للن پاٹل نے کلن کلکرنی سے کہا آج میں نے بہت ڈراونا
سپنا دیکھا ۔
کلن بولا بھائی آج کل خوابوں سےبھیانک حقیقت ہوگئی ہے اس لیے کوئی ڈر نہیں
لگتا خیر اپنا سپنا سہکار کرو۔
کیسی باتیں کرتے ہو کلن ۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر ہو۔
ارے بھائی میں ساکار نہیں سہکار یعنی شیئر کرو کہا۔ تم تو بلا وجہ ناراض ہو
رہے ہو۔
اوہو اچھا۔ اسی لیے تو آپ کے پاس آیا ہوں ۔ میں نے دیکھا کہ ایک سنسان
سڑک پر اندھیرے میں ایک رکشا چلا آرہا ہے۔
یہ خواب ہے یا رام سے برادر کی کوئی ڈراونی فلم ؟ تم تو اس طرح بتا رہے
جیسے کوئی بھوت پریت کی فلم دیکھ کر آرہے ہو ؟
کلن آپ تو جانتے ہیں میں اندھ وشواس نرمولن سمیتی کا پرانا کارکن ہوں اس
لیے بھوت پریت میں یقین نہیں رکھتا ۔
لیکن باتیں تو اسی طرح کررہے ہو جیسے کوئی آسیب زدہ انسان کرتا ہے خیر
اپنا رکشا آگے بڑھاو۔
میرا رکشا؟ میں رکشا تھوڑی نا چلاتا ہوں؟ میں تو ٹریکٹر پر چلتا ہوں ۔
سوچتا ہوں ٹریکٹر کے ذریعہ سانگلی سے دہلی جاوں۔
ٹریکٹر سے دہلی دماغ خراب ہے کیا؟
ارے بھائی کسان تحریک میں شامل ہونے کے لیے اس سے اچھی سواری اور کون سی ہو
سکتی ہے؟
لیکن اتنا لمبا سفر ٹریکٹر پر بیٹھ کر کیسے کروگے؟
ارے بھائی لاک ڈاون کے بعد لاکھوں لوگوں نے پیدل ہزاروں میل کا سفر کیا ۔
میں تو ٹریکٹر پر بیٹھ کر جانے کی بات کررہا ہوں ۔
ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن کسانوں کے چکر میں پڑ کر تم اپنا خواب بھول گئے
خیر واپس آکر سنا دینا ۔
ارے کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟ اس خواب نے میری نیند اڑا دی ہے۔ اگر آپ نے
اس کی اچھی تعبیر نہیں بتائی تو میں سو نہیں سکوں گا۔
یہ اچھی اور بری تعبیر کیا ہوتی ہے؟ جیسا خواب ویسی تعبیر ، خیر خواب سناو
ورنہ میں سو جاوں گا اور خواب دیکھنے لگوں گا ۔
آپ ویسا خواب نہیں دیکھ سکتے ۔
کیوں؟ میں ویسا خواب نہیں دیکھ سکتا؟؟
میرا مطلب ہے میں نہیں چاہتا کہ کوئی ویسا خواب دیکھے ۔ ویسے یہ انسان کس
قدر مجبور ہے کہ اپنی مرضی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔
جی ہاں للن واقعی انسان مجبور ہے لیکن وہ اسے بھول کر دوسروں کو اپنے آگے
مجبور بنانے میں لگا رہتا ہے ۔تو کیا اب اس خواب کو بھول جایا جائے؟
جی نہیں، میں نے دیکھا کہ اچانک اس رکشا کا اگلا پہیہ پنچر ہوگیا۔
کلن قہقہہ لگا کر بولا جی ہاں یہ تو خواب میں ہی ہوتا ورنہ عام طور پر آگے
کے بجائے پیچھےکے پہیے میں کانٹا لگتا ہے۔ خیر پھر آگے کیا ہوا؟
اس کےاندر سےزعفرانی وردی میں ایک ڈرائیور باہر آیا ۔
ارے بھائی یہ خاکی نیکر والے کب سے آٹو چلانے لگے۔ وہ تو آج کل سرکار
چلاتے ہیں ۔
جی نہیں خاکی نیکر نہیں بلکہ زعفرانی کرتا اور پگڑی والے ڈرائیور کو میں نے
غور سے دیکھا تو وہ اپنے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے تھے ۔
اوہو سمجھ گیا ۔ دن بھر سیاست کی باتیں کرتے کرتے تمہارے خواب میں بھی
سیاست بازی ہونے لگی ہے۔
نہیں ایسی بات نہیں ۔ اس کے بعد جو کچھ میں نے دیکھا وہ میں نے خواب میں
نہیں سوچا تھا ۔
اچھا پھر کیا ہوا؟ کیا راج ٹھاکرے اپنے انجن پت بیٹھ کر نمودار ہوا اورچچا
