قیمت‎

نعمت نے پرانا بیگ دائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔وہ جب بھی اس بیگ کی طرف نظر اٹھاتا تو اس کی آنکھیں کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح لال ہو جاتیں۔

اس نے اس بیگ کو اتنی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا جیسے کوئی معصوم فاختہ کسی باز کے آہنی شکنجے میں ہو۔وہ کسی بے خطر کھلاڑی کی طرح بڑی ہی جوانمردی سے پیدل چل رہا تھا۔کبھی کبھار جب چلتے چلتے اس کے ماتھے پر پسینہ سرک جاتا تو وہ رک کر بایاں بیگ نیچے رکھ کر اپنے دائیں کندھے پرلٹکے ہوئے رومال سے صاف کرتا اور پھر منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتا۔مگر دائیں ہاتھ والے بیگ پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے کو نہیں آرہی تھی،بلکہ جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی تھی

اس پرانے بیگ کے ساتھ نعمت اللہ کی پرانی یادیں جڑی ہوئی تھیں۔اتنی پرانی یادیں تقریباً جتنا پرانا یہ بیگ تھا۔بیس بائیس سال پہلے اس نے یہ بیگ کسی سے لیا تھا۔اور آج وہی بیگ جو نعمت اللہ نے سینت سینت کر رکھا تھا بالکل کسی قیمتی دھات کی طرح،آج وہ یہ بیگ اسی شخص کو لوٹانے جارہا تھا اس کے سود کے ساتھ یعنی ایک اضافی بیگ کے ساتھ،جوں جوں منزل قریب آرہی تھی اس کی آنکھیں دہک رہی تھیں۔ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اس کی آنکھوں میں انگارے ٹھونس دیے ہوں۔وہ اس قدر خوفناک شاید ہی کبھی نظر آیا ہو۔اس کا چہرہ لال بھبھوکا،لگتا تھا پورے جسم کا خون منہ پر امڈ آیا ہے۔اس وقت شاید نعمت اللہ کے اپنے بچے بھی اسے دیکھ لیتے تو خوف کے مارے چیخیں نکل جاتیں۔چلتے چلتے نعمت اللہ کو کسی چیز کا ٹہوکا لگا اور وہ اوندھے منہ گر گیا۔بائیں ہاتھ والا بیگ بھی اچھل کر پرے جا گرا،مگر دائیں ہاتھ والا تو شاید ہاتھ کٹ جانے پر ہی جدا ہو۔نعمت نے چہرے پر کسی بھی قسم کے آثار نمودار کیے بغیر دوبارا کھڑے ہو کر گرے ہوئے بیگ کو بھی کسی ماہر شکرے کی مانند جھپٹ لیا۔

