دنیا میں کووڈ۔19کی سنگین تباہ کاریوں کے باعث عالمی سطح
پر ایک بڑے مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور اکثر ممالک میں غربت ،بے روزگاری
اور دیگر سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔اگرچہ کئی ممالک میں ویکسی نیشن کا
عمل بھی جاری ہے مگر اس کے باوجود اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی اور پیداواری
عمل میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔اس صورتحال میں پوسٹ کووڈ۔19دور میں مکمل طور
پر اقتصادی بحالی مستقبل قریب میں تقریباً ناممکن نظر آتی ہے اور دنیا کو
وبائی اثرات سے باہر نکلنے کے لیے مضبوط اور اشتراکی لائحہ عمل اپنانا ہو
گا۔سال 2020اس لحاظ سےبھی تباہ کن رہا کہ دنیا کی صف اول کی معیشتوں کو
شدید گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا ،صنعتکاری کا سلسلہ منجمد ہو کر رہ گیا
،درآمدات و برآمدات سمیت سرمایہ کاری اور تجارت پر شدید منفی اثرات مرتب
ہوئے۔
وبا کے باعث کساد بازاری کے دور میں بھی چین کی بڑی معیشت مضبوط شرح نمو کے
ساتھ ابھرتے ہوئے پندرہ ٹریلین امریکی ڈالرز کی حدوں کو چھو رہی ہے۔اس کی
بنیادی وجوہات میں ایک تو وبائی صورتحال پر انتہائی قلیل مدت میں قابو پانا
اور دوسرا انسداد وبا کے موئثر اقدامات کے تحت اقتصادی سرگرمیوں اور
پیداواری عمل کی بتدریج بحالی ہے۔اس کے برعکس دنیا کے اکثر ترقی یافتہ اور
ترقی پزیر ممالک میں وبا کی سنگین صورتحال کا غلط اندازہ لگایا گیا ، جس کے
نتیجے میں معاشی سرگرمیاں اورنظام زندگی برے طریقے سے متاثر ہوئے۔
وبا کے باعث درپیش اقتصادی بحران میں چین کی جانب سے ایسےاقدامات سامنے آئے
جو عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں چین کے بڑے اور ذمہ دارانہ کردارکے مظہر
ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے تحت جاری منصوبہ جات کا تسلسل ،
حال ہی میں دستخط شدہ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی)
معاہدہ اور سرمایہ کاری سے متعلق چین-یورپی یونین جامع معاہدہ (سی اے آئی)،
یہ سب عالمی سطح پر چین کے قائدانہ کردار کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایسے اقدامات
نہ صرف عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ میں مددگار ہیں بلکہ اس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ چین دنیا کو مزید خوشحال اور سازگار بنانے میں بین
الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے کا خواہاں ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ چین نے بی آر آئی فریم ورک کے تحت 2013 سے 2018 کے
درمیان متعلقہ ممالک میں 90 ارب ڈالزر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے
بی آر آئی سے وابستہ ممالک کی اقتصادی سماجی ترقی میں نمایاں مدد ملی ہے۔
پاکستان میں سی پیک منصوبہ جات کی بات کی جائے ،افریقی ممالک میں
انفراسٹرکچر منصوبے ہوں یا پھر سری لنکا میں ہمبانٹوٹا بندرگاہ جیسے منصوبے
، ان کی بدولت یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔
مغربی بے بنیاد بیانیے کے برعکس کہ بی آر آئی ایک "قرضوں کا جال ہے " چین
نے متعلقہ ممالک میں بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کی ترقی سےمقامی معاشی نمو
کو فروغ دیاہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کئی ممالک کو بیرونی قرضوں کی
ادائیگی میں مدد ملی ہے۔ بی آر آئی کے تحت سرمایہ کاری اور تجارت کے مثبت
ثمرات تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری جانب بی آر آئی میں شریک ممالک نے
2013 سے 2019 کے درمیان چین میں 40ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔اس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ چین اشتراکی ترقی کا داعی ہے اور ترقی کے سفر میں تمام
ممالک کو یکساں مواقع فراہم کرتے ہوئے انہیں چین کے ترقیاتی ثمرات سے
مستفید کرنا چاہتا ہے۔اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے
مطابق بی آر آئی فریم ورک کے تحت سال 2019میں دو طرفہ تجارت کا حجم
1.34ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہےجبکہ 2013 سے اب تک مجموعی تجارتی حجم
تقریباً سات ٹریلین ڈالرز کی سطح تک پہنچ چکا ہے ،جسے ایک غیر معمولی پیش
رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح نومبر 2020میں طے پانے والے آر سی ای پی معاہدے نے ایشیا بحر
الکاحل میں چین کی اہمیت کو مزید بڑھایا ہے۔ یہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی اہم
ہے کہ چین کی جانب سے ملک میں "دوہری گردش" پرمبنی ترقی کا ایک نیا فارمولہ
وضع کیا گیا ہے جو ملکی اور بیرونی منڈیوں دونوں کے مفادات کا احاطہ کرتا
ہے۔لہذا اس معاہدے سے وابستہ ممالک چینی معیشت کی ترقی سے بھرپور فائدہ
اٹھا سکیں گے۔
اسی طرح 2020کے اواخر میں چین اور یورپی یونین کے درمیان سرمایہ کاری
معاہدے سے متعلق پیش رفت کو بھی عالمی سطح پر بھرپور سراہا گیا ہے۔ دونوں
فریقوں کے مابین سات سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کا ٹھوس نتیجہ برآمد
ہوا جس سے عالمی اقتصادی امور کی بہتر گورننس اور معاشی مسائل کے حل میں
نمایاں مدد ملے گی۔چین اور یورپی یونین دنیا کی بڑی معاشی اکائیاں ہیں جن
کا عالمی معاشی ترقی میں اہم کردار ہے۔یہ بات اہم ہے کہ دونوں فریقوں نے
دنیا کو آپسی تنازعات سے مناسب طور پر نمٹنے کا مثبت پیغام دیا ہے اور ساتھ
ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں یک طرفہ پسندی اور تجارتی
تحفظ پسندی کسی کے مفاد میں نہیں ہے، اشتراکی ترقی کے نظریے سے جڑے رہتے
ہوئے یکساں اور پائیدار اقتصادی ترقی ہر ایک کے مفاد میں ہے۔ |