|
7سیّد محمد ناصر علی کی علمی و ادبی اورصحافتی خدمات۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اجمالی جائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط افضل رضوی۔آسٹریلیا سیّد ناصر علی بقائی جوڑے کے ویژن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ دونوں ایک مخصوص اور طے شدہ دائرے میں کام کررہے ہیں۔ اُسی کے بارے میں سوچتے اورگفتگو کے دوران اظہار خیال کرتے ہیں۔ان کا دائرہ کار تعلیم، صحت اور غربت میں تخفیف کے گرد گھومتا ہے۔ دونوں میاں بیوی کے درمیان عجیب و غریب ذہنی ہم آہنگی ہے۔ دونوں کا مقصد اور طریقہئ کار صحت اور تعلیم کے فروغ کے بارے میں اس حد تک یکساں ہے کہ ان میں دوئی تلاش نہیں کی جاسکتی۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ قدرت نے دونوں کو ایک ہی مقصد کے لئے تخلیق کیا ہے۔ دونوں چاہتے ہیں کہ علم بالخصوص سائنسی علوم کو پھیلایا جائے اور یہ پاکستان کی پہچان بن جائے۔49 وہ ان انٹرویوز کی تدوین کی وجوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ان انٹرویوز کی تدوین کا مقصد ان نکات کا احاطہ کرنا ہے جو چانسلر فرید الدین بقائی اور ان کی بیگم کی فکر اور ان کی عملی زندگی کا حصہ ہیں۔کسی بھی معاشرہ میں، اگر وہ زندہ اور پھلتا پھولتا معاشرہ ہے تو اس میں، تعلیم کی اہمیت اوّلین ہوتی ہے۔ قوم کی ترقی کا قفل علم کی کنجی سے کھلتاہے۔ملکی ترقی اسی سے وابستہ ہوتی ہے۔ پاکستان اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ البتہ سرکاری سطح پر اس جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اس کو بانجھ ہی سمجھئے۔50 سیّد ناصر علی کا یہ مرتب کردہ تحقیقی کام اس لیے بھی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے کہ یہ صرف ڈاکٹر فرید الدین بقائی اور ڈاکٹر زاہدہ بقائی کے انٹرویوز نہیں اور نہ ہی محض ان کے ویژن کا پر چار ہے بلکہ ان انٹرویوز کے ذریعے حکومتی سطح پرتعلیم جیسے اہم ترین شعبے کی نظر اندازی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ میڈیکل کے شعبے میں انہیں پہلا نجی میڈکل کالج قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔انہوں نے لکھا ہے کہ: ]انہوں نے[تعلیم میں وسائل کی کمی کو محسوس کیا۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر خود اس صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی اور نجی شعبہ میں پہلے میڈیکل کالج کی داغ بیل ڈالی کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ کراچی کا بے پناہ ٹیلنٹ داخلہ نہ ملنے سے ضائع ہورہا ہے۔ انہیں مخالفت کے طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کا ذکر ان کے انٹرویوز میں بھی ملتاہے۔ اس حوالے کا مقصدصرف کام نہ کرنے والوں کے ردِ عمل کو عیاں کرناہے۔ تاکہ عوام الناس بھلائی کی کوشش اور اس کے ردِ عمل کا پتہ چل سکے۔مثبت سوچ ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے اور تائید ایزدی سے ایسا ہی ہوتا ہے۔51 آج ملک کے طول وعرض میں اگرچہ بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں لیکن سب اداروں کا مقصد حصولِ مال ہے، تعلیم نہیں۔ ملک میں یونیورسٹیوں کی مارکیٹ لگی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان میں اسی رفتار سے نجی یونیورسٹیاں قائم کرنے کی اجازت دی جاتی رہی تو شاید تعلیم صرف یونیوسٹیوں سے حاصل ہوسکے گی اور اسکول،کالج ناپید ہو جائیں گے دوسرے لفظوں میں میعارِ تعلیم پست سے پست تر ہوجائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ”بقائی یونیورسٹی‘‘ کی مثل یونیورسٹیاں بنائی جائیں تاکہ نئی نسل کے ہاتھوں میں کاغذ کے ٹکڑے نہ ہوں بلکہ وہ علم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ ”ہمارے خواب ہمارا عزم“ میں پیشِ لفظ کے علاوہ ”اعتراف“ کے نام سے ڈاکٹر بقائی اور ڈاکٹر زاہدہ بقائی نے سیّد محمد ناصر علی کے اس تاریخی و تحقیقی کام کی ستائش میں لکھا ہے: زیر نظر کتاب ہمارے ان انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً قومی اور بین الاقوامی روزناموں، ماہناموں یا ہفتہ وار رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔ ان کا دورانیہ تین دہائیوں سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں بخوبی ادراک ہے کہ کئی دہائی پر محیط مختلف جگہ بکھرے ہوئے انٹرویوز کو حاصل کرنااور جمع کرنا صبر آزما اور مشکل کام تھا۔