کہاجاتاہےکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔نپولین کا
کہنا ہے کہ”تم مجھے اچھی ماٸںیں دو,میں تمہیں اچھی قوم دوں گا“۔ اگر ان
دونوں کو ملا دیا جاۓتو یہ کہنا درست ہو گا کہ زنرگی ایک سفر ہے اور اس کے
رستے پر چلنے کی مشق ماں بہت پہلے ہی کروا چکی ہوتی ہے۔اگر اس کا بغور
جاٸزہ لیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ بولنے سے لے کر اپنے شعبے کا ماہر بننے
تک یہ ادوار ماں بچے کو پہلے ہی طے کروا چکی ہوتی ہے۔
اولاد کی زندگی ماٶں کی تربیت سے بنتی ہے۔اولاد میں سچاٸی اور ایماں کی
خوبیاں ماں کی تربیت سے پیدا ہوتی ہیں۔کھانے کے بعد کی دعا اونچی آواز میں
پڑھنے اور جاۓ نماز پر تھوڑی سی جگہ دے کر اونچی آواز میں پڑ ھنے کا مقصد
نماز یاد کروانا ہوتا ہے۔اسی طرح چھوٹی سی عمر میں نماز کا پابند بناتی
ہے۔ریاضی کے چھوٹے چھوٹے سوالات کو مختلف طریقوں سے کروانے کا مقصد مزید
مشکل سوالات کے لیے تیار کرنا اور مستقبل میں اپنے شعبے کا ماہر بنانا ہوتا
ہے۔قران مجید پڑھاتے ہوۓ الف اور لام کی پہچان آجانے سے معلوم ہوتا ہے کہ
اب پڑھنے میں کوٸی مشکل نہیں رہ گٸ اور باقاعدگی سے پڑھنے کی عادت اسی طرح
کٸ سال ساتھ رہتی ہے۔انگریزی میں ”بی” اور ”ڈی“ کی پہچان کروا دے تو لگتا
ہے کوٸی مشکل باقی نہیں رہی۔اور یوں مستقبل میں انگریزی کا ماہر بننے کے
گُر بچے کو سیکھا دیتی ہے۔
ماں ایک اخلاقی سپوٹ کا نام ہے ۔ جو آپ کو براٸی میں پڑنے نہیں دیتی۔ گھر
سے نکلتے ہوۓ ”دھیان سے جانا“ کے الفاظ سفر کے دوران الگ ہی بہادری دیتے
ہیں۔اور یہ کہ دینا کہ ” اللہ کے سپرد“ تو یہ الفاظ الگ ہی حوصلہ دیتے
ہیں۔اولاد کا کہنا بہت کم اور ماں کا سمجھنا بہت زیادہ ہوتا ہے۔چہرے کے
تاثرات سے اولاد کے اندر کا حال معلوم کر لیتی ہے۔مدرسے سے دیر ہو جانے کی
صورت میں دروازے پر کھڑی انتظار کرتی ہے۔جب یہ بچے کو معلوم ہوتا ہے کہ ماں
دروازے پر اس کا انتظار کر رہی ہے تو یہی بات بچپن میں اس کی رفتار تیز کر
دیتی ہے اور جوانی میں بچے کے پاٶں اکھڑنے نہیں دیتی۔
انگریزی میں ایک کہاوت ہے جس کے معنی کچھ اس طرح ہیں ,کہ یہ دنیا ذرات سے
نہیں بلکہ کہانیوں سے بنی ہے ۔اس دنیا سے اگر کہانیاں نکال دی جاٸیں تو
انسان کی زندگی میں اور روبوٹ میں کوٸی فرق نہیں رہے گا۔جو چیز ہمیں انسان
بناتی ہے وہ ہیں ہماری کہانیاں۔ابتداٸی سالوں میں شیخ عبدالقادرجیلانی کے
ماں کا کہنا مان کر بتانے سے سچ بولنے کا درس دیتی ہے۔حضرت محمد کے طرز عمل
سے بہترین انسان بننے کے گُر بتاتی ہے۔حجراسود کے واقعے سے فیصلہ ساز بناتی
ہے۔انبیاء کے پیشے سے محنت کر کے حلال کماٸی کا درس دیتی ہے۔حضرت عمر کی
کہانی سے عادل حکمران بننے اور عوام کی خدمت کرنے کا سبق دیتی ہےاور حضرت
بلال جیسا سچا پکا مسلمان بننےکا درس دیتی ہے۔
اگر یہ کہا جاٸے کہ” ماں ہر فن مولا ہوتی ہے“ تو یر کہنا غلط نہ ہو گا۔صبح
سویرے اٹھتی ہے۔نماز قرآن پاک پڑھتی ہے۔بچوں کو نہلاتی ہے۔ناشتہ بناتی اور
لنچ تیار کرتی ہے۔بچوں کے آنے تک دھلاٸی صفاٸی کرتی اورچیزوں کو ترتیب دیتی
ہے۔پھر کچھ دیر کے لیے بچوں کو سلا دیتی ہے۔اٹھنے پر پڑھاتی لکھاتی ہے۔رات
کو کھانا بناتی ہے۔رات کو کھانا کھلا کر سلا دیتی ہے۔امتحانات کے دنوں میں
نیند میں ڈر کر آنکھ کھل جاٸے اور یہ کہا جاۓ کہ فلاں چیز نہیں آتی تو کتاب
کھول دیتی ہے۔کچھ نہ ملنے پر کہ دیتی ہے کہ سنایا تو تھا سب آتا ہے۔اور اسی
طرح بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت باقاعدگی سے کٸی سال تک کرنے کا
سلسلہ نہیں بدلتا۔
ماں کبھی بیمار نہیں پڑتی۔اگر پڑ جاۓ تو بنا دواٸی کے ٹھیک ہو جاتی ہے۔اپنے
انگوٹھے پر چھری کے نشانات پر مرہم رکھنے کی بجاۓ بچے کی گال پر کریم کا
استعمال کرتی ہے۔
ماں کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔اویس قرنی اپنی ماں کی خدمت میں کٸی سال
رہے ۔وہ ایمان لے آۓ تھے مگر اپنی ماں کی خدمت کے سبب قرن میں ہی مقیم
رہے۔حضرت محمد نے حضرت عمر کو اپنا جبہ ہدیہ کے طور پر دیا اور فرمایا کہ
اویس قرنی کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میری امت کی بخشش کے لیے دعا
فرماٸیں۔علامہ اقبال نے اپنی نظم ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ کہا ہے
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
|