زاد بھائی کا رکشا درست کر کے دونوں گلے ملے اور راج اپنے انجن پر روانہ
ہوگیا ؟
جی نہیں ۔ کاش کہ ایسا ہوتا لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ جس انجن کے پیچھے ڈبے
نہ ہوں وہ صرف ہاتھی کے دانت کی مانند میوزیم میں نظر آتا ہے ۔
دیکھو آہستہ بولو ورنہ مہاراشٹر نونرمان سینا کے لوگ تم کو انجن تلے کچل
دیں گے ۔ اس کے لیے اکثریت تو دور انتخاب جیتنا بھی ضروری نہیں ہے۔
کلن کلکرنی آپ بہت چالاک ہیں ۔ آپ نے میرے خواب میں راج کو گھسا کر اسے
کسی اور جانب موڑ دیا ۔ یہ بہت غلط بات ہے۔
اچھا بھائی تم اسے راہِ راست پر لے آو میں کب منع کرتا ہوں؟
ہاں تو میں نے دیکھا کہ اس رکشا کے اندر سے شرد پوار اور سونیا گاندھی نیچے
اترے اور ادھو کی مدد کرنے لگے ۔
ارے بھائی یہ تو فطری بات ہے ۔یہ بتاو کہ آگے کیا ہوا ؟؟
پوار نے رکشا کو جیک پر چڑھایا اور سونیا اسٹیفنی کا پہیہ کھولا ۔
سمجھ گیا ۔ اس کے بعد ادھو نے پہیہ بدلا اور پھر شرد پوار نے جیک سے گاڑی
کو اتارا اور سونیا نے پنچر ٹائر کو اسٹیفنی کی جگہ لگایا ۔ سفر جاری
ہوگیا۔
بھائی کلن آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی ۔ میں بالکل یہی توقع کررہا تھا
لیکن ایسا نہیں ہوا؟
اچھا تو پھر کیا ہوا؟
ہوا یہ کہ اسٹیفنی ٹائر بھی پنچر نکلا۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جو پہیہ زمین پر چلتا ہے وہین پنچر ہوسکتا ہے ۔ اندر
رکھے رکھے پہیہ پنچر ہوجائے یہ کیسےممکن ہے؟
حقیقت میں یہ ممکن نہیں ہے مگر خواب میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور میرے خواب
میں یہی ہوگیا ۔
خیر اب اس اندھیری رات میں وکاس اگھاڑی کے رکشا کا کیا ہوا؟ کیا کوئی جن
بھوت تو نہیں نکل آیا؟
جی نہیں پاس میں پیڑ کے پیچھے امیت شاہ نکل آئے ۔
اوہو سنسان سڑک پرتو وہ ادھو کے لیے بھوت پریت سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ۔
جی ہاں میں سمجھ گیا کہ اب تو ’رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں ‘ ۔
اچھا تو اس نے اپنی عزت کیسے بچائی؟
ارے بھائی اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
اچھا وہ کیسے؟
ہوا یہ کہ امیت شاہ نے سلام کرکے پوچھا کیوں بھائی ہوا نکل گئی کیا؟
اچھا تو ادھو نے کیا جواب دیا۔
ادھو مسکرا کر بولے آپ کی کرپا(کرم) سے ہوا نہیں نکلی بلکہ ٹائر ہی پنچر
ہوگیا۔
اس کے بعد امیت شاہ نے سوال کیا تو اب کیا چاہیے ؟
ادھو نے بتایا ۔ اگلے پہیے کا سوال ہے مائی باپ۔
امیت شاہ نے کہا تھتا ستو(تمہاری من مراد پوری ہوگی) لیکن اس سے پہلے تمہیں
نیا انشورنس کرنا ہوگا ۔
ادھو بولے ٹھیک ہے یہ سنتے ہی شاہ نے جیب سے ایک انشورنس کا کاغذ نکالا اور
ادھو نے اس پر دستخط کردیئے ۔
اوہو یہ تو غضب ہوگیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا؟
شاہ نے آواز لگائی ارے وہ پہیہ لانا ۔ یہ سن کر دوسرے پیڑ کے پیچھے سے
دیویندر فردنویس باہر آئے ۔ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پہیہ لگایا ۔
اپنے جانی دشمن ادھو کی رکشا میں دیویندر فردنویس پہیہ لگائیں یہ تو خواب
میں ہی ممکن ہے بھائی ۔ خیر اس کے بعد کیا ہوا؟
