پھر نیا سال، نئی امید یں
اے خدا خیر کی خبروں کے اجالے رکھنا
نئے سال کی آمد آمد ہے جونہی نیا سال شروع ہوتا ہے کچھ خواب پرانے ہو جاتے
ہیں اور نئے خواب آنکھوں میں سج جاتے ہیں۔ امیدیں پھر سے جنم لیتی ہیں سال
گزشتہ میں جن آزمائشوں سے ہم گزرے انسے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ ایک نئ صبح کی
سحر انگیزی نئے حوصلوں اور نئی امنگوں کو ابھارتی ہیں چاہے وہ ہماری
انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ہم زندگی میں ایک نئے امتحان کیلیئے خود کو
تیار کرتے ہیں۔ ایک نئی توانائی ایک یقین اور حوصلہ ہمارے اندر پیدا ہوتا
ہے جیسے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن۔ انشاء اللہ نئے سال کا یہ سورج
ہمارے ملک کیلئے اور اس دنیا کیلئے خوشیوں کا پیغام لے کے آئےگا۔ بدلتے
ہوئے حالات کو دیکھ کر کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والا سال
جنگوں کا سال ہے افرا تفری اور خونریزی کے یہ تجزیے جہاں ہمیں مایوس کرتے
ہیں ونہی امن کیلئے کی جانے والی کوششیں ہمیں امید دلاتی ہیں۔ سال گزشتہ
میں جہاں ہمیں بہت سی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ایک سب سے بڑی
آزمائش ایک حیاتیاتی حملہ تھا جسنے صرف ہمارے ملک کو ہی نہیں بلکہ ساری
دنیا کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس ہوش ربا اور اچانک حملے نے نظام زندگی کو
درہم برہم کر دیا۔ سماجی میل جول ختم ہو گیا ایک شدید خوف کی فضاء ہر طرف
چھا ئی ہوئی تھی نہ جانے کب کسکے ساتھ کیا ہو جائے ایسا لگ رہا تھا کہ وقت
کا پہیہ رک گیا ہے۔ بے شمار لوگ اس وباء کی نظر ہو گئے سب سے زیادہ جو ملک
اس وباء سے متاثر ہوا وہ چائنہ تھا جہاں کھڑے کھڑے لوگ گر کے مر جاتے اور
سب سے زیادہ بےبسی اس وقت محسوس ہوتی جب ان لوگوں کو اٹھانے کے بجائے لوگ
ایمبولینس کو مطلع کرتے اور وہ ان لوگوں کو اٹھا کے لے جاتے۔ جو لوگ اس
بیماری میں انتقال کر جاتے انکی میت تک انکے لواحقین کو نہیں دی جاتی بلکہ
خاموشی سے اسے دفن کر دیا جاتا۔
بہت سے ممالک جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار تھے وہ اور زیادہ زبوں حالی
کا شکار ہو گئے۔ بےروزگاری نے فاقہ کشی کو جنم دیا لیکن جہاں لوگ ایک دوسرے
سے ملنے سے کترانے لگے تھے وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے لوگوں کے
دکھ درد کو محسوس کیا اور کچھ این جی اوز نے اپنی مدد آپکے تحت لوگوں کے
گھر تک راشن اور دوائیں پہنچا کر لوگوں کے دل جیت لیے اور اس سے یہ احساس
میدا ہوا کہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ
کوئی نادیدہ قوت اس نظام کو روک کر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے۔
موجودہ صورت حال نے لوگوں کو بہت مایوس کیا اور بےروزگاری اور اس افراتفری
نے مہنگائی کو عروج پر پہنچا دیا مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا ترقی یافتہ
ممالک نے تو اس صورتحال پر جلد قابو پا لیا لیکن ترقی پذیر ممالک اب بھی اس
صورتحال سے نبرد آزما ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کیا کورونا ویکسین محفوظ ہے فیصلہ کون کرے
گا؟؟
جہاں بہت سے لوگ جلد از جلد کورونا ویکسین کے استعمال کے لئے بے تاب ہیں
وہیں کچھ لوگ ایک انجان دوا کو اپنے جسم میں داخل کرنے پر پریشان ہیں۔ 11
مارچ 2020 کو عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا کی وبائ بیماری
کو وڈ 19 جسکی پہلی بار ووہان -چین میں دسمبر 2019 میں نشاندہی ہوئی تھی
عالمی وباء کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ مارچ 2020 کے وسط تک 150 سے زیادہ
ممالک میں کووڈ 19 کے کیسز کی اطلاعات مل چکی تھیں اور ڈبلیو ایچ او کی
اطلاعات کے مطابق دنیا بھر میں کیسز کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہے ساتھ ہزار
سے زائد لوگ مر چکے ہیں اگر آنے والے وقت میں اس وباء پر قابو نہ پایا گیا
تو یہ دنیا کیلئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک طرف دنیا ایک مہلک بیماری سے
لڑ رہی ہے تو دوسری طرف بگڑتے ہوئے سیاسی حالات دنیا کو ایک تیسری جنگ عظیم
کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ طاقت کے بے پنہا استعمال کے مقابلے نے دنیا کے امن
کو تہس نہس کر دیا ہے۔ یہ بگڑی ہوئی صورتحال نہ صرف انسانوں کیلئے بلکہ
نظام کائنات کو آخرت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ضرورت ہے اس وقت ایک عالمی امن
کی۔
دنیا کے تمام انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب، کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں
انکی بقاء اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور غور وفکر
کریں کہ طاقت کا توازن کہاں بگڑا ہوا ہے، یہ بگاڑ کہاں سے پیدا ہوا اور
اسکا مقصد کیا ہے اور آخر اسکا انجام کیا ہوگا۔ اگر ہم ان سوالوں کا جواب
تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اسکے سدباب کیلئے کوشش کریں اسی میں ہماری
آنے والی نسلوں بلکہ اس کائنات کی بقاء ہے۔ اللہ کرے کہ یہ نیا سال ہمارےے
لئے ان تمام مصائب اور پریشانیوں سے نجات کا سال ثابت ہو
(آمین)
|