سومترا خان کی سجاتا مونڈل کو طلاق،طلاق، طلاق

سومترا کے معنیٰ اچھا دوست کے ہوتے ہیں ۔ اس اچھے دوست نے بی جے پی کی بری سنگت میں پڑ کر اپنی پارلیمانی رکنیت بچانے کے لیے بیوی سجاتا مونڈل کو طلاق کا قانونی نوٹس روانہ کردیا۔ سومترا کی نظر میں سجاتا کی ترنمول کانگریس میں شمولیت مہا پاپ ہے۔ سجاتا کو شکایت ہے کہ وہ آج بھی اپنے شوہر سومترا سے محبت کرتی ہیں اور ان کے نام کا سندور لگاتی ہیں۔ان کی محبت کی شادی تھی جو ایک دن میں ختم نہیں ہوسکتی ۔ وہ تو خیر ’لو میرج ‘ تھا ’لو جہاد‘ نہیں تھا ورنہ بعید نہیں کہ یوگی جیسا کوئی سرپھرا سجاتا مونڈل کو اس الزام میں جیل بھیج دیتا ۔ بی جے پی کے نزدیک پارٹی چھوڑنا دھرم پریورتن سے سنگین گناہ ہے اور وہ اس کا ارتکاب کرنے والی عورت کو بھی جیل بھیجا سکتا ہے ،کیونکہ یوگی ہے تو ممکن ہے۔ سجاتا کا الزام ہے کہ وہی بی جے پی جس نے تین طلاق کو ختم کردیا تھا ان کے شوہر سومترا خان پر دباو ڈال رہی ہےکہ وہ اپنی دھرم پتنی کو فوراً طلاق دے دیں۔ اس طرح خواتین سے ہمدردی کا بھگوا پاکھنڈ بے نقاب ہوگیا ہے ۔ منافقت کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ پوشیدہ نہیں رہ پاتی ،جلد یا بہ دیر کھل کر سامنے آہی جاتی ہے۔

سومترا دراصل بس نام کے خان ہیں اگر اصلی ہوتے تو ذرائع ابلاغ میں ان کی پریس کانفرنس پر ہنگامہ ہوگیا ہوتا ۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے سربراہ نے اپنی بیویسجاتا منڈل خان کے ترنمول کانگریس پارٹی میں شمولیت کے چند گھنٹوں بعد ایک پریس کانفرنس میں تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو پوری آزادی دیتا ہوں۔ میری آپ سے اپیل ہے کہ آپ میرے خاندانی نام ’خان‘ کو اپنے نام سے ہٹا لیں‘۔ ویسے جب شوہر ہی کام کا نہ ہو تو نام کس کام کا؟ سومترا نے بھری محفل میں روتے ہوئے اپنی اہلیہ کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا۔ اس طرح کی حماقت کوئی نقلی خان ہی کرسکتا ہے۔ سومترا نےسجاتا کو مشکل وقتوں میں اپنی حمایت کییاد دلاتے ہوئے کہا کہ : ’اس موقع پر میں نے آپ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا۔ اپنی تنخواہ کا 50 فیصد ہر مہینے آپ کے کھاتے میں منتقل کیا تاکہ آپ کو کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اب آپ نے ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے جنھوں نے آپ کو ماضی میں نقصان پہنچایا تھا۔‘ کیا کوئی غیرتمند خان صحافیوں کے سامنے اس طرح کی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی گھریلو باتیں بتاسکتا ہے؟ اپنی اہلیہ کو گھر خرچ کیا دیا کہ کوئی احسان کیا ؟

سومترا خان مسلمان نہ سہی حزب اختلاف کی کسی جماعت سے متعلق ہوتا تب بھی بی جے پی کا پالتو میڈیا اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن وہ بیچارہ بھاجپائی نکل گیا ۔ سومترا دراصل نیکر دھاری بھاجپائی نہیں ہے۔ اس نے اگر بچپن میں آر ایس ایس کی شاکھاکے اندر لاٹھی چلانا سیکھی ہوتی اور وہیں سنگھ کی مہیلا واہنی میں سجاتا سے پریم وواہ کیا ہوتا تو اس کی ناراضگی جائز ہو تی ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بنکورہ ضلع کے درلبھ پور گاوں میں دھننجئےخان اور آشارانی کے گھر میں پیدا ہوا۔اسکا تعلق سنری ذات سے ہے۔ 31سال کی نوعمری میں کٹوپور حلقۂ انتخاب سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر رکن اسمبلی بنا ۔ دو سال کے بعد اس نے کانگریس کو چھوڑ کر ٹی ایم سی میں شمولیت اخیتار کی۔ اس کا الزام یہ تھا کہ کانگریس بنکورہ ضلع کو نظر انداز کررہی ہے ممکن ہے خود کو اہمیت نہ ملنے کے سبب بے چین رہا ہو وزیر بن جانے کی خواہش نے یہ اقدام کرایا ہو۔ کون جانے؟ 2014 کے انتخاب میں اسے ٹی ایم سی نے ایوانِ بالا کے ٹکٹ سے نواز دیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ یہ وہی ٹی ایم سی ہے جس میں جانے کے سبب اس نے اپنی زوجہ کو طلاق دی ہے ۔

