عالمِ اسلام کے ان ممالک جہاں نام نہاد اسلام پسند عناصر
یا تنظیمیں اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں کا قتلِ عام کرکے خوشی مناتے ہیں۔
شریعتِ مطہرہ صلی اﷲ علیہ و سلم کے مطابق انسانوں کا ناجائز خون بہاناسخت
منع ہے ۔ ایک طرف حکمراں طبقہ انکے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کیلئے
مخالفین کو آغوشِ لحد کردیتے ہیں تو دوسری جانب نام نہاد اسلامی تنظیمیں
عام نہتے ،معصوم و بیقصور کسی بھی عمر کے مردو خواتین اور معصوم بچوں
کودہشت گردانہ بم دھماکے ،خودکش حملے، فائرنگ وغیرہ کے ذریعہ سپردِ خاک کئے
دیتے ہیں۔ ان ممالک میں عراق،شام،یمن،لیبیا،مصر، افغانستان،پاکستان،
نائجریاوغیرہ شامل ہے۔ عراق ، شام اور افغانستان میں گذشتہ کئی سالوں سے
خودکش حملے، بم دھماکے، فائرنگ کے واقعات معمول کی بات سمجھے جانے لگے ہیں۔
لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ
وہ کسی ظالم کی گولی یا بم حملہ کے ذریعہ موت کی آغوش میں جاپہنچے گے۔آج
کئی ممالک میں لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو انہیں اپنی موت سامنے دکھائی
دیتی ہے اور جب وہ شام گھر صحیح سلامتی کے ساتھ لوٹتے ہیں تو اطمینان کی
سانس لیتے ہیں۔ یہ ان اسلامی ممالک کی بات ہے جہاں امن و سلامتی ہونی چاہیے
تھی۔اسلامی ممالک کے حکمراں اپنے پڑوسی ممالک میں وہاں کی حکومتوں کی تائید
یا مخالفت میں حکومت یا انکے مخالفین کا تعاون کرتے ہوئے ہاسپتلس، مدارس و
دفاتر، بازار، پارکوں اور سڑکوں پر حملے کرتے ہوئے معصوم و بے قصور شہریوں
کو آنِ واحد میں لقمہ اجل بنادیتے ہیں۔یمن، شام، لیبیا، افغانستان، عراق
وغیرہ میں آج بھی دوسرے ممالک کی افواج امن وسلامتی کی بحالی کے نام پر آج
بھی موجود ہے ۔ ان افواج کی مخالفت میں بھی بعض تنظیموں کی جانب سے حملے
کئے جاتے ہیں تاکہ وہ ان ممالک سے چلے جائیں۔ لیبیا اور افغانستان میں نیٹو
ممالک کی افواج کی موجودگی اور ابھی تک ان ممالک میں دہشت گردانہ حملوں کی
وجہ سے عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں قیام امن و سلامتی کے
امن مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور نہیں معلوم یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ان
حالات کے پیشِ نظر ترک پارلیمنٹ نے 23؍ ڈسمبر 2020کو لیبیا اور افغانستان
میں متعین ترک افواج کے فرائض میں مزید اٹھارہ ماہ کی توسیع کردی ہے۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ لیبیا میں پائیدار جنگ بندی کے فقدان کی
وجہ سے ترکی سمیت دیگر علاقائی ممالک کی امن وسلامتی کو خطرہ ہے لہذا ترکی
نے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے خطرات کے جواب اور
عالمی قوانین کے تناظر میں فیصلہ کیا ہے اس فیصلہ کے مطابق لیبیا اور
افغانستان میں ترک افواج مزید اٹھارہ ماہ تعینات رہے گی۔
افغانستان میں صحافیوں کی ہلاکت۰۰۰ ڈروخوف پیدا کرنے کی کوشش
افغانستان میں 26سالہ ٹی وی اینکر ملالہ میوند حماد کو مشرقی افغانستان کے
صوبے ننگرہار میں ان کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا ۔ اس
حملہ ملالہ میوند کے ساتھ انکے ڈرائیور محمد طاہر کو بھی نشانہ بنایا گیا
یہ واقعہ 10؍ ڈسمبر کی صبح 7بجے پیش آیا جب ملالہ میوند انعکاس ٹی وی پر
نشر ہونے والے صبح کے پروگرام کے لئے دفتر روانہ ہونے والی تھیں۔ ملالہ
میوند کے بھائی حماد کے مطابق انکی بہن انکی آنکھوں کے سامنے درندہ صفت
ظالم افراد کی فائرنگ کا شکار ہوگئی جبکہ انکے علاقے کو جہاں پر یہ المناک
واقعہ پیش آیا جلال آباد کا ’’گرین زون‘‘ سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ انکے
بھائی کے مطابق حملہ آور جلدی میں نہیں تھے ، وہ اپنی کارروائی مکمل کرنے
کے بعد اطمینان سے وہاں سے روانہ ہوئے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یہاں یہ بات
قابلِ ذکر ہیکہ انکے مکان سے قریب افغان انٹلیجنس سروس کا صوبائی آفس اور
ایک پولیس چیک پوائنٹ بھی ہے اس کے باوجود ایک خاتون صحافی کو فائرنگ کے
ذریعہ صبح کی ابتدائی ساعتوں میں نشانہ بنایا گیا۔ ملالہ کی والدہ بھی انکی
برادری کی رہنما تھیں اور انہیں بھی معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرنے پر
