وہ مر گیا آ خر کا ر وہ مرہی گیاوہ’’زندہ‘‘ تھا مگرمرُدوں
میں ہی توتھااُس کے لیے گرد مو قع پرست مفاد پر ست مصلحت پسند اور خود
نمائی کے رسیا ہی توتھے۔وہ خواب اور حسرتیں لیے مرگیا اُ س کی مو ت ایک عہد
کی مو ت ہے وہ اوروں کی نسبت میرے لیے’’محترم‘‘ تھا کیونکہ وہ بابائے قوم
محمد مقبول بٹ سا تھی تھا جو انی مقبول بٹ کے ساتھ ذنداں میں گزاری اُس کے
آباواجداد بھی منقسم دھرتی ماں کے اُ س پار سے اس پا ر آئے اسی لیے اُس میں
’’دردوطن‘‘کی ’’شدت‘‘کچھ زیادہ تھی تب ہی وہ مقبول بٹ کے ساتھ اپنے ایک
ااور سنگی ریاض ڈار مرحوم کے ساتھ ’’جنگ‘‘ کرنے پار چلا گیا مقبول بٹ کی
پھا نسی کے بعد جب وہ اور ریاض ڈار یہاں آئے تو اس پا ر ’’اُصولی‘‘ قوم پر
ست بس ایک نقطہ پر آگے بڑھ رہے تھے امان صا حب راولپنڈی کے" آلہ کار" ہیں
اُس نے کھو ج لگا ئی بلکہ دوڑ لگا ئی مگراس الزام کو سچ نہ پا سکا پھر امان
صا حب کو ’’قائد تحریک‘‘مان لیا یہ بیعت مرتے دم تک قائم رکھی یاسر ممتاز
چوہدری اور مجھ سے اُس کا یارانہ تھاوہ بُزرگ تھا لیکن ہمارا ’’دوست
‘‘تھااُس کی اپنی اولاد نہ تھی امان صا حب کی طرح ہمیں بھی اپنی اولاد کی
طرح سمجھتا میں ’’بے وقوف سدھن‘‘ بعض دفعہ اُ س کی ’’تو ہین‘ ‘بھی کر جاتا
مگر وہ ’’محسوس تک نہ کرتا 99ء میں سیز فائر لائن توڑو ما رچ کے دوران وہ
گرفتار ہو کر راولاکوٹ تھانہ لے جا یا گیا چند گھنٹوں بعد یہی تھانہ میرا
بھی ’’میزبان‘‘ ٹھرا۔امان صاحب کے مشکل وقت کے کا رکن مو جو د ہ کمشنر پو
نچھ مسعود الرحمان جو نئے نئے تحصیلدار بنے تھے اس لانگ ما رچ کو روکنے
’’ڈیوٹی مجسٹریٹ‘‘ بنے راولاکوٹ کے ایک سرکٹ ہا ؤس سے خلاف توقع رات گئے پو
لیس چھا پہ سے کچھ دیر قبل امان صا حب کوگرفتاری سے بچانے مہتا ب خان
ایڈووکیٹ (حال مقیم بر طانیہ) عبدالحمید اور ڈاکٹر صغیر (پر نسپل ما ڈل
سائنس کا لج راولاکوٹ )نے حفا ظتی حصا ر میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل
کر دیا مسعود الرحمان کو اُمید تھی کے ڈاکٹر صغیر کا بھا نجا ہو تے اس راز
داری سے با خبر ’’صحافی‘‘ ہو تے تعلق داری پر میں راز دے دوں گا مگر اُمید
غلط فہمی میں بدلی میرے اندر کے قوم پرست نے جب راز نہ دیا تو ڈیوٹی
مجسٹریٹ نے بیو رو کریٹ کا روپ دھا ر کر مقامی پولیس سے میری وہ خدمت
کروائی جو راولاکوٹ کی تاریخ میں آ ج تک کسی قوم پرست کے مقد ر میں نہ آ ئی