رانا مختیار اپنے ڈیرے پر ٹہل رہا تھا۔پریشانی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی پیٹھ پیچھے باندھ رکھا تھا۔کسی نئے خیال کی آمد کے پیشِ نظر اس نے اپنی دائیں سائیڈ والی جیب پر ہاتھ مارا۔پھر وہاں سے درآمد ہونے والے موبائل پر کچھ تڑ بڑ کرنے لگا،شاید نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کے منہ سے درآمد ہونے والے الفاظ یہ تھے:
ہیلو!
"اوکتھے ایں اقرار"
اچھا! تے بشرای دا کجھ پتہ چلا
" کجھ نئیں دا بچہ،تے توں تناں دناں توں سر وچ گھٹہ پانڑ لگا ایں" ۔
پیچھے سے ایک گرج دار آواز گونجی٫٫٫٫٫٬
او رانا مختیار،،،،،،،،،،،،،
رانا مختیار نے گھبرا کر فون کاٹ دیا۔پیچھے مڑ کر دیکھتے ہی وہ شدومد کا شکار ہو گیا۔سامنے سے آنے والا شخص اسے کسی بھی طرح سے سلطان راہی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
نعمت اللّٰہ بازو پھیلائے دونوں ہاتھوں میں بیگ پکڑے اس کی طرف آرہا تھا۔اور اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی فلم دیکھ رہا ہو۔اس کے کا نوں میں خوفناک ساز گونج رہے تھے۔
نعمت اللّٰہ نے قریب آکر دائیں ہاتھ والا بیگ رانا مختیار کے پاؤں میں پٹخ دیا۔اس قدر زور سے پٹخا کہ بیگ ٹوٹ گیا اور اس میں موجود نیلے اور زردی مائل نوٹ رانا مختیار کے قدموں میں بکھر گئے۔حیرت کا شکار رانا مختیار پھر بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا،
اوئے نعمت اللّٰہ توں ہالے جیوندا ایں۔
نعمت اللّٰہ نے زور دار شیطانی قہقہہ لگایا،،،،
اوئے جیوندا تے میں رہنڑاں سی، تینوں قیمت جو دینڑی سی۔
رانا مختیار نے پھر بھی حیرانی سے پوچھا،
قیمت، "کیہڑی گل دی قیمت"
نعمت اللّٰہ نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔
ایڈی چھیتی بھل گیا ایں،اوئے توں بھل گیا ایں کہ تیری دھی بشرای پچھلے تن دناں توں غائب اے،تےتناں دناں توں غائب کڑی دی عزت دی کجھ قیمت وی بنڑدی اے کہ نئیں،،،،،،،،،
یہ بات سنتے ہی رانا مختیار کے اوسان خطا ہوگئے۔اس نے آگے بڑھ کر نعمت اللّٰہ کا گریبان پکڑ لیا۔
"میری دھی تیرے کول اے"؟دس اوئے نعمت اللّٰہ شیطان دیا پترا میں تیرے ٹوٹے ٹوٹے کر دیاں،میری دھی تیرے کول اے؟
نعمت اللّٰہ نے بائیں ہاتھ والا بیگ بھی آرام سے نیچے رکھ دیا اور رانا مختیار کے گالوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے بولا،
او اپنا شانی اے ناں ہنڑ وڈا ہوگیا اے۔
نالے او بشرای دے نال یونیورسٹی اچ پڑھدے وی سی۔
رانا مختیار نے اسے پیچھے جھٹک دیا۔"اوئے,او ایڈا وڈاکدوں داہوگیا اے جو رانا مختیار دی عزت تے ہتھ پاوے۔
نعمت اللّٰہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا،
ایڈا شوخا تے معصوم نہ بنڑ،ویلہ (وقت) کے یاد کر بیس سال پہلے دا ویلہ،تےمیری بہن حاجرہ یاد کر،پھرنعمت اللّٰہ نے آگے بڑھ کر وہ پرانا پھٹا ہوا بیگ اس کے آگے کر دیا۔
اے بیگ یاد کر تے اس میں ڈالے ہوئے روپیے یاد کر،نعمت اللّٰہ نے ساکت کھڑے رانا مختیار کے سامنے چہچہاتے ہوئے مزید کہا،
یاد اے،یاداے،تو آکھیا سی،" پرچہ نہ کر نعمت اللّٰہ قیمت وصول کر" ۔
لے ویکھ (دیکھ)،اوہی بیگ،اوہی پیسے،جیہڑے میں بینک اچ رکھ کے تے ڈبل کہتے نیں (کیے ہیں)۔
تے اج تینوں اوہی گل آکھن آیا واں (کہنے آیا ہوں)۔
"پرچہ نہ کر رانا مختیار قیمت وصول کر"۔
نعمت اللّٰہ نے ساکت و جامد کھڑے رانا مختیار کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ہلایا،اور پھر دروازے کی جانب قدم موڑ دیے۔
پیچھے سے رانا مختیار کی آواز آئی،
تو ویہہ وریاں توں (بیس سال سے) پیسے کٹھے کرنڑ لگا ایں،میری عزت خراب کرنڑ لئی،کدی اے یاد نئیں (نہیں) آیا جو عزت دی کوئی قیمت نئیں ہو سکدی (سکتی)۔پھر اس کی آنکھوں سے تڑ تڑ آنسو نکل گئے۔
دروازہ پار کرتے ہوئے نعمت اللّٰہ نے مڑ کر کہا،
مینوں یاد اے،تے انشاء اللّٰہ اپڑیاں (اپنی)اگلیاں نسلاں نوں وی ضرور دساں گا۔" توں ہنڑ (اب) ضرور یاد رکھیں"۔
میں تیرے پتر دے ٹوٹے ٹوٹے کرواکے کتیاں دے اگے پوا دینڑے نیں (ڈلوادینے ہیں)۔
پرواہ نئیں،میں اپنڑاں شانی جمیا ای ایس لئی سی(میں نے اپنا شانی پیدا بھی اسی لیے تھا)،تاکہ تینوں وی پتہ لگے کہ عزت دی کوئی قیمت نئیں ہوندی۔
نعمت اللّٰہ دروازہ پار کر چکا تھا اور رانا مختیار کبھی نئے اور کبھی پرانے ورژن کے بیگ کی طرف دیکھ کر کپکپا رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد اس نے پرانے ورژن کے بیگ کو ٹانگ مارتے ہوئے کہا،
سچ آکھیاای(سچ کہا)،"عزت دی کوئی قیمت نئیں ہوندی"۔

 

Surat Khan
About the Author: Surat Khan Read More Articles by Surat Khan: 13 Articles with 26846 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.