عالمِ اسلام بھی 2020میں کڑی آزمائشوں کے درمیان ۰۰۰

الحمد ﷲ ! اﷲ رب العزت کے فضل و کرم اور آقائے دو عالم رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ و سلم کے صدقہ و طفیل ہم بندگانِ خدا سال 2020سے سال2021میں داخل ہوئے ہیں۔ بیشک سال2020ہمارے لئے کئی آزمائشوں اور صبر آزمارہا۔ دنیا بھر کے انسانوں نے کورونا وائرس جیسی وباء سے بچنے کیلئے حتی المقدور کوششیں کیں اور اپنی صحت و حفاظت اور تندرستی کیلئے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے کوشاں رہے اور نہیں معلوم یہ وباء 2021میں کیا صورت اختیار کرتی ہے۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم کو مزید آزمائشوں سے محفوظ رکھے اور جو بھی اﷲ کی آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں ایمان پراستقامت عطا فرمائے اور انہیں صبر آزما دور میں کلمات ناشکری ،کفریہ ، شرکیہ سے محفوظ رکھے۔ مزید یہ کہ آزمائشوں کے موقع پراپنی بیماری یا تکالیف یا کوئی غم و مصیبت وغیرہ کو جتنا ممکن ہوسکے دوسروں پر ظاہر کرنے سے محفوظ رکھے۔ہم جب اﷲ کی نعمتیں پاتے ہیں تو اسکا اظہار اتنے اچھے انداز میں نہیں کرتے یا پھر کرتے ہی نہیں، جبکہ بیماری یا تکالیف و غم کے دوران بے تحاشہ اظہار کرتے ہوئے کفر و شرک تک کربیٹھتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اسکی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنے والا بنائے اور غم و تکالیف کے موقع پر صبر و استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔2020میں آفات و مصیبتیں اور کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مسلمانوں نے اﷲ رب العزت سے اپنے گناہوں ، کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی چاہی اور جتنا ممکن ہوسکا اس کی حمد و ثناء کرتے رہے ، ذکر و اذکار میں مصروف رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ و سلم پر درود و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی سعی کرتے رہے۔ سعودی عرب کی شاہی حکومت نے احتیاطی اقدامات کے تحت حرمین شریفین اور مملکت کی تمام مساجد کو بند کردیا تھا جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر تقریباً تمام ممالک میں مساجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا یا پھر چند افراد کو سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔حرمین شریفین اور دیگر اسلامی و عرب ممالک میں پابندی عائد کرنے کے بعد ہمارے ملک ہندوستان میں حکومت اور پولیس کی جانب سے سختی کی گئی اور جہاں مسلمان مساجد میں نماز پڑھتے دکھائی دیئے ان میں بعض مقامات پرتشدد بھی کیا گیا۔ لاکھوں مسلمان ایسے صبر آزما اور آزمائشی دور میں اجتماعی طور پر اپنے خالق و مالک کو منانے کی کوشش کرتے اگر انہیں مساجد میں موقع دیا جاتا ۔ خیر سماجی فاصلہ کے پیشِ نظر عالمی سطح پر مسلمانوں نے بھی دیگر مذاہب کی طرح احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عبادات کیں۔کئی ماہ تک بعض مساجد میں نماز باجماعت ہورہی تھی بھی تو سماجی فاصلہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے صف بندی میں سنتِ رسول اﷲ ﷺ کی خلاف ورزی کی گئی اور آج بھی بعض مساجد میں یہ عمل جاری ہے۔ اس وبا کی وجہ سے کئی مسلمان صرف حکومت کی پابندی کو مدنظر رکھ کر مساجد میں سماجی دوری اختیار کئے ورنہ ایک کامل یقین رکھنے والے مسلمان جانتے ہیں کہ موت و زندگی اﷲ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے اور جسے چاہتا موت دیتا ہے چاہے کتنی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں ۰۰۰خیر 2020ہم مسلمانوں کے لئے رنج و غم کا سال رہالیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ نے اپنے بندوں کیلئے اسی کی حمد و ثناء اور آقا ﷺ پر درود و سلام کی کثرت فرمانے کا موقع عنایت فرماکر سکون و راحت بھی دی جس کیلئے ہم اپنے خالق کائنات کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔اﷲ تعالیٰ ہم کو ایسی کڑی آزمائشوں اور مصیبتوں و غم سے بچائے رکھے۔ آمین۔