2019کے پارلیمانی انتخاب سے پہلے سومترا نے پھر سے پینترا بدلا اور بی جے پی کا رخ کیا ۔ اس وقت مکل رائے کو بی جے پی والے ناردا چٹ فنڈ معاملے میں سی بی آئی جانچ کے ذریعہ بلیک میل کررہے تھے ۔ مکل رائے نے اپنی جان بچانے کی خاطر زعفرانی گنگا میں سومترا کے ساتھ ڈبکی لگائی ۔ بی جے پی کے پاس آدمیوں کی کمی تھی ۔ اس نے نووارد سومترا خان کو ٹکٹ دے دیا اور وہ کامیاب ہوکر ایوان پارلیمان کا رکن بن گیا ۔ اس طرح ۹ سال کے اندر ازخود ۳ پارٹیاں بدلنے والے نے اپنی بیوی کو پارٹی بدلنے کے سبب طلاق دے دی ۔ سومترا کے بی جے پی میں جاتے ہی ترنمول نے انہیں ملازمت دلانے کی خاطر جھوٹی امید دلا کر رقم اینٹھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا اور ہائی کورٹ نے ان پر اپنے حلقۂ انتخاب میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔ سومترا نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی تو اس نے ہائی کورٹ کا فیصلہ تو نہیں تبدیل کیا لیکن پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے لیے داخلے کی اجازت دے دی۔ انتخابی مہم کی تشہیر میں حصہ لیے بغیر سومترا نے 78,047 ووٹ کے فرق سے زبردست کامیابی درج کرائی ۔

سومترا اور سجاتا کے درمیان رشتوں میں غالباً وہیں سے دراڑ پڑی۔ مبصرین کا خیال ہے سومترا نےوہ انتخاب سجاتا کی کڑی محنت کے سبب جیتا تھا۔ یہ محض گمان کی بات نہیں بلکہ سومترا نے اپنی پریس کانفرنس میں اس کا اعتراف کیا کہ :’’ انکی اہلیہ نے پچھلے انتخابات کے دوران انتخابی مہم میں مدد کی تھی لیکن ان کی جیت ان کی پارٹی کے حمایت کے بنا ناممکن ہوتی‘‘۔سومترا خان کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے وہ نہ صرف ابن الوقت بلکہ احسان فراموش بھی ہیں ، جس بیوی نے ان کو انتخاب میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جی جان کی بازی لگا دی اسی کو انہوں نے دھوکہ دے دیا ۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب کے دوران سجاتا کو خود اور ترنمول کو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کا احساس ہوگیا ۔ سجاتا کو شاید اس بات کی امید نہ ہو کہ انہیں اپنے علاقہ سے بی جے پی کا اسمبلی کا ٹکٹ ملے گا اس لیے انہوں نے ٹی ایم سی کا رخ کیا ۔ ٹی ایم سی کے لیے سومترا کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اس سے اچھا موقع اور کیا ہوسکتا تھا ۔

سومترا نے نامہ نگاروں سے کہا کہ ’ہر گھر میں لڑائی ہوتی ہے لیکن آپ نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے فیملی پر سیاست کو فوقیت دی ہے۔ آپ خود پھنس گئی ہیں اور یہ آپ کی بہت بڑی غلطی ہے‘۔جہاں تک عزائم کی تکمیل کے لیے پارٹی بدلنے کا سوال ہے یہ سبق تو اسی نے اپنی اہلیہ کو پڑھایا اور اب وہ خود اپنے جال میں پھنس گیا۔ ایسے میں سجاتا کا یہ سوال واجبی معلوم ہوتا ہے کہ :’ ’آج میں نے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ مستقبل میں سومترا خاں خود میری پارٹی میں شامل نہیں ہوں گے؟‘‘۔ سومترا سے زیادہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سجاتا نے انڈین ایکسپریسکے نامہ نگار سے کہا کہ خاندان اور سیاست پر ایک ہی پلیٹ فارم پر بات نہیں ہو سکتی ہے لہذا گھریلو باتوں کو نہ چھیڑیں۔سومترا اور سجاتا کی سیاست تو گویا سسرال اور میکے کی ایسی مہابھارت بن گیا ہے جس میں کبھی بیوی روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے یا تو کبھی گھر دامادکو سسرال سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔

سجاتا مونڈل خان کا موقف یہ ہے کہ ’’ازدواجی اور سیاسی زندگی الگ الگ ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ :’’ اگر میری سیاسی زندگی کی وجہ سے مجھے طلاق دے دیا جائے تو اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوسکتی ہے؟ وہ لوگ کہاں ہیں جو خواتین کی عزت اور وقار کی بات کرتے ہیں؟؟ سجاتا نے اپنے طلاق دئیے جانے کے اعلان پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک طرف بی جے پی مسلم خواتین کی ہمدرد ی کا دعویٰ کرتی ہے اور تین طلاق پر پابندی کا کریڈٹ لیتی ہے، مگر دوسری طرف بی جے پی رکن پارلیمنٹ صرف اس وجہ سے مجھے طلاق دینے کا میڈیامیں اعلان کرتا ہے کہ میں نے ترنمول کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اس معاملے سنگھ پریوار سمیت پورے ذرائع ابلاغ کو سانپ سونگھ گیا ہے اور سارے مگر مچھ کے آنسو خشک ہوچکے ہیں ۔ کسی میں جرأت نہیں ہے کہ اس پر تبصرہ کرے ایسے میں ہندو خواتین یہ ضرور سوچتی ہوں گی کہ آخر ان بھگوا داریوں کو ان سے ہمدردی کیوں نہیں ہے ؟ ان کا کیا قصور ہے جبکہ انہوں نے’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اب کی بارمودی سرکار‘ پر لبیک کہہ کر بی جے پی کو ووٹ بھی دیا تھا اور جہاں تک سجاتا کا سوال ہے اس نے تو بی جے پی کے ٹکٹ انتخاب لڑنے والے اپنے شوہر کا پرچار بھی کیا تھا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.