تک امی اور پاپا نظروں میں رہے، پھر کسی وقت نیند آگئی۔ صبح ہونے کو تھی احساس ہے کہ کانوں میں فجر کی اذانیں بھی آئیں لیکن میں نے بستر نہ چھوڑا اور پھر نیند کا غلبہ ایسا آیا کہ میں پھر سے سوگیا، اسی دوران احساس ہوا کہ گھر کے دروازہ پر کسی نے دستک دی، یہ احساس خواب کی حالت تھی، میں اٹھتا ہوں، کار پورچ میں یہ احساس ہوا کہ ابھی صبح نہیں ہوئی بلکہ فضاء میں گھپ اندھیرا،خاموشی اور سکوت ہے،میں گھر کا دروازہ کھولتا ہوں، سامنے دو شَبِیہ محسوس ہوئیں، دل سہم سا گیا، ہمت کر کے غور کیا تو پہلی شَبِیہ واضح طور پر میری امی تھیں،صاف ستھرا چمکتا دمکتا صاف ستھرہ چہرہ، سفید کپڑے سر پر سفید دوبٹہ اور دوسری شَبِیہ میرے پاپا کی تھے،وہی رنگ روپ، شلوار کرتا، سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، میری حیرانی اور خوشی کی انتہانہ رہی، مَیں نے دفعتاً دونوں قدم دروازے سے باہر نکالے اور دونوں کو اس طرح اپنی باہنوں میں لے لیا کہ میرا ایک ہاتھ اپنی ماں کی کمر پر اور دوسرا ہاتھ پاپا کو اپنے ھسار میں لیے ہوئے تھا۔ میرا احساس یہ بھی تھا کہ دونوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے، زبان جیسے بند ہوگئی ہو، کوئی لفظ زباں سے نکل نہیں پارہاتھا، بس آنسوں تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس وقت یہ احساس نہیں تھا کہ میں خواب کی کیفیت میں ہوں، میری ماں اور پاپا کو دنیا سے گئے تو برسوں ہوچکے، میں نے ہمت کر کے دونوں کو اندر کی جانب لانا چاہا اور اپنی جانب کیا تاکہ وہ دروازے سے اندر آسکیں لیکن امی نے کہا کہ بیٹا ہم جلدی میں ہیں، نمازِ فجر کا وقت ہوچکا ہے، ہم نے نماز ادا کرنی ہے، ہم تو تمہارے پاس آتے ہی رہتے ہیں، تم سے مخاطب نہیں ہوتے صرف تم سب کی باتیں سنتے اور گھر کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو کر چلے جاتے ہیں، اللہ نے ہمیں چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا، اب ہم ہر روز ان میں سے کسی ایک کے گھر جاتے ہیں، یعنی ساتوں دن ہم اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے ملتے ہیں، انہیں دیکھتے اور خوش ہوتے ہیں۔ کس دن اور کس وقت کس کے گھر آتے ہیں یہ ہم بتا نہیں سکتے، ممکن ہے ساتوں میں سے کوئی ہماری موجودگی کا احساس کر لیتا ہو لیکن ہماری جانب سے یہ احساس دلانے کی کوئی کوشش نہیں ہوتی۔رات تم بہت اداس اور افسردہ تھے اور ہمیں بہت یاد کر رہے تھے، ہمیں اس کا احساس ہوا اور یہ فیصلہ کیا کہ تم سے ملاقات بھی کریں اور کچھ باتیں تم تک پہنچائیں، ویسے بھی آج تمہارے گھر آنے کا دن تھا اس کے لیے ہم نے ایک تحریر کا سہارا لیا یعنی ایک خط ہے جو خود ہی تمہیں دینے چلے آئے۔ اسے اطمینان سے پڑھ لینا۔ یہ کہہ کر میری امی نے ایک سفید کاغذ میرے ہاتھ میں تھمایا، میں نے خط کو اپنے ہاتھ میں پکڑا، اس دوران میری نظر ہاتھ پر تھی، دوبارہ اپنی نظریں اوپر کیں تو میرے امی پاپا میرے سامنے موجود نہ تھے،کچھ دیر حیرت و یاس کی مورت بنا کھڑا رہا، ننگے پیر ہی گھر سے باہر کی جانب جانے والے راستہ پر دور تک نظر دوڑائی لیکن کوئی بندہ بشر مجھے دکھائی نہیں دیا، مین گیٹ تک گیا اور چوکیدار سے پوچھا کہ ابھی یہاں سے ایک مرد اور ایک عورت باہر گئے ہیں۔ اس نے نفی میں جواب دیا کہ نہیں یہاں سے کوئی نہ تو اندرآیا نہ ہی کوئی باہرگیا۔ آسمان کی سیاہی کچھ کچھ روشن ہورہی تھی، ماحول کی خاموشی اورافسردگی اور یہ احساس کہ میں نے انہیں کیوں اپنے سے جدا کیا، ان کے کاندھوں سے اور لگا رہتا، اسی اداسی اور گوماگو کی کیفیت میں اس طرح واپس لوٹا کہ ایک ایک قدم بھاری محسوس ہورہا تھا۔ اِسی کیفیت میں دروازہ بند کیا، خط میرے ہاتھ میں تھا، اپنے بیڈروم میں جانے کے بجائے میں ڈرائینگ روم میں جابیٹھا، اور چشمہ لگا کر خط کھولا، لائن دار کاغذ، مکمل صفحہ، نیلے رنگ کے بال پین سے پورے کاغذ پر تحریر لکھی تھی، تحریر دیکھ کا احساس ہوا کہ یہ تحریر تو میرے پاپا کی ہے، ان کی تحریر بہت نستعلیق تھی، خوش خط، ایک ایک لفظ جیسے موتی جڑے ہوئے ہوں،تحریر کو صاف پڑھا جاسکتا تھا۔ خط پڑھنا شروع کیا۔ یہ وہ تمہید تھی جو اس خط سے قبل بیان کرنا ضروری تھی۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ خواب کی کیفیت میں ہوا اور وہ خط جو میں یہاں نقل کرنے جارہا ہوں اسے بھی میں نے خوا ب کی کیفیت میں ہی پڑھا۔ آپ بھی پڑھیے، خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔ عالم بالا میں رہنے والے کیا کچھ کرتے ہیں، دنیا میں رہنے والوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے اور ان سے کس طرح ملاقات کرتے ہیں۔عالم بالا کو عالم ارواح بھی کہا گیا ہے یعنی ارواح کے رہنے کا مقام۔خط کا متن کچھ ا س طرح سے تھا : عالمِ باَلا سے ! بیٹے رئیس ! دعائیں! تم کیسے ہو اور کیا کرتے ہو؟یہ سب کچھ تو ہمیں بخوبی علم ہے۔ تم سب کی ہمارے لیے دعائیں اور ہمیں یاد کرنے کے عمل سے ہم واقف ہیں۔ کل تم نے ہمیں شدت سے یاد کیا، تمہاری اس کیفیت کے سبب ہم تم سے ملنے چلے آئے اورجو باتیں مختصر وقت میں تم سے نہیں کرسکتے تھے وہ اس خط میں تمہارے پاپا نے لکھ دی ہیں، انہیں پڑھ لینا۔دیکھو جس دنیامیں تم اس وقت رہتے ہو،ہم اس دنیا سے اب عالم بالا میں آچکے ہیں یہ عمل اللہ کے نظام کاایک لازمی حصہ ہے۔ اب ہماری دنیا اورہے اور تمہاری دنیا اور۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ اب ہم اپنی سابقہ دنیا کی مصروفیات سے آزاد ہوچکے، یہاں آرام ہی آرام ہے۔اُس دنیا کے جھمیلے یہاں نہیں، یہاں ہر کوئی خوش، غموں سے آزاد، پریشانیوں سے بے فکرہے۔عالم بالا میں رہنے والے ایک دوسرے سے ہنسی خوشی ملتے ہیں، جو یہاں آچکے سب بہت خوش ہیں۔ عالم بالا کی زندگی دنیاوی زندگی سے بہت مختلف ہے۔ یہاں سب اپنے اپنے طور پر بے فکری کی زندگی گز ار رہے ہیں، اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسے ہر دم یاد کرتے ہیں، غلط باتوں، غلط کاموں کا یہاں تصور ہی نہیں، جھوٹ، فریب، چوری، ماردھاڑ، گالم گلوچ، حَسَد، کینہ، جلن، بد خواھی،برائی، بد اخلاقی، کج اَ دائی، بد گوئی، چغلخوری، بد لگامی، بدکاری، بد اطواری، بد افعالی، تکبر،شیخی، خودستائی اور تُھکا فَضِیحَتی جیسی کسی چیز کا نام و نشان یہاں نہیں۔ یہاں امن ہے، چین ہے، اطمینان ہے، سکون ہے، آرام ہے، آسائش، صلح و آشتی ہے۔اللہ کی یاد ہے،صبر و سکون ہے، ہر کوئی جو یہاں ہے اطمینان و سکون سے ہے۔ ہم بھی مطمئن ہیں، سکون سے ہیں، خوش ہیں۔ ہمارے لیے تم بالکل پریشان نہ ہوا کرو۔تمہاری بیٹی ’سحر‘ اور تمہارے پوتے ’سبحان‘ اور ’راحم‘ ہمارے ساتھ ہی ہوتے ہیں، ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں، سحر اکثر تمہیں اور اپنی امی کو یاد کرتی ہے، وہ اپنی بہن ’فاھینہ‘، بھائی عدیل اور نبیل کا ذکر بھی کرتی ہے۔ راحم اپنے امی ابو اور بہن بھائیوں کو جب کہ سبحان بھی اپنے امی، ابو اور بھائی کو یاد کرتا ہے۔ ہاں سنو! ہمارے تینوں داماد بھی عالم بالا میں آچکے ہیں، تینوں سے ملاقاتیں رہتی ہیں، وہ بھی اپنے بچوں کو بہت یاد کرتے ہیں اور ہماری طرح انہیں دیکھنے جاتے ہیں، واپس آکر اکثر ہمیں وہاں کے حالات بتاتے ہیں۔ شاہداحمد صدیقی خوب جھوم جھوم کر نعتیں پڑھتے ہیں، اچھے نعت خواہ ہیں، یہاں وہ آزادؔ صاحب کی نعت خوانی کی محفلوں میں شریک رہتے ہیں۔ خالد زیادہ تر اپنی امی ابو کے علاوہ اپنے بھائی عارف کے ساتھ لگا رہتا ہے، خوش ہے،ہمارا بہت خیال رکھتا ہے۔ ندیم ارشد کو آئے کم وقت ہوا ہے وہ اکثر خاموش اور پریشان دکھائی دیتا ہے لیکن بہت آرام سے ہے۔وہ بھی اپنی امی اور ابو کے ساتھ زیادہ وقت گزاتا ہے۔تم اپنی تینوں بہنوں کا خیال رکھا کرو، اللہ کی مرضی اور منشاء یہی تھی۔ ہمیں علم ہے کہ تمہارے لیے اب آنا جانا مشکل ہے،ہمیں خوشی ہے کہ ندیم ان کا بہت خیال رکھتا ہے۔ تمہارے بہت سے دوست جو یہاں آچکے اکثر ملتے ہیں۔ تمہارے بارے میں پوچھتے اور خیریت معلوم کرتے ہیں۔ تم نے جس جس شخصیت کے بارے میں لکھا، شاعر و ادیب وہ ہمیں جب بھی ملتے ہیں تمہاری تعریف کرتے اور ممنون ہوتے ہیں۔ ابھی دو دن قبل مرزا غالب ؔ، اقبالؔ اور فیض ؔ تینوں ایک ساتھ بیٹھے تھے، ہم پر نظر پڑی تو تینوں ہمارے پاس آکھڑے ہوئے، تم نے ان تینوں کے بارے میں جو مضامین لکھے ان کے بارے میں خوش اور ممنون ہورہے تھے۔ کچھ دن قبل حبیب جالب اور ناصر کاظمی سے بھی ٹاکرا ہوگیا، انہوں نے بھی تمہارا شکریہ ادا کیا۔ تمہارے دوست صمد انصاری اور سبطین سے ملاقات ہوتی ہے، تمہیں بہت یاد کررہے تھے۔ابھی کچھ دن قبل ہم نے اپنے تمام احباب کی دعوت کی، تمہارے پاپا کے دادا شیخ محمد ابرہیم آزاد مہمان ِخاص تھے وہ اپنی دونوں بیگمات ہما بیگم اور محمودہ خاتون کے ساتھ آئے، اپنے ساتھ جناب بیخود دہلوی کو بھی لائے۔خوشی ہوئی ایک بڑا شاعر ہماری دعوت میں آیا۔آزاد صاحب کے تمام بیٹے اور ان کی دونوں بیٹیاں حمیدہ خاتون اورکنیز رسول(منی پھوپھی) بھی تھیں، تمہارے دادا (حقیق احمد)اور دادی (امت الباقی)، تمہارے پاپا کے بھائی ظریف اور ان کی بیگم راشدہ، جلیس اور ان کی بیگم ساجدہ، مغیث کے ساتھ حمیرا صمدانی بھی تھیں، تمہاری ساری پھوپھیاں بھی آئیں۔ میرے تمام بھائی(زبیر، محبوب، مطلوب، احمد) اور بہنیں (عطیہ آپا اور ذکیہ) ان کے ساتھ منظور بھائی اور بھائی خورشید بھی تھے۔تمہاری بیٹی سحر نے تمام مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کی، سبحان اور راحم نے اپنی پھوپھو کی مدد کرتے رہے۔ تمام لوگ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے، دنیا میں رہنے والوں کا ذکر بھی آیا۔ تمہارے بارے میں سب ہی نے پوچھا اور تمہارے علمی و ادبی ذوق اور لکھنے پڑھنے کو خوب سراہا۔ تمہارے دادا تو تم پر خوب فدا ہورہے تھے کہنے لگے کہ مجھے اپنے اس پوتے پر بہت فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد صاحب کے بعد میرے اس پوتے نے علم و ادب کے میدا ن میں جو کام کیا وہ قابل تعریف ہے۔ تمہارے پر دادا شیخ محمد ابرہیم آزادؔ تمہارے بارے میں بہت باتیں کرتے اور خوش ہوتے ہیں۔ ان کی سرپرستی میں شاعروں کا اجتماعات اکثر منعقد ہوتے ہیں، وہ ہمیں بھی بلا بھیجتے ہیں۔وہاں بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ ایک محفل میں انہوں نے ہمیں بلا یا، ہمارے سامنے ایک نورانی چہرے والے صاحب کھڑے تھے،خوب رو و خوبصورت، سفید داڑھی، سر کے بال سفید، نگاہیں نیچے کیے ہوئے، آزاد صاحب نے کہا کہ انہیں پہچانتے ہو، ہمارا جواب نفی میں تھا کہنے لگے کہ یہ وہ ہستی ہیں ہمارے خاندان کی جنہوں نے سب سے پہلے 932سال قبل 1088 ء میں اسلام قبول کیاتھا، ہمارے خاندان پر ان کا بڑا احسان ہے، ہدایت تو اللہ دیتا ہے،جس کسی کو جب چاہے ہدایت دیدے۔ حضرت دیوان باری بخش ؒ کو اس خاندان کے محسن اور رہنما کا درجہ حاصل ہے۔ ہم ان کے جس قدر شکر گزار اور احسان مند رہیں کم ہے۔ ان کے ہی اس اقدام پر یہ خاندان آج تک ایک اللہ اور ایک رسول نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کے ماننے والوں میں شامل ہے۔ ہم نے دنیا میں اس عظیم ہستی کے بارے میں سنا ہی تھا، اِس بات کا ذکر آزاد صاحب نے اپنے دیوان میں کیا، عالم بالا میں ہمیں اس نیک ہستی کو دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا۔ ایک دن تمہارے دادا خاص طور سے ہم سے ملنے آئے تھے، تمہارا حال پوچھ رہے تھے، انہیں تمہاری ابتدائی زندگی کی بہت سے باتیں یاد ہیں۔ تمہارے تینوں چچا ظریف، جلیس اور مغیث بھی خوش ہیں، کچھ دن ہوئے حمیرا اور ساجدہ سے بھی ملاقات ہوئی، دونوں خوش ہیں۔ تمہاری دونوں خالائیں آپا عطیہ اور ذکیہ سے تو ہر دوسرے دن ہی ملاقات رہتی ہے۔ان کا ٹھکانہ ہمارے پاس ہی ہے۔ اسی طرح بھائی منظور اور بھائی خورشید بھی ملتے رہتے ہیں۔ تمہاری تمام پھو پھیاں جب بھی ملتی ہیں تمہارے بارے میں ضرور پوچھتی ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا بھائی زاہد حسین سبزواری جو ہم سے کافی فاصلہ پر ہیں نے ہمیں بلا بھیجا۔ ہم دونوں صبح ہی صبح چل دئے۔ہمیں ایک پہاڑ کے اوپر سے ہوتے ہوئے جانا تھا۔پہاڑ انتہائی خوبصورت، سبز ہ ہی سبزہ، راستے میں پھلوں اور خشک میوے کے درخت، آب شار بے انتہا خوبصورت،وادی میں چھوٹے بڑے بچوں کا ہجوم دکھائی دیا ان کی تعدا د سو سے ڈیڑھ سو کے قریب ہوگی۔ جب ہم ان کے نذدیک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ وہ بچے ہیں جنہیں دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول، پشاور میں شہید کردیا تھا۔ سب بچوں کے چہروں پر نور ہی نور، چمکتے دمکتے، ہنستے مسکراتے،خوبصورت، چھوٹے بڑے اِدھر اُدھر گھومتے پھر رہے تھے۔ ہم نے دلچسپی سے انہیں دیکھا اور ان کے اور نذدیک چلے گئے۔ اتنے میں ایک با وقار خاتون، خوش شکل و خوش لباس اور خوش گفتار بھی ہمارے پاس آئیں، سلام کا تبادلہ ہوا۔ انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتا یا کہ ان کا نام’طاہرہ قاضی‘ ہے اور وہ آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل تھیں، ان تمام بچوں کے ساتھ ان کی بھی شہادت ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہاں انہی بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔انہوں نے از خود تمہارا ذکر کیا اور کہنے لگیں کہ آپ کے بیٹے نے شہید بچوں پر ایک تفصیلی مضمون بعنوان ”سولھا دسمبر: پھولوں کی شہادت کا دن“ کے عنوان سے لکھا، طاہرہ قاضی نے یہ بھی بتا یا کہ ایک مضمون بعنوان ”طاہرہ قاضی بہادری و فرض شناسی اور قربانی کی اعلیٰ مثال“ بھی لکھا۔ وہ خوش تھیں اور ممنون بھی۔انہوں نے ہمیں ان سب بچوں سے ملوایا، ہنستے مسکراتے، سرخ سفید جیسے کھلتے گلاب کے پھول، بچوں سے مل کر خوشی ہوئی۔ اجازت چا ہی اور اپنا اگلا سفر جاری رکھا۔ بہت سے باتیں ہوئیں، شام میں واپسی ہوئی۔ واپس آتے ہوئے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں مشکور صاحب بھی تھے،ہم پہنچے تو وہ اپنے لان میں پودوں کو پانی دے رہے تھے، گرم جوشی سے ملے، بہت دیر ان سے باتیں ہوتی رہیں، وہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو یا کرتے رہے۔ شام گئے اپنے ٹھکانے پر پہنچے۔ سال ہوگیا دنیا کو ایک وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کورونا بڑی تعداد میں لوگوں کو عالم بالا میں بھیج رہا، پاکستان میں بھی اس نے بہت خوف پھیلا یا ہواہے، رواں سال تو اس وبا سے کتنے ہی لوگ عالم بالا آچکے ہیں۔ ایک سال ہونے کو ہے اس کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں۔ تم اپنا بہت خیال رکھا کرو، تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ کورونا عمر رسیدہ لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو گھر میں رہا کرو۔ اپنے بہن بھائیوں کو بھی تنبیہ کیا کرو کہ وہ بھی احتیاط کریں،پرویز اور ندیم بہت باہر آتے جاتے ہیں، انہیں تنبیہ کرنا کہ غیر ضروری باہر نا جائیں۔نبیل اور ثمرا روز ہی اسپتال جاتے ہیں، مریضوں میں رہتے ہیں، ان کی تو مجبوری ہے پھر بھی ان سے کہنا کہ بہت احتیاط کیا کریں۔ کچھ دن ہوئے ہم پرویز کے گھر گئے تھے، اس کا ایک اور پوتا ہوا ہے، ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ ساتھ ہی تسلیم کے گھر بھی چلے گئے، اس کے پوتے کو بھی دیکھا،ماشاء اللہ اچھاہے، دونوں نذدیک نذدیک ہیں۔جب تمہارے گھر آتے ہیں تو ندیم کے گھر بھی چلے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، ہم اسے دیکھنے آئے تھے۔ خوشی ہے کہ اس کے دنوں بیٹے ما شا ء اللہ ڈاکٹر بن رہے ہیں، ارحم تو ڈاکٹر بن گیا ہے، چھوٹا بھی چند سال میں ڈاکٹر بن جائے گا۔ اچھا بہت باتیں ہوگئیں تم سے۔ خط بھی بہت طویل ہوگیا ہے۔ سب بچوں کو دعائیں۔ اللہ حافظ۔ تمہاری امی اور پاپا |