ملک کے بیشتر دیہاتوں میں ابھی بھی لڑکی کی شادی کم
عمرمیں کر دی جاتی ہے۔ ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں مگر والدین
شادی کر کے اس کے کندھوں پر بہت ساری ذمہ داری ڈال دیتے ہیں ۔ جس کا اس
گڈیانے کبھی سوچابھی نہیں ہوتا۔ابھی تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گوڈی گڈے
کی شادی میں مصروف ہوتی ہیں اور اس کی شادی کر دی جاتی ہے والدین اپنا فرض
تو ادا کر دیتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ آگے اس کے ساتھ کیا بیتنے والا
ہے ۔گھر کو چلانا اور سسرال والوں کی ہر بات پر عمل کرنا کہاں اس کو پتہ
ہوتا ہے کہ اس نے سسرال میں جا کر کیا کیا کرنا ہوتا ہے اور وہ اس سے کیا
کیا امید رکھتے ہیں۔ گھر کو چلانا اس کے بس کی بات کب ہوتی ۔ابھی تو اس کو
پتہ ہی نہیں کہ کھانا کیسے پکاتے ہیں ۔گھر کو کیسے سنبھالتے ہیں اور گھر کو
چلانے کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔اپنے خاوند کے لیے کیا کرنا ہے اس کا
خیال کیسے رکھنا ہے ۔ ابھی تو وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکتی ۔اور یہ سب کچھ
کیسے کر پائے گی ۔ان تما م کاموں کی ذمہ داری اس پرمسلط کر دی جاتی
ہے۔والدین کو چاہئے کہ بیٹی کی شادی کرنے سے پہلے اس کو گھر چلانے کے اداب
ضرور سیکھائیں ۔بیٹیوں کو دینی اور معاشرتی تعلیم سے بھی ہمکنار کروانا
والدین کی ذمہ داری ہے۔بیٹیوں کو اپنے ہی گھروں میں تمام کام کاج سیکھا
دینے کی بھی ٹریننگ ہو چاہئے ۔تاکہ جب اس پر یہ ذمہ داری پڑے تو وہ ان سے
بے خوبی واقف ہو۔اور اچھے اندار سے اپنے نئے گھر میں تمام معاملات زندگی کو
ہینڈل کر سکے۔
والدین تو یہ سوچتے ہیں کہ فرض ادا ہو جائے اور ان کی ذمہ داری ختم ہو جاتی
ہے تو یہ ان کی غلط سوچ ہے ۔ان کو خیال کرنا چاہئے کہ ابھی شادی کی ہے اس
کے بعد بچے بھی پیدا ہو نے ہیں ۔کیا اس کی عمر ہے کہ وہ یہ سب کچھ سنبھال
سکے گی ۔بچوں کی رکھوالی اور ان کی پرورش اچھے طریقہ سے کر سکے گی ان تما م
چیزوں کو سوچ کر والدین کو ایسا قدم اٹھانا چاہئے ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ
کم عمری کی شادی کے کیا مسائل ہیں ۔ اگر خاوند کی عمر زیادہ ہے تو پھر بھی
بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ اس لئے بہت ضروری ہے اس وقت تک شادی نہیں کرنی
چاہئے جب تک لڑکی گھر کو سنبھالنے کے لئے تیار نہ ہو جائے ۔ جب محسوس ہو کہ
اب وہ سارے گھر کا کام وغیرہ کر سکتی ہے اور اچھے طریقے سے گھر چلا سکتی تب
جا کر اس فرض کو ادا کرنا چاہئے والدین یہ سوچ کر جلدی شادی کر دیتے ہیں کہ
اگر زیادہ عمر ہو گئی تو شادی کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی ننھی
سی جان کو بہت جلد ہی اس میں جلنے کے لئے پھینک دیتے ہیں ۔ ان کو کیا پتہ
کہ سسرال میں اس کو کس کس سے واسطہ پڑے گا۔
کم عمری کی شادی سے ہمارامعاشرہ مسائل سے بھرا پڑ ا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی
وجہ یہی ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ کم عمر میں شادی تو کر دیتے ہیں ۔ مگر
جو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا سامنہ کرنے کے لئے بہت کچھ برداشت کر
نا پڑتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رسوا ئی اور ناراضگی اسی وجہ سئے جنم
لیتی ہیں کہ ابھی لڑکی سمجھدار اور مچور ہی نہیں تھی کہ اس کی شادی کر دی
گئی ۔ ان تمام تر وجوہات کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے
دونوں گھروں میں مسائل اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ دو خوشی سے بسنے والے گھروں
میں مسائل جنم لیتے ہیں دن بدن ان میں اس قدر اضافہ ہو جاتاہے کہ گھر کا
سکون تو تباہ ہوتا ہی ہے ۔ دو گھروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رسوائی اور
جدائی بڑھ جاتی ہے ۔اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے عدالتوں کا رخ
کر لیتے ہیں جس سے ساری عمر عدالتوں کے انصاف ملنے میں گزر جاتی ہے ۔ ہمار
ا عدالتی نظام اس قدر سست ہے کہ فوری انصاف کی طلب کرنا بھی بیوقوفی ہے ۔
کچھ مسائل تو اس قدر کے ہوتے ہیں کہ جب شادی ہوتی ہے تو لڑکی کی مرضی کے
خلاف سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے ۔ والدین یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ بس شادی ہو
جائے جیسے بھی مگر اس کے بعد کیا ہونا ہے سب دیکھ لیں گے۔ مگر یہ سب کچھ
غلط ہے ہمارا قانون اور ہمارا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے دین میں
بھی اس کی ممانت کی گئی ہے۔ شادی لڑکی کی اجازت لے کر کرنی چاہئے تاکہ
مسائل جنم نہ لیں ۔اگرلڑکی شادی سے انکار کر دے تو ہرگز شادی نہیں کرنی
چاہئے ۔مگر ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہم اس کو اپنی آنا کا مسلہ بنا لیتے
ہیں ۔اور زد میں آکر اپنی ننھی کلی کو آگ میں جھوک دیتے ہیں۔ والدین کو اس
چیز کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ جس کے ساتھ ہم اپنی بیٹی کی شادی کر رہے
ہیں کیا وہ اس کو خوش رکھ پائے گا ۔ کیا وہ سب کچھ اس کو دے پائے گا جس کی
اس کو ضرورت ہے ۔یہ تمام چیزیں والدین کو پتہ ہونی چاہئیں ۔تاکہ دوگھروں
میں خوشیاں آ سکیں ۔ ڈراڑیں پیدا نہ ہوں ۔
اور کچھ وجوہات اس طرح کی ہوتی ہیں کہ لڑکی کے والدین سے جو جہیز مانگا تھا
وہ مل نہیں سکا جس کاطانحہ ساری عمر لڑکی کو سننے کو ملتا ہے ۔اور انہی
باتوں پر لڑائی جھگڑے رونما ہوتے ہیں اور پھر بات طلاق پر جا پہنچتی ہے ۔
شادی کی عمر کم ازکم 16سالہ ہے اس سے پہلے شادی نہیں کرنی چاہئے اگر اس کا
خیال نہیں رکھیں گے تو پھر نتائج ہم کو ہی بھگتنا پڑیں گے شادی سے پہلے
لڑکی اور لڑکے کی مرضی بہت ضروری ہے اور اس کی پسند اور نا پسند کا بھی
خیال رکھا جانا چاہئے تاکہ دونوں میں انڈرسٹینڈنگ ہو سکے ۔
ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے شادی لڑکی کی مرضی سے نہیں ہوتی ۔اور اس سے زائد عمر
آدمی سے کر دی جاتی ہے جس سے وہ اس کی ضرورتوں کو کو پور ا نہیں کرپاتی ۔جس
سے ان کے درمیان تعلقات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اور اس قدر خراب ہو
جاتے ہیں کہ دونوں گھروں کا سکون تباہ وبرباد ہوجاتا ہے ۔اور اخرکار بات
طلاق پر ختم ہوتی ہے۔ ان تمام مسائل میں وہ بچے در در کی ٹھوکریں خانے پر
مجبور ہو جاتے ہیں جو ان مسائل میں جنم لیتے ہیں ۔ ان معصوم بچوں کا آخر
کیا قصور ہے ۔ ان کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے اوروہ سوتیلی ماں اور سوتیلے
باپ کی ساری عمر سزا سہتے سہتے بسر کر دیتے ہیں۔میرا سوال ان والدین سے ہے
جو ایسا کر تے ہیں ۔آخر وہ ایسا کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ خدارا
ایسا مت کریں ۔اپنی ننھی جانوں پر ظلم مت کریں شادی اس عمر میں کریں جب وہ
گھر بنانے اور سنوارنے والی بن جائیں ۔تاکہ معاشرتی مسائل نہ بڑھ سکیں ۔اور
آپ کے گھروں میں خوشیاں آئیں۔ |