بارہ سال قبل قتل کردیا گیا تھا۔ اس طرح افغانستان میں قوم کا درد رکھنے
والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جو لوگ ملک ومعاشرے کی فلاح و بہبود اور امن
وسلامتی اور خوشحالی کی بات کرتے اور لکھتے ہیں اورعملی طور پر سرگرم رہتے
ہیں انہیں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ملالہ میوند کے تعلق سے انعکاس ٹی وی کے ہیڈ
آف نیوز شکر اﷲ پسون کا کہنا ہیکہ ان کی موت نہ صرف انکے خاندان اور دوستوں
کے لئے زبردست نقصان ہے بلکہ انکے ناظرین کیلئے بھی۔ انکا مزید کہنا ہے کہ
’’مجھے نہیں لگتا کہ ہم ان کا متبادل تلاش کرسکیں گے، وہ اپنی طرح کی صرف
ایک تھیں، ہمارے پاس اور کوئی نہیں ہے اور ہمیں ایک مرد میزبان سے شو کی
میزبانی کروانی پڑے گی‘‘۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب خواتین ڈرو خوف کے سایہ
میں رہنگی اور انکے سروں پر ہمیشہ خطرہ منڈلاتا رہے گاتو ظاہر سی بات ہے کہ
وہ ٹی وی پروگراموں میں آنا چھوڑدینگے۔افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی کے مطابق
ملالہ افغانستان کے اپنے علاقہ میں واحد خاتون ٹی وی میزبان تھیں اور ان کی
موت کے بعد مشرقی صوبوں میں کئی صحافی خواتین کام پر نہیں آئیں۔ کابل کی
ایک لائیو سیاسی ٹی وی شو کی میزبان فرح نازفروتن نے خیال ظاہر کیا کہ وہ
ممکنہ طور پر اگلا ہدف ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے ملالہ میوند کے قتل کے بعد ایک
صحافتی انٹرویو میں کہاکہ ’’پہلی بار مجھے انتہائی غیر محفوظ محسوس ہوا،
میں اپنے گھر میں بھی محفوظ محسوس نہیں کررہی تھی‘ انکا مزید کہنا ہے کہ اس
سے پہلے وہ خوفزدہ نہیں تھیں کیونکہ خطرہ سبھی کو تھا اور وہ اظہار رائے کی
آزادی کے لئے قربان ہونے کیلئے ذہنی طور پر تیار تھیں مگر حالیہ ٹارگٹ
کلنگز نے انہیں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور خاتون
صحافی ٹی وی نمائندہ نرگس ہرخش نے ملالہ میوند کی ہلاکت کے بعد اپنے آپ کو
فکر مند اور خوفزدہ محسوس ہونے کا اظہار کیا وہ کہتی ہیں کہ’’ وہ گذشتہ کئی
ماہ سے اپنے ساتھیوں کی پریشان کن ہلاکتوں کے بارے میں ذہنی تناؤ سے بھرپور
رپورٹنگ کررہی تھیں، حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اگلا
نشانہ میں ہی ہوں، میں اپنے خاندان کے بارے میں بھی سوچتی ہوں جنہیں میں نے
گذشتہ چار سال سے نہیں دیکھا ہے ، ایسا سوچنا بھی نہایت خوفناک ہے‘‘۔ یہ
دونوں خواتین صحافی فرح ناز فروتن اور نرگس ہرخش تین ماہ قبل دوحہ کانفرنس
میں شرکت کرچکے ہیں ، اس کانفرنس کا مقصد طالبان سے مذاکرات کے ذریعہ برسوں
سے جاری قتل و غارت کو روکنا تھا مگر حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات میں
مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ان خطرناک حالات کے باوجود ان ممالک میں صحافی
اپنی زندگیوں کی قربانی دیتے ہوئے امن مذاکرات اور جنگ بندی و دیگر جنگی
حالات کی خبروں سے عوام کو باخبر رکھنے کی کوشش میں سرگرداں دکھائی دیتے
ہیں۔اسی لئے فرح ناز کہتی ہیں کہ اس طرح کی موت سے کچھ تبدیل نہیں ہوتا، اس
سے کوئی مثبت مقصد حاصل نہیں ہوتا ،اس سے صرف خوف اور دہشت میں اضافہ ہوتا
ہے اور حالات مزید بگار کے شکار ہوتے ہیں۔ملالہ کی ہلاکت کے ایک دن بعد
پولیس نے ایک اور صحافی فردین امینی کے قتل کی تصدیق کی انہیں کابل کے ایک
پہاڑی کے نزدیک ہلاک کردیا گیا تھا۔ اسی طرح 26؍ نومبر کو کابل کے نواحی
علاقے میں دو میڈیا کارکنوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس طرح صحافیوں کو قتل کرکے
انسانیت کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حق و صداقت لکھنے اور کہنے
والوں کو ختم کردیا ہے ۔ ان ممالک کے حکمراں ہوں یا نام نہاد اسلامی
تنظیمیں، انہیں چاہیے کہ حق و صداقت کی آواز اٹھانے والوں کے ساتھ انکی یہ
کارروائیاں ایک نہ ایک دن کامیاب ہونگی اور ظالم اپنے کئے کی سزا ضرور
بھگتے گیں۔
کورونا کے باوجود سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ
بین الاقوامی سطح پر کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے معاشی حالات بدتر ہوتے