یہاں ہی اُس سے بھی’’جڑت‘‘ بنی جو مقبول بٹ کے ساتھ جیل کا ساتھی رہا مجھے
بھی اس قربت کا کچھ دیر کے لیے’’اعزاز‘‘ دے گیا ۔وہ عمر کے آخری حصہ میں ہو
تے بھی’’کا رکن‘‘بن کر کام کرتا رہا میر پو ر میں ایک دو افرادنے اُس کو
کھبی یاسین ملک کے قریب نہ ہونے دیا جو از یہ رکھا کہ ہم پہلے سے یا سین
ملک کے ساتھی ہیں حالانکہ برسوں کی" یاسین لورزِی" کے باوجود تیسرا بندہ
اُن کے ساتھ چلنے تیا ر نہیں بر سوں پہلے کہ اس واقعہ کا عینی شاہد ہوں جب
یا سین ملک نے ان کے نام لے کر کہا تھا کہ یہ لوگ کا م نہیں کر سکتے سردار
آفتاب اور صغیر خان کو آگے آ کر کام کرنا ہو گا مگر اس ’’حسد‘‘ کے باوجود
یا سین ملک مقبول بٹ کے اس دست راست کو اپنا’’گُرو‘‘ ما نتا رہا۔اپنی سیاسی
ضرورت کے لیے پچھلے دنوں پراکسی وار میں مصروف عناصر نے اس کی بیماری حتی
کہ بے بسی کا مذاق اڑاتے بڑھاپہ میں اس کی ویڈیو بنا کر وائرل کی۔ "ضرورت
مندوں"کی اس غیر اخلاقی حرکت کا جواب قدرت ہی دے گی، اس کا دل دکھایا گیا۔
رفیق ڈار نے اپنا خون اس کو دیکر اس کی محبتوں اور تحریک سے وفا کا کسی حد
تک صلہ دیا۔ آج وہ نیشنلزم کی بنیاد رکھے مرکز آزادی میرپور میں وہاں آسودہ
خاک ہو چلا جہاں حافظ عبدالخالق انصاری پروفیسر محمد اشرف قریشی بیرسٹر
قربان جیسے وقت کے بڑے انقلابی آسودہ خاک ہیں مادرو طن جموں کشمیر کی وحدت
پر پے درپے وار کا مشاہدہ کرتے مصلحت پسندوں اور تنخواہ داروں کے ساتھ ایک
لاوارث اور منتشر ہجوم چھوڑے وہ ایک خواب لیے اس دنیا سے چل بسا۔ جاتے جاتے
وہ یہ صدمہ بھی لے چلا کہ اس کے کاررواں کی" قیادت" راولپنڈی کے ساتھ اب
واشنگٹن سے بھی "معاونت"لے گی۔ لیکن مجھے پھر بھی یقین ہے کہ بساط الٹے گی
آخر ایک دن عبدالحمید بٹ کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا چونکہ یہ خواب اس
سے پہلے بابائے قوم محمد مقبول بٹ نے دیکھا تھاابھی تازہ اطلاع یہ ملی کہ
آزاد کشمیر میں مقبول بٹ کا آخری ساتھی چوہدھری غلام یسین جو بٹ صاحب کے
ساتھ جیل توڑ کر بھارت کی قید سے فرار ہو کر ہیروکے طورپر آیا تھا آزادی کا
خواب دنیا سے چل بساجب بھی جموں کشمیرمیں مقبول بٹ کے نام سے آزادی کا سورج
طلوع ہو گا اس کی ضوفشاں کرنیں چوہدھری غلام یسین اور۔ عبدالحمید بٹ کے نام
سے بھی منسوب ہوں گی ان کے لیے بس اتنا کہنا ہے۔۔۔۔۔۔
جو رکے توکو ہ گراں تھے جو چلے تو جان سے گزر گے ۔۔۔۔رہ یار ہم نے قدم بقد
م تجھے یادگار ٹھہرادیا ۔
|