موجودہ سیاسی منظر نامہ

گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو شہید کی 13ہویں برسی جو اس لحاظ سے پہلی برسی تھی کہ اس میں پی ڈی ایم بشمول مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھر پور شرکت کی، اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف نے ولولہ انگیز تقریریں کی، بلاول بھٹو زرداری نے یہ عہد دہرایا کہ ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے استعفے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دیئے جائیں گے، بلاول نے جیالوں سے عہد لیا کہ وہ اسلام آباد لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے، ہر صورت کپتان کو گھر بھجوائیں گے، لیکن پیپلز پارٹی ہر الیکشن پراسیس میں شمولیت اختیار کرے گی یعنی کہ بلاول نے پی ڈی ایم کا واضح کر دیا کہ پیپلز پارٹی ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے، مریم نواز شریف نے بلاول کو بھائی کہہ کر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سب ملکر کپتان کی حکومت کو گرائیں گے، مریم اور بلاول کے خطاب سے یہ تاثر ابھرا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مستقبل کی سیاست میں لازم و ملزوم ہونگی، جبکہ بلاول اور مریم کے بیانیہ کے بعد ماسوائے پیپلز پارٹی کے دیگر جماعتوں کے قائدین اور کارکن یہ کہہ رہے تھے کہ اپوزیشن کا اتحاد مضبوط ہے، اور پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کیلئے اپوزیشن یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہے اور اپوزیشن کپتان کی حکومت کو ٹف ٹائم دے گی، اس امر کو ابھی 48 گھنٹے بھی نہ گزر پائے تھے کہ خوش فہمی میں مبتلاء اپوزیشن کی قیادت اور کارکنوں کی امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کے حوالے سے خبر آئی جس میں پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کے استعفے میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر دیئے گئے اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ میاں نواز شریف وطن واپس آ کر احتجاجی تحریک کے قائدین میں شامل ہوں۔ یعنی
’’نہ نو من تیل ہو۔۔۔ نہ رادھا ناچے‘‘

گو کہ مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ اور بیرون ملک مقیم ہیں وہ (میاں نواز شریف) تو اپنی والدہ کے جنازہ میں شرکت کیلئے بھی وطن واپس نہیں آئے تھے اور انہیں آنا بھی نہیں چاہیے تھا کیونکہ وہ زیر عتاب ہیں ان کے کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بطور مجرم اور ملزم مطلوب ہیں۔ اس صورتحال میں انکی وطن واپسی کیلئے ماحول سازگار نہیں ، میاں نواز شریف کی کپتان کی حکومت کے دور میں واپسی کا بھی کوئی امکان بھی نظر آتا۔ اس طرح سیاست کے کھلاڑی آصف علی زرداری نے وہ کھیل کھیلا ہے کہ ’’سانپ بھی مر جائے۔۔ اور لاٹھی بھی بچ جائے‘‘۔ پیپلز پارٹی کے قائد کا یہ بیان اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کی جماعت کے ارکان اسمبلی اپنے استعفے نہیں دینگے۔ اور ان کی جماعت ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں بھر پور حصہ لینے جا رہی ہے۔

آصف علی زرداری سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور وہ اپوزیشن کا کھیل بھی خوب کھیلتے ہیں اور برسر اقتدار حکومت کو اپنی آئینی مدت بھی پوری کرنے دیتے ہیں، جس کی مثال پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سابقہ دور حکومت ہے، اس وقت پیپلز پارٹی بڑی اپوزیشن جماعت تھی تو پیپلز پارٹی نے نواز شریف سے شاہد خاقان عباسی تک کی حکومت کیخلاف خوب اپوزیشن کی، لیکن مشکل وقت میں مسلم لیگ (ن) کی گرتی ہوئی حکومت کو قائم رکھنے کیلئے پیپلز پارٹی ہی (ن) لیگ کا سہارا بنی۔سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں، شاید یہ پی ٹی آئی کے کپتان کو وزارت عظمی کے منصب سے اتارنے کیلئے پی ڈی ایم میں شامل ہوئی تھی۔

پیپلز پارٹی کی قیادت اور جیالے الیکشن لڑنا خوب جانتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں دیکھنے کو ملا، جہاں بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت کے امیدواروں کی آخری روز تک انتخابی مہم میں خود شامل رہے، دھواں دار پاور شو کیے، گلگت بلتستان کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی، جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتوں نے اپنے سیاسی اتحاد سے الگ ہو کر الیکشن لڑے، پی پی پی کی طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی گلگت بلتستان الیکشن میں خوب حصہ لیا، مریم نواز شریف، احسن اقبال سمیت دیگر قیادت پولنگ کے بعد تک اپنے متوالوں کے حوصلے بلند کرنے کیلئے گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈالے رہی، ہارنے والی جماعتوں نے حسب سابق حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا، یہ وہی الزام ہے جو انتخابات میں ہر ہارنے والی سیاسی جماعت لگاتی ہے۔

پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل اپوزیشن جماعتوں کی قیادت آزمائش کا شکار ہے نے 31 جنوری تک کپتان کو حکومت چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے، بصورت دیگر یکم فروری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان ہو گا، لانگ مارچ کس دن، کب اور کس مقام پر ہو گا، اس کا تعین تو ابھی نہیں ہو سکا تا ہم یہ بات طے شدہ ہے کہ سردی کے باعث لانگ مارچ فروری کے آخر یا مارچ کے ابتداء میں ہو گا۔

یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ سینیٹ بھی فروری کے آخر یا مارچ کے ابتداء میں ہونے جا رہے ہیں، بقول بلاول بھٹو زرداری ان کی جماعت کسی الیکشن پراسیس سے باہر نہیں رہ سکتی تو اس کے مطابق پیپلز پارٹی ضمنی، سینیٹ، بلدیاتی سمیت ہر الیکشن میں حصہ لے گی لیکن عجیب منطق ہے کہ پی ڈی ایم نے ابھی الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے بارے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور وہ موجودہ حکومت کے دور میں ہر الیکشن کو فراڈ قرار دے رہی ہے، اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت نے انتخابات بابت اپنا فیصلہ بھی سنا دیا اور پی ڈی ایم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے بھی کھڑی نظر آ رہی ہے، لیکن سیاسی ذرائع واضح کہہ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے بیانیہ کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں ہم آہنگی نہیں ہے، اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمان سے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو غیر شرعی قرار دینے کا بدلہ چکائے گی اور بقول آصف علی زرداری کہ میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی قیادت کی کمر میں کئی بار چھرا گھونپا ہے کا مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف اور دیگر قیادت سے حساب لے گی، سیاسی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دے گی اور لانگ مارچ سے قبل پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہوتی نظر آ رہی ہے، تاہم سیاست شطرنج کی طرح کا ایک کھیل ہے جس میں حریف حلیف بنتے رہتے ہیں، لانگ مارچ سے قبل ملک کا سیاسی منظر نامہ بدلتا نظر آ رہا ہے، آنے والے وقت میں کون پی ڈی ایم کو چھوڑکر اقتدار کی کشتی میں شامل ہو گا؟ اور کون حکومتی جماعت سے کنارہ کشی کر کے اپوزیشن سے جا ملے گا اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
 

Akram Aamir
About the Author: Akram Aamir Read More Articles by Akram Aamir: 50 Articles with 35507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.