بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر ہر
شخص یہ سوال کرتا نظر آتا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد قائد اعظم صاحب
پاکستان کو کیسا بنانا چاہتے تھے، ایک جدید سیکولر یا پھر اسلامی فلاحی
ریاست اور یہ سوال اور بحث گزشتہ چند برسوں سے تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اور پھر
لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان اسلامی فلاحی ہونا چاہئے یا سیکولر؟ دونوں
طبقے اپنے خیالات کی حمایت میں جناح کی تقاریر اور تحریروں کے حوالہ دیتے
ہیں اور سر عام کہتے ہیں کہ بانی پاکستان یہ چاہتے تھے ، بانی پاکستان وہ
چاہتے تھے ، اس قسم کی افواہیں پھیلا کر عوام کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے ، حالانکہ بہت گہرائی میں جائے بغیر اگر عام سی بات کو بھی سمجھا
جائے تو بھارت کے آئین میں بظاہر یہی لکھا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے ،
آئین کی تخلیق سے پہلے بھی بظاہر ان کا دعویٰ یہی تھا ، اب اگر قائد اعظم
محمد علی جناحؒ و دیگر بانیان پاکستان سیکولر اور لبرل ملک ہی چاہتے تھے تو
پھر علیحدہ وطن کے لئے اتنی جدوجہد کرنے کا مقصد کیا تھا ، دو قومی نظرئیے
کی بنیاد پر علیحدہ وطن کے لئے جدوجہد کیوں کی ، پھر علیحدہ وطن کے لئے
نعرہ بھی یہ لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا ، لا إله الا الله ، اسی نعرے کی
بنیاد پر 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان منظور ہوئی ، قرارداد پاکستان
منظور ہونے سے قبل بھی بانی پاکستان کی ترجیحات دینی اور فلاحی تھی ، یہی
وجہ تھی کہ بانی پاکستان نے انگریز سرکار کے خلاف غازی علم الدین شہیدؒ کا
مقدمہ بھی لڑا ، لیکن آج بانی پاکستان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے دو حصوں
میں تقسیم کر دیا گیا ہے ، لبرل اور سیکولر سوچ کے لوگ بانی پاکستان کی
پینٹ اور شرٹ والی تصاویر کو عام کرتے ہیں ، جبکہ دینی سوچ کے لوگ اس ٹوپی
والی تصویر کو عام کرتے ہیں جس ٹوپی کا نام ہی بانی پاکستان کے نام سے
منسوب ہو گیا یعنی جناح کیپ ، یہ صورتحال فقط میڈیا کی حد تک نہیں سرکاری
سطح پر بھی یہی حال ہے دو عشروں قبل جب ملک میں پی ، پی اور مسلم لیگ کی
باریاں لگی ہوئی تھی ، اس وقت میں سرکاری عملہ پریشان ہوتا تھا کہ پی ، پی
حکومت ہر جگہ پر بانی پاکستان کی بغیر جناح کیپ والی تصاویر لگانے کا کہتی
تھی ، پھر مسلم لیگ کی حکومت آتی تھی تو مسلم لیگی سرکاری دفاتر میں بانی
پاکستان کی بمعہ جناح کیپ تصاویر آویزاں کرنے کو کہتے تھے ، جہاں تصاویر سے
اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کا رواج ہو وہاں کتنی زیادہ بیداری کی ضرورت ہے
، یہ ہمیں خود سوچنا چاہیے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے خیالات، ایک اسلامی فلاحی مملکت
کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔ آپ نے کہا کہ’’ میرا ایمان ہے کہ قرآن و
سنت کے زندۂ جاوید قانون پر ریاست پاکستان ، دنیا کی بہترین اور مثالی
ریاست ہوگی۔ مجھے اقبال ؒ سے پورا اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل
اسلام سے بہتر نہیں ملتا۔ انشاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا
الہٰ الا اللہ پر ہوگی اور یہ ایک فلاحی و مثالی ریاست ہوگی‘‘خلاصہ یہ ہے
کہ پاکستان اپنی بنیاد میں اسلامی فلاحی مملکت کا تصور رکھتا ہے۔یہ قائد
اعظم ؒ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ قائد نے کئی مواقع پر واضح کیا تھا کہ وہ اس
مملکت پاکستان کو قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے فرامین و دساتیر کی روشنی میں
ایک ایسی اسلامی و فلاحی جمہوریہ کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جو پوری
دنیا کے لیے ایک مثال بن سکے۔
اگر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہو جائے
گا کہ پاکستان سیاسی جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا گیا ، جلسے ، جلوس ہوئے اور
پھر ووٹ کی طاقت یعنی اس بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ جہاں کے لوگ پاکستان کے
ساتھ رہنا چاہتے ہیں ، ان علاقوں کو پاکستان میں شامل کردیا گیا ، گو کہ اس
میں زیادتی اور ناانصافی ہوئی کئی اکثریتی مسلم علاقوں کی واضح حمایت کے
باوجود انہیں پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا ، کشمیر کے مسئلے کو بھی
لٹکایا گیا ، لیکن سارا پراسس سیاسی جدوجہد کے ذریعے مکمل ہوا؛ اس لئے اس
بات کو کبھی بھی بولنا نہیں چاہیے کہ آپ کے پاس سب سے بڑی دنیاوی طاقت آپ
کا ووٹ ہے ، اسے دنیاوی مقاصد کے بجائے فلاحی مقاصد کے لئے استعمال کریں ،
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ووٹ کی طاقت پیسے کی طرح ہے کہ جس کے پاس یہ ہو وہ
کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو لوگ اس کی عزت کرتے ہیں ، اس سے ہنس ہنس کر ملتے
ہیں ، وہ بلائے تو بھاگ کر جاتے ہیں ، وہ آجائے تو کھڑے ہو کر ملتے ہیں ،
باقی کہنے کو لوگ ووٹ کی طرح پیسوں کو بھی برا کہتے ہیں لیکن بالفرض یوں
ہوجائے کہ لوگ ووٹ کی طرح اپنا پیسہ بھی مدارس ، مساجد اور دیگر فلاحی
کاموں کے بجائے غیروں کو دینا شروع کردیں تو دینی اور فلاحی کام کرنا مزید
کتنا مشکل ہو جائے گا ، اس لئے عزم کریں کہ اپنے پیسے کے ساتھ ووٹ کی طاقت
بھی اسلام کی سربلندی کے لئے استعمال کریں گے، لیکن اس شخص کے لئے یہ لمحہ
فکریہ ہے جو ووٹ کے بارے یہ کہتا ہے کہ "جناب ہمارا ووٹ سے اور سیاست سے
کیا لینا دینا" اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہمارے ایک استاد فرمایا کرتے تھے کہ سیاسی قوت حاصل کئے بغیر بھول جائیں کہ
آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگتے رہنے میں ہی عزت ہے یا لوگوں کو کچھ دینے
میں عزت ہے؛ اس لئے تم ان عہدوں پر کیوں نہیں آتے ہو جہاں لوگ تمہارے در پر
اپنے کام لے کر آئیں ، تمہیں کسی کے دروازے پر جانا نہ پڑے ، لہٰذا سیاسی
قوت حاصل کرنے کے لئے بھی ہمیں جدوجہد کرنی چاہئے ، باقی جانیں سیاسی
جدوجہد میں بھی قربان ہوتی ہیں ، اپنے پرائے مخالف سیاسی جدوجہد میں بھی
ہوتے ہیں ، سیاست اتنا آسان کام بھی نہیں کہ کسی کو سیاسی کہہ کر اپنے سینے
کو تان لیا جائے ، بانی پاکستان نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے پاکستان حاصل
کیا تھا ،وہ یہ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ ایک مخصوص عقیدے کا گروپ دوسروں پر
غلبہ حاصل کرے، کیونکہ بانی پاکستان اسلامی اور جمہوری سوچ کے انسان تھے ،
اس لئے پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا، الحمد للہ اب یہ ریاست
ایک جوہری طاقت بن چکی ہے۔ اب ہمیں تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں پاکستان کو
ریاست مدینہ کے تناظر میں مثالی ، فلاحی مملکت کے خدو خال پر تشکیل دینے
اور ایک فلاحی مملکت کے قیام کے لیے اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
|