اس مشکل کام کا خیال سید محمد ناصر علی، ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلیکیشنز کے ذہن میں آیا اور انہوں نے اپنے رفیق خاص ذہین عالم خاں سروہا سے تبادلہ خیال کیا اور ہم خیال ہوکر اسے عملی جامہ پہنانے کی تیاری کی۔ان دونوں اصحاب کی دلچسپی کے سبب ہمارے انٹرویوز کا مجموعہ مرتب ہوکر منصہئ شہود پر آگیا۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ روزمرہ کی ذمہ داریوں اور دفتری معمولات کے ساتھ انہوں نے یہ کام انتہائی ذمہ داری سے کیا۔ یہ اس کتاب پر گزشتہ کئی سال سے کام کررہے تھے۔ہم ان کی کاوش اور جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ممنون ہیں کہ انہوں نے ہمارے وژن اور مشن کا درست انداز میں ادراک کیا۔ اس کی اہمیت کو سمجھا اور اپنے خلوص کے ذریعے اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی۔52 اردو میں اس کام کی تکمیل کے بعد سیّد ناصر علی نے اسی نہج پر چلتے ہوئے وطنِ عزیز کے ان دونوں محسنوں کے وہ انٹرویوز جو انگریزی نیوز پیپرز اور رسائل وجرائد میں شائع ہوئے انہیں تلاش کیا اور پھر مدون کرکے''The Sounds of Baqai''کے نام سے شائع کیا۔وہ لکھتے ہیں: "An interview is a purposeful exchange of ideas, the answering of questions and communication between two or more persons." The book, in your hand, is a compilation of published interviews of Prof. Fareeduddin Baqai, and Prof. Zahida Baqai. These interviews were published from time to time in Pakistani and international newspapers, magazines and in-house publications. It is appropriate to say that, an interview is a conversation where questions are asked and answers are given. Thus transfer of knowledge takes place simultaneously in both directions. Such interview provide an opportunity to clarify and expand information for general public and enhancing the image of their philosophy and endeavors. These interviews are the best source of authentic information and hurdles they face which helps to shape and mould public opinion. These interviews unfold the couples' major aims which include their vision & mission about education, health care and poverty alleviation by skill development. Their imagination fired by high educational standards of world renowned universities. Which will go a long way to revive the spirit of scientific inquiry which unfortunately lay dormant in Pakistan. To remedy this situation Baqais propounded an educational philosophy which takes into consideration internationally tested and tried method of learning. Education is a high priority for any society as it increases knowledge and is the key to progress of a country, a fact that has been lost sight of. Realizing this fact Baqais founded the first medical university in private sector and by doing so they became pioneers in private sector. They struggled hard for their objective and by dint of hard work succeeded in smashing all opposition against the idea of establishing medical university in private sector. pieces of advice. Finally I am grateful to Almighty Allah who gave me strength, vision and guided me to compile these historical interviews of Prof. Fareeduddin Baqai and his better half, Prof. Zahida Baqai. They dedicatedly translated their vision into action by establishing centers of medical, dental and allied education and women training centre to alleviate the poverty.53 اور جس طرح اردو انٹرویوزکے اعتراف میں ڈاکٹر بقائی اور ڈاکٹر زاہدہ بقائی نے سیّدناصر علی کے کام کو سراہا بعینہٖ انہوں نے انگریزی زبان میں ان کے مدون کردہ ان انٹرویوز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا: This book is the collection of our interviews reflect our thoughts, planning, ideas, missions and poverty alleviation objectives to achieve through one agenda to provide education, healthcare facilities to the deprived section of our society. We understand that the collecting of these interviews was a tedious, pains taking and time consuming job because the original published material was scattered at various places. It was not easy to search out the source material. However, Mr. S. M. Nasir Ali, Director Press & Publications did this historic job. It was just possible because he has a research experience and patience required for such work. He did it secretly in decade time along with meeting out his daily routine responsibilities. We fully comprehend that he intends to illuminate our vision & mission. It is indeed a pleasure to acknowledge his valuable work. We are proud of him. Allah blessed him more success in his future endeavors. 