اس کے بعد امیت شاہ اور دیویندر فردنویس رکشا کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور
وہ پھرُ ہوگیا ۔
ارے لیکن اس سے اترنے والے شرد پوار اور سونیا گاندھی کا کیا ہوا؟
وہ دونوں اندھیری سنسان سڑک پر ہاتھ ملتے رہ گئے ۔
خیر ’وہ تو ہونا ہی تھا‘ ۔
لیکن کلن کلکرنی میری سمجھ میں اب بھی یہ بات نہیں آئی کہ فردنویس خود
ادھو کے رکشا میں پہیہ کیونکر لگایا؟؟ یہ تو ناممکن ہے۔
جی نہیں یہ بہت آسان ہے للن ۔ اگر دیویندر فردنویس کو مرکز میں کوئی اہم
وزارت مل جائے تو وہ بخوشی دہلی چلے جائیں گے ساراجھگڑا ختم ہوجائے گا۔
لیکن مہاراشٹر میں بی جے پی کو شیوسینا سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں اس لیے وہ
اپنے سے چھوٹی جماعت کا وزیر اعلیٰ کیسے برداشت کرے گی ؟
جیسے بہار میں برداشت کرلیا ۔ یہاں اصل مسئلہ پارٹی کا نہیں فرد یعنی
فردنویس کا ہے جو وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔
اچھا تو اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
میں بتا چکا ہوں۔فردنویس کو مطمئن کرنے کے لیے مرکزی وزارت کا لالی پاپ
کافی ہے۔
اچھا تو بی جے پی کے چانکیہ ایسا کیوں نہیں کرتے ؟
انہیں امید ہے کہ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی مانند وہ مہااگھاڑی کے ارکانِ
اسمبلی کو اپنے ساتھلے کر سرکار گرا دیں گے ۔
اچھا تو جب یہ توقع ختم ہوجائے گی تو آپ کے پلان پر عمل در آمد کرکے
ہمارے ادھو ٹھاکرے کی سرکار گرادی جائے گی ؟
نہیں بھائی یہ میرا پلان نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ یہ ہوسکتا ہے۔ کیا
ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا ۔
لیکن کیا یہ پوار اور سونیا کے ساتھ دھوکہ دھڑی نہیں ہے ؟
بھائی عام آدمی کے لیے دھوکہ دینا ایک گناہ ہے مگر سیاستداں کے لیے وہ
فنکاری ہے۔
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
اب دیکھو سینا نے بی جے پی کے ساتھ انتخاب لڑا اور اس کو دھوکہ دے کر الگ
ہوگئی۔
وہ تو سیاسی اختلاف تھا ۔ بی جے پی نے بدعہدی کی تھی ۔
چلو مان لیا لیکن پھر اجیت پوار غداری کرکے فردنویس سے جا ملے ۔
وہ تو چالبازی تھی تاکہ اپنے خلاف مقدمات خارج کرائے جائیں ۔
اس کے بعد وہ فردنویس کو دھوکہ دے کر مہاوکاس اگھاڑی میں لوٹ آئے اور نائب
وزیر اعلیٰ ہوگئے ۔
وہ توپوار کی اقرباء پروری تھی ۔
خیر اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد اگر ادھو کی گھر واپسی ہوجائے تو اس میں
حیرت کی کیا بات ہے؟
جی ہاں کلن، میں سوچتا ہوں انتخاب ہارنے کے باوجود کانگریس اور این سی پی
کواتنی مدت اقتدار کا مزہ مل گیا وہی غنیمت ہے۔
دیکھو للن یہ پہلی بارتم نے جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچا ہے۔ سیاست کی دنیا
میں فی الحال اسی معروضی طرز فکر کا دوردورہ ہے۔
یہ توبہت مشکل ہے کہ عوام کا جذباتی استحصال کیا جائے اور خود کو اس سے باز
رکھا جائے ۔
عام لوگوں کے لیے یہ مشکل ضرور ہے لیکن سیاستداں تو وی وی آئی پی ہوتے ہیں
۔ ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔
جی ہاں کلن کلکرنی صاحب ۔ امید ہے اب مجھے اس طرح کے خواب پریشان نہیں کریں
گے۔ ٹھیک ہے اجازت دیجیے۔
|