مغربی بنگال میں بن بلائے مہمان

بھارتیہ جنتا پارٹی پر دن رات انتخاب کا جنون سوار رہتا ہے۔ کورونا کے باعث کسی طرح ان لوگوں نے چند ماہ تک صبر کیا لیکن جیسے ہی اس کے اثرات کچھ کم ہوئے بہار کے انتخاب کا اعلان کردیا گیا اور سارے رہنما اس کام میں جٹ گئے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو اپنی عزت و وقار کا خیال کیے بغیر ملک وزیر داخلہ ،پارٹی کا قومی صدر اور ملک کی سب سے بڑی ریاست کا وزیر اعلیٰ حیدر آباد شہر کے میونسپل انتخاب میں لنگوٹ کس کر کود پڑا۔ خیر وہ محنت بھی اکارت گئی کیونکہ میئر تو کے سی آر کی ٹی آر ایس کا ہی بنا۔ اس معاملے جموں کشمیر کا ڈی ڈی سی انتخاب استثنائی ہے کیونکہ خوف کے مارے مودی ، شاہ ، نڈا اور یوگی کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہاں جاکر مہم چلائے اس لیے عباس نقوی اور شہنواز حسین کو روانہ کیا گیا ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دفع ۳۷۰ کے ۱۷ ماہ بعد بھی اگر وزیر عظم اور وزیر داخلہ وادی میں قدم رکھنے کی جرأت نہ کرسکیں تو اس اقدام کو کیسے سراہا جائے؟ وہ تو اچھا ہی ہوا کہ نہیں گئے ورنہ وادی میں جو تین کمل کھلے وہ بھی نہیں کھلتے۔

بی جے پی پر فی الحال مغربی بنگال کا بھوت سوار ہے۔ نڈا جی وہاں گئے تو ان کے قافلے پر حملہ ہوگیا ۔ اس کے بعد کورونا کا بہانہ بناکر گھر بیٹھ گئے۔ امیت شاہ تو گویا اس کے منتظر ہی تھے ۔ ’نڈا ہوئے بیمار تو شاہ جی ہوئے تیار ‘اور بنگال کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔امیت شاہ اور تنازعات کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں جانے انجانے میں کوئی نہ کوئی تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔ ان کا بنگال دورہ اس سے کیونکر خالی رہ سکتا تھا؟ وزیر نے داخلہ جب رابندر ناتھ ٹیگور کے شہر بولپور اور شانتی نکیتن یونیورسٹی کا دورہ کیا تو ترنمول کانگریس نے ٹوئیٹر پربی جے پی لیڈر کاایک پوسٹر شیئر کرکے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اس میں رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویر سے اوپر امیت شاہ کی تصویر لگائی گئی تھی۔ بی جے پی کی اس حرکت کو ٹی ایم سی نےرابندر ناتھ ٹیگور جیسے عظیم شاعر کی بے عزتی قرار دے دیا ۔ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری پارتھو چٹرجی نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ امیت شاہ کوگرودیوسے بالاتر بتانا نہ صرف ٹیگور بلکہ بنگالی قوم کی توہین ہے اور اس غلطی کے لیے بی جے پی کوکبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا ۔انہوں نے امیت شاہ کوباہری قرار دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور امیت شاہ کو بنگال کی تہذیب و ثقافت کا علم نہیں ہے ۔یہ لوگ تشدد میں یقین رکھتے ہیں ۔

پارتھوچٹرجی نےشہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا کہ بی جے پی سال بھر سے سی اے اے پر جھوٹ بولتی رہی ہے ۔اس نے این آر سی پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے ۔انہوں نے بجا طور پر پوچھا کہ یہ پیسے ضائع کرنے کے بجائے اسے کساد بازاری اوربے روزگاری کے خاتمے کےلئے کیوں نہیں استعمال کیا گیا ؟ مغربی بنگال میں بولپور دورے کےموقع پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے معروف لوک فنکار باسو دیب داس بادل کو میزبانی کاشرف بخشا مگر اس کے عوض بی جے پی کوناراضی ہاتھ لگی ۔ باسو دیب نے اپنی شکایت میں کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ سے وہ بات کرنا چاہتے تھے مگر ان سے کسی نےنہ بات کی اور نہ ہی ان کی مشکلات جاننے کی زحمت کی ۔ دراصل شاہ جی کے دورے کا مقصد کسی کی فریاد سن کر مشکلات کو دور کرنا تھاہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے باسودیب داس بادل کے گھر پر کھانا کھانے اور لوک گیت سے لطف اندوز ہونے کی تصاویر اور ویڈیوز کو اپنے ٹوئیٹر ہینڈل پر شیئر کیا اور شہرت کمائی ۔ہوئے ۔یہ مشق کیمرے کے سامنے نوٹنکی کے لیے تھی سو حاصل ہوگئی ۔

بی جے پی نے توباسو دیب داس کی میزبانی کا بھر پور سیاسی فائدہ اٹھا لیا لیکن اس بیچارے نے تین دن بعد ترنمول کانگریس کے سینئر رہنما انوبرتا منڈل سے ملاقات کرکے اپنی بپتا سنائی ۔ نامہ نگاروں کے سامنے امیت شاہ سے اپنی ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ ’امیت شاہ جی کو بتانے کیلئے میرے پاس بہت کچھ تھا، جو اِس وقت ملک کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے فنڈ اور اپنی مالی پریشانیوں سےمتعلق ان کوبتاوں۔حال ہی میں میری بیٹی نےایم اے پاس کیا ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔میں اس سے متعلق انہیں بتانا چاہتا تھالیکن شاہ جی نے مجھے اس کا موقع ہی نہیں دیا ‘‘۔ باسو دیب داس شاید نہیں جانتے کہ شاہ جیجس وزیر اعظم کا دایاں ہاتھ ہیں جو صرف اپنے من کی بات سنانے میں یقین رکھتا ہے۔ اس کو دوسروں کے من کی بات سننے کی فرصت کبھی نہیں ملتی ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو دنیا کی سب سے امیر سیاسی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کے باوجود بڑے خزانے اور چھوٹے دل کا یہ حال ہے کہ بی جے پیکے رہنما ایک غریب فنکار کے گھر جاکر اس سے اپنے وزیرداخلہ امیت شاہ کی میزبانی کرنے کی درخواست کرتے ہیں ۔ وہ بیچارہ مروت میں اس کو قبول کرلیتا ہے لیکن کھانے کا انتظام کرنے کیلئے بی جے پی کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہیں کی جاتی ۔ وہ خود ایک بن بلائے مہمان کی ضیافت کے سارے انتظامات کرتاہے ہاں آخر میں انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کے لیے بی جے پی مٹھائی کا انتظام کردیتی ہے ۔باسو دیب داس کی غربت کا یہ عالم ہے کہ لاک ڈاؤن کے عرصے میں غریبوں کیلئے ریاستی حکومت کی جانب سے تقسیم کیے جانے والے مفت راشن اسکیم کے تحت چاول اور گندم پر گزارہ کررہے تھے۔ اس وقت بی جے پی کو ان کاخیال نہیں آیا ۔ دیب کے گھر جاکر بھی ان لوگوں نے اس کا دکھ درد سننے کی زحمت گوارہ نہیں کی لیکن جب ترنمول نے ان کی مدد کی تو بی جے پی نے اسے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دے کر تنقید کرنے لگے ۔

بی جے پی کی اس بداخلاقی کا فائدہ اٹھانے کے لیے ترنمول کانگریس کی رہنما انوبر تا منڈل داس سے ملاقات کے لیے پہنچ گئیں اور ان کا دکھ درد سننے کے بعد وعد ہ کیا کہ ان کی بیٹی کا بی ایڈ کورس میںداخلہ کرانے کے بعد کی اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داری اٹھائیں گی۔ اس کے علاوہ داس کی ہر ممکن مدد کا بھی یقین دلایا۔ داس کے گھر پر شاہ کے طعام کی نگرانی کرنے والے بی جے پی کے قومی سیکریٹری انوپم ہزارہ نے فیس بک پر انوبرتا منڈل اور داس کی تصویر پوسٹ کرکے لکھا کہ۱۰؍سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد بھی ترنمول کانگریس کو لوک فنکار وںکی حالات زا ر کا اندازہ نہیں تھا لیکن اب بی جےپی کے آنے کے بعد ایسا نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آجانے کے بعد وہ لوگ ان غریب فنکاروں کے گھر جاکر مفت کی دعوت اڑائیں گے ۔بی جے پی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ترنمول کانگریس نے امیت شاہ کے پروگرام کو ڈرامہ قرار دے دیا اور اس میں کیا غلط ہے؟کیونکہ بی جے پی کو بھی یہ بتانا ہوگا کہ شاہ کا’ مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ بن جانا کیا سیاسی مفاد پرستی نہیں تھا؟

امیت شاہ نے اس دورے کے موقع پر بانکوڑہ میں بیشن ہنسدا کے گھر جاکر بھی کھانا کھایا۔ اس دعوت کے ۲۴ گھنٹے پہلے سے گودی میڈیا نے تشہیر شروع کردی ۔ زی کی رپورٹر نے وہاں جاکر بھاشن بازی کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ گھر ہے جہاں وزیر داخلہ کھانا کھائیں گے۔ ان کے مینو میں فلاں فلاں شئے پروسی جائے گی مثلاً چار قسم کی بھنڈی ان کے لیے بنائی جائے گی ۔ اس کھانے کا نامعقول پروگرام ٹیلی ویژن پر ۴۰ منٹ تک چلایا گیا اور ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کہی گئیں کہ ان کو لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ہندوستانی صحافت کا معیار اس قدر گر جائے گا اور چاپلوسی کرتے ہوئے وہ لوگ اس مقام پر پہنچ جائیں گے یہ بات کسی کے تصور خیال میں نہیں تھی۔ترنمول کانگریس نے ہنسدا کے گھرجاکراس کی مد د کی تو بی جے پی والے شرمندہ ہونے کے بجائے کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچنے لگے ۔ ہزارہ نے ٹویٹ میں لکھا کہ امیت شاہ جی کے کسی غریب کے گھر ظہرانہ کے بعد اگر اس کو ریاستی حکومت سے کچھ مدد مل جاتی ہے تو اس طرح کے کھانوں کو فروغ دیا جائے گا یعنی مفت خوری کو بڑھاوا ملے گا۔ غریب کسان کے گھر جاکر امیت شاہ کے کھانا کھانے پر ترنمول کانگریس نے وزیر اعظم مودی کے ایک پرانے ٹوئیٹ کودوبارہ پوسٹ کیا جس میں انہوں نے ۲۰۱۴ء میں راہل گاندھی کے کسی غریب کے گھر کھانا کھانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس کے لیڈران سیاحت کےلئے غریبوں کے گھر کر فوٹوکھینچواتے ہیں۔ خیر یہ ڈرامہ بازی تو سبھی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں لیکن بی جے پی جس پھوہڑ انداز یہ کام کرتی ہے اسے دیکھ کر گھن آتی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451037 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.