54 سیّد ناصر علی گزشتہ پانچ چھے سال سے تواتر کے ساتھ مختلف موضوعات پر کا م کررہے ہیں اور چونکہ وہ بقائی یونیورسٹی سے منسلک ہیں اس لیے ان کا زیادہ وقت یونیورسٹی کے ماحول ہی میں گزرتا ہے اور بقائی یونیورسٹی کی خدمات کے عینی شاہد ہیں۔ پہلے انہوں نے چانسلر بقائی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر فریدالدین بقائی اور پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ بقائی کے اردو اور انگریزی انٹرویوز کا کھوج لگا کر انہیں مدون کیا اور اس کے بعد بقائی یونیوسٹی پریس کی دس سالہ خدمات کا جائزہ اردو اور انگریزی زبان میں مرتب کیا۔ ”دس سالہ جائزہ بقائی یونیورسٹی پریس“ کے حوالے سے وائس چانسلر کے پیغام کا درج ذیل حصہ نہایت خوش آیند ہے کہ: میرے مرحوم شوہر ڈاکٹر فریدالدین بقائی اور بذاتِ خود میں بھی خواہشمند ہوں کہ بقائی یونیورسٹی پریس کا شمار پاکستان اور بیرونِ ملک فروغِ تعلیم و ادب کے لیے اسی طرح فعال کردار ادا کرے جس طرح دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں کے پرنٹنگ پریس اپنے کام کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔55 In founding the in-house printing press, Prof. Dr. Fareeduddin Baqai, my late husband and myself, envisioned that thisshould become a leading press which should also patronize and promote literature, science and other subjects like other printers and publishers of world fame.56 سیّد ناصر علی نے بھی اس مرتبہ کے دیباچہ میں پریس کی اہمیت و افادیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پریس کی اب تک کی کارکردگی پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ یہ پریس نہ صرف سائنسی و ٹیکنیکل کتب شائع کرتا ہے بلکہ ”در برگِ لالہ وگل“،”ذکر کچھ دلی والوں کا“اور ”قلم رکنے سے پہلے“ جیسی بہترین ادبی کتب بھی شائع کر چکا ہے؛ جو بقائی مرحوم کا ویژن اس پریس کے قیام کا خواب تھا اور جسے ڈاکٹر زاہدہ بقائی اسی جوش و جذبے سے جاری رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے مرحوم شوہر کی طرح ان کا بھی یہی ویژن ہے۔ بقائی پریس کے دس سالہ جائزہ کے انگلش ورژن میں ناصر علی لکھتے ہیں؛ In August 2017 BUP completed a decade of its journey, a successful one. In near future, In sha Allah, its publications will be available in the market and would be all out to compete with the commercial publishers and printers particularly, its distinct literary and scientific publications. What has been published in a decade of its existence listed as annexure which signifies its step by step development.57 اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترقی کا یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ مارچ 2019ء میں سیّد محمد ناصر علی صاحب کی تازہ ترین کتاب ”بہ زبانِ قلم“ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر عوامی ملکیت بنی اگرچہ اس کے جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں لیکن جہاں تک میں محترم ناصرعلی سیّد صاحب کو جانتا اور پہچانتا ہوں وہ اس بات کے بالکل بھی قائل نہیں کہ ادبی فن پاروں سے کسی کو مستفیض و مستفید ہونے نہ دیا جائے چنانچہ وہ صلائے عام دیتے ہیں یارانِ نقطہ داں کو کہ وہ ان کی تحریروں سے استفادہ کریں اورفن و ادب کے اس تسلسل کو جاری رکھیں۔اگر ایک اینٹ آپ آج لگائیں گے تو ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں کو ئی آپ کی اینٹ پر چند اور اینٹیں لگا دے اور یوں یہ تسلسل قائم بھی رہے اور چلتا بھی رہے۔ قبلہ ناصر صاحب کے لکھنے اور بات کہنے کا ایک خاص انداز ہے جو ہے تو نہایت سادہ لیکن دل کی تسکین اور اور شیرینی ئ اقدار سے بھرپور ہے۔
|