جارہے ہیں ، لاکھوں لوگ روزگار سے محروم کردیئے گئے یا انکی تنخواہیں کم
کردی گئیں۔ ان حالات کے باوجود سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں
20فیصد اضافہ بتایا جارہا ہے۔اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب نے سب سے زیادہ
اجازت نامے انڈیا اور مصر کے سرمایہ کاروں کو دیئے ہیں۔ وزارت سرمایہ کاری
کے مطابق جون، جولائی اور ستمبر2019میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو 254اجازت
نامے دیئے گئے تھے جبکہ اس سال اسی مدت کے دوران 306اجازت نامے جاری کئے
گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہیکہ انڈیا اور مصر کے سرمایہ کاروں میں سے ہر ایک کو
30اجازت نامے جاری کئے گئے جبکہ برطانیہ اور لبنان کے سرمایہ کاروں کو
16،فرانس کے سرمایہ کاروں کو 11، امریکہ کے سرمایہ کاروں کو 10جبکہ باقی
پاکستان، شام اور یمن کے علاوہ دوسرے ممالک کے سرمایہ کاروں کو اجازت نامے
جاری کئے گئے ہیں۔اس طرح سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے
تحت مختلف ذرائع سے ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے اور ترقی دینے کے لئے
لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے جس کی ایک کڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ
دینا ہے۔
اب ناتجربہ کاری کا بہانہ نہیں بلکہ کارکردگی کو مزید بہتر بنانا
ہوگا۔عمران خان
پاکستانی وزیر اعظم عمران نے اپنے ٹیم پر واضح کردیا کہ اب ناتجربہ کاری کا
بہانہ نہیں چلے گا بلکہ بہتر کارکردگی کے ذریعہ عوام کی خدمت کرنی ہونگی۔
عمران خان نے کہاکہ اقتدار کے آغاز سے تین ماہ تک سب کچھ سمجھنے کی ضرورت
ہوتی ہے اور اب جبکہ حکومت کے پاس سوا دو سال کا وقت باقی ہے اپنی بہتر
کارکردگی کے ذریعہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا ۔ وزیر اعظم نے
توانائی سیکٹر سے متعلق کہا کہ یہ ایک بڑا چیالنج ہے اور اس میں بہتری لانا
اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت وفاق اور صوبوں میں
کچھ مسائل حل طلب ہیں ، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آٹا کسی کو نہیں ملتا تو
اس کی ذمہ داری وفاق (مرکز) پر ڈال دی جاتی ہے ۔ انہوں نے مہنگائی کو
چیالنج بتاتے ہوئے کہاکہ عوام پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے، انکا کہنا
تھا کہ آہستہ آہستہ ہم کئی چیزیں سیکھتے جارہے ہیں ، عمران خان ایک ایسی
حکومت چاہتے ہیں جو ہر معاملہ میں شفافیت رکھے اور نئی آنے والی حکومت کی
تشکیل کیلئے آسانی پیدا ہو۔ انہوں نے معاشی ترقی و استحکام کے لئے برآمدات
کے فروغ کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہاکہ برآمدات میں اضافے کیلئے اقدامات
کئے جارہے ہیں اور اشیائے خوردونوش پر ڈھائی ہزار ارب سبسڈی دینے اعلان کیا
ہے۔پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد(پی ڈی ایم) کی جانب سے حکومت کے
خلاف احتجاجاً استعفے دیئے جارہے ہیں مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اﷲ کے
مطابق پارٹی کے تمام ارکان پارلیمنٹ نے اپنے استعفے جمع کرادیئے ہیں۔ پی ڈی
ایم نے اسمبلیوں سے بھی استعفے دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے
استعفے دیئے جانے کے بعد ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق سابق صدر پاکستان وپیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری
نے سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے ٹیلی فونک
رابطہ کرکے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے نہ دیئے جائیں۔جبکہ
نواز شریف کا موقف ہے کہ استعفوں سے سینیٹ انتخابات کرانا مشکل ہوگا ۔ مسلم
لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان پائے جانے والے اس
معاملے کو مولانا فضل الرحمننے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں حل کرنے کا
عندیہ دیا ہے اب دیکھنا ہیکہ پاکستانی حکومت عمران خان کی قیادت میں
اپوزیشن سے کس طرح نبردآزما ہوگی اور مستقبل میں عمران خان کی حکومت اپنی
سوا دو سالہ میعاد مکمل کرنے کے لئے عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی
کیلئے کس طرح اپنے سفر کوجاری رکھے گی۔
***
|