عالمِ اسلام اور کورونا وائرس
کورونا وائرس کی وبا نے سال2020میں عالمی معیشت کو بُری طرح متاثر کردیا ۔ سماجی فاصلہ کی وجہ سے کم و بیش 4ارب لوگ اپنے گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سال2019کی آخری رات کو جب چینی حکام نے ووہان شہر میں سامنے آنے والے نمونیا کے 27کیسز کے بارے میں اعلان کیا تواس کے بعد ڈاکٹرس بھی حیران و پریشان ہوگئے ، بتایا جاتا ہے کہ دوسرے ہی دن ووہان میں جانوروں کی منڈی خاموشی سے بند کردی گئی یہ سمجھ کر کہ وائرس کی ابتداء یہیں سے ہوئی ہوگی۔ 7؍ جنوری کو چین نے اس نئی قسم کے وائرس کے شناخت ہونے کا اعلان کیا جس کو آج دنیاکووڈ 19کے نام سے جانتی ہے۔ 11؍ جنوری 2020کو ووہان میں کورونا وائرس کی وجہ سے پہلی موت واقع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایشیائی ممالک کے علاوہ فرانس،امریکہ، اٹلی، اسپین، برطانیہ، مشرقِ وسطیٰ کم و بیش دوسو ممالک میں وائرس پھیلنا شروع ہوگیا۔جنوری کے آخر تک ووہان شہر میں وائرس اس حد تک پھیل چکا تھا کہ کئی ممالک اپنے شہریوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعہ ووہان سے نکال رہے تھے ، وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے چین نے ووہان کی پانچ کروڑ آبادی کو اپنے گھروں تک محدود کردیا تھا۔ اپریل 2020کے وسط تک تین ارب سے زائد افراد لاک ڈاؤن میں رہ رہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دنیا تھم کر رہ گئی ہے، مدارس، کالجس، یونیورسٹیز، دفاتر یہاں تک کہ حرمین شریفین ومساجد و دیگر مذاہبی مقامات وغیرہ بند کردیئے گئے اور آج بھی کئی ممالک میں تعلیمی ادارے بند ہیں جس کی وجہ سے آن لائن تعلیم کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے نہیں معلوم یہ ابھی کب تک جاری رہے گا۰۰۰ذرائع ابلاغ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد8,24,46,401ہے، جبکہ مرنے والوں کی تعداد 1,79,9,505ہے ،اور اس وائرس سے متاثر ہوکر شفایاب ہونے والوں کی تعداد5,84,53,034بتائی جاتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین کی تیاری عمل میں آچکی ہے البتہ اس میں حرام و حلال کے مسئلہ پر بحثیں جاری ہیں ۔ عالم اسلام کے ممالک سعودی عرب، کویت، عمان، بحرین، متحدہ عرب امارات میں ویکسین لگائی جارہی ہے۔عالمِ اسلام بھی معاشی اعتبار سے بُری طرح متاثر ہوا ہے خصوصی طور پر دنیا بھر کے عام مسلمانوں کو2020میں حج کی سعادت حاصل نہ ہوسکی۔ صرف چند ہزار مسلمانوں نے اس سال حج ادا کیا۔ اسی طرح حرمین شریفین کی حاضری سے لاکھوں مسلمان محروم ہوگئے اور ہورہے ہیں۔

عالمی سطح پر سب سے پہلے برطانیہ پہلا ملک ہے جس نے 8؍ ڈسمبر کو باقاعدہ ویکسین لگائی۔ دنیا کے بیشتر ممالک ویکسین کی تیاری کے بعد اسے حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک ایسے وقت جبکہ دنیا کورونا وائرس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیراپنانے کے ساتھ ساتھ ویکسین لے رہی ہے۔ ایسے میں عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک پر زور دیا کہ انہیں مستقبل میں عالمی امراض سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہینم گیبراس نے تنبیہ کی کہ اگر ہم اپنے آپ کو مستقبل کے چیالنجس کے لئے تیار نہیں کرتے تو دنیا ایک عالمی وبا سے دوسری عالمی وبا میں داخل اور اس سے دوچار ہوسکتی ہے اور ایسا دوراندیشی نہ ہونے کی وجہ ہوگا۔ انکا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کوئی آخر وبا نہیں ہے بلکہ وبائی امراض زندگی کی حقیقت ہے، لہذا تمام ممالک کو آنے والے امراض کو پھیلنے سے روکنے ، ان کی شناخت کرنے اور ہر قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ان تمام حالات سے نمٹنے کے لئے انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ تمام ممالک عالمی سطح پر بھائی چارے کی فضا قائم کریں اورانسانیت کے جذبہ او رباہمی تعاون سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور اسی میں سب کی کامیابی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی سربراہی میں سعودی کابینہ کا آن لائن اجلاس منگل کی شب منعقد کیا گیا تھا جس میں موجودہ بجٹ کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی خدمات پر روشنی ڈالی گئی، شاہی حکومت نے کورونا کے حوالے سے حکومتی کوششوں کو بتاتے ہوئے کہاکہ شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو کورونا کی وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے جامع منصوبے مرتب کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس وبا کی وجہ سے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات کو کم کرنے اور معاشی ترقی کو بہتر بنانے کے منصوبے بھی زیر بحث رہے۔

دبئی میں ویکسین لگانے کا عمل تیزی سے جاری
دبئی اسٹیئرنگ کمیٹی کی چیرپرسن فریدہ خواجہ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دبئی میں 2021کے آخر تک تقریباً 70فیصد آبادی کیلئے کورونا ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد کورونا وائرس سے بچنے کیلئے عوام میں قوتِ مدافعت بڑھانے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ چیرپرسن فریدہ خواجہ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں اپریل2021میں کورونا وائرس کی ویکسین کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا۔ اس مرحلے میں دیگر تمام شہریوں اور رہائشیوں کو ویکسین لگوانے کیلئے کہا جائے گا۔ عرب امارات میں قومی سطح پر ویکسینیشن مہم جاری ہے اور تمام ریاستیں کورونا ویکسین کیلئے اپنے اپنے پروگرام کے مطابق عمل پیرا ہیں۔متحدہ عرب امارات چین سے باہر پہلا ملک بتایا جاتا ہے جہاں عوام کو چین کی سینوفرم کی تیار کردہ ویکسین لگائی گئی تھی۔ سینو فرم ویکسین اب متحدہ عرب امارات میں رہنے والے ہر شخص کیلئے دستیاب ہے، متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے دبئی میں قائم کئے گئے فیلڈ ہاسپتل سے ویکسین لگائی جاسکتی ہے۔غرض کہ دیگر خلیجی ممالک میں بھی ویکسینیشن مہم جاری ہے جس کے تحت عوام کو ویکسین لگائی جارہی ہے اب دیکھنا ہیکہ اس سے کورونا وائرس کی وبا پرکتنا جلد قابو پایا جاسکتا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت نے عوام کو مستقبل میں مزید بیماریوں کیلئے تیار رہنے کا انتباہ دیا ہے ۔

خلیج تعاون کونسل کا آئندہ منگل کو اجلاس
فرمانروا مملکت ِ سعودی عرب شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی سربراہی میں منعقدہ ہونے والے اجلاس میں خلیج تعاون کونسل کے تحت منگل 5؍ جنوری کو منعقد ہونے والے 41ویں سربراہی اجلاس کے شرکا کو خوش آمدید کہا گیا ۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں سعودی بحرینی رابطہ کونسل کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں دونوں برادر ممالک میں مختلف امور پر اتفاق کیا گیا ۔

صدام حسین ہوتے تو مشرقِ وسطیٰ کے حالات کچھ اور ہوتے۰۰۰
مسلمانوں کے عظیم دن یومِ عرفہ کے موقع پر ایک طرف اﷲ کے مہمان اپنے خالق و مالک کو راضی کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے منانے کی کوشش کررہے تھے تو دوسری طرف عراق میں مردِآہن سابق عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی لگائی گئی۔ 9؍ ذی الحجہ مطابق30؍ ڈسمبر2006ء میں انہیں پھانسی دے دی گئی اس موقع پر صدام حسین نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے شہادت نوش فرمائی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عراق کے اس مردِ آہن صدرصدام حسین کی سیکیوریٹی پر مامور 12امریکی فوجی جوان کی زندگی کے بہترین دوست تو نہ تھے تاہم وہ ان کے آخری ایام میں بہترین ساتھی رہے۔بتایا جاتا ہے 551ملٹری پولیس کمپنیوں سے منتخب ہونے والے جنہیں ’’ سپر12‘‘ کہا جاتا ہے ، صدام کے ان محافظوں میں سے ایک محافظ ولبارڈنورپر نے ایک کتاب ’’دی پرزنر اِن ہزپیلس‘‘ لکھی۔ جس میں انہوں نے صدام حسین کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں لکھا۔ بارڈنورپر نے اپنی کتاب میں لکھاکہ جب صدام حسین کو پھانسی دینے والے اہلکاروں کے سپرد کیا جارہا تھا تو ان کے تمام محافظوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی ایڈم فوگرسن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ہم نے صدام کو کبھی بھی نفسیاتی مریض اور قاتل کے طور پر نہیں دیکھا ہم انہیں ’’گرینڈ فادر‘‘ کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان سپاہیوں میں شامل ایڈم روتھر سن نے بارڈنورپر کو بتایاکہ ’جب صدام کو پھانسی دے دی گئی ، ہمیں لگا ہم نے انہیں دھوکہ دیا ہے، ہم خود کو قاتل تصور کرتے تھے، ہمیں لگا جیسے ہم نے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا ہے جو ہمارے بہت قریب تھا‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ جب ڈسمبر2003میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلجنس ایجنسی(سی آئی اے) صدام حسین کو پکڑنے میں کامیابی حاصل کی تو ان کو ایک ایسے شخص کے حوالے کیا گیا جو صدام حسین کی شناخت کی تصدیق اور معلومات کیلئے تفتیش کرسکے۔ یہ شخص جان نکسن بتائے جاتے ہیں جنہوں نے 1998ء میں سی آئی اے میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس دن سے وہ صدام حسین کے بارے میں تحقیق کرنے پر معمور تھے۔ جان نکسن بحیثیت تفتیش افسر پہلے شخص تھے جنہو ں نے صدام حسین سے کئی دنوں پر محیط گفتگو کی اور تفصیلی سوالات کیے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’’مجھے خود کو چٹکی کاٹ کر یقین دلانا پڑتا تھا کہ میں دنیا کے سب سے مطلوبہ شخص سے سوالات کررہا ہوں ۔جان نکسن 2011تک سی آئی اے میں خدمات انجام دیں وہ ایک کتاب ’’ڈی بریفنگ دی پریزیڈنٹ‘‘ لکھی، جس میں انہوں نے صدام حسین سے کئے گئے سوالات اور تجربات پرکو قلمبند کیا۔ جان نکسن کے مطابق انہیں عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کی موجودگی کا معلوم کرنا تھا ، وائٹ ہاؤس صرف ڈبلیو ایم ڈی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا،۔ لیکن جان نکسن کا کہنا ہیکہ صدام حسین کے ساتھ کی جانے والی گفتگو او ربعد میں صدام حسین کے ساتھیوں سے بات کرکے انہیں یقین ہوگیا کہ صدام حسین نے کئی سال پہلے عراق کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ کیلئے بند کردیا تھا۔ جان نکسن کے مطابق انہیں صدام حسین سے تفصیلی بات چیت کے باوجود اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے پاس ڈی بریفنگ کیلئے نہیں بلایا گیا ، پانچ سال بعد 2008میں فیڈرل بیورو آف انویسیگیشن نے انہیں اس مقصد کے لئے بلایا۔ جان نکسن نے صدر بش کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ صدر بش اور صدام حسین دنوں کے ساتھ ہاتھ ملاچکے ہیں ۔ انکا کہنا ہیکہ صدر بش حقیقت سے دور تھے اور انکے ساتھ صرف وہ لوگ تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ ان کے مطابق ’’میرا خیال تھا کہ ہم سی آئی اے والے کوئی اہمیت رکھتے ہونگے اور صدر ہماری بات سنیں گے لیکن درحقیقت ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی اور ہم کچھ بھی کہتے ، سیاست ذہانت اور معلومات سے برتر تھی‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ جان نکسن نے صدام حسین کے ہٹائے جانے کے بعد عراق میں ہونے والے حالات پر اپنی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بش انتظامیہ کے پاس صدام حسین کے بعد کے عراق کیلئے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ جان نکسن سمجھتے ہیں کہ آج بھی مشرقِ وسطیٰ کا خطہ بہت بہتر ہوتا اگر صدام حسین عراق کے صدر ہوتے۔اس طرح صدام حسین کی زندگی میں انکے ساتھ رہنے والے دشمنانِ اسلام کے محافظین بھی اس مردِ آہن سابق عراقی صدر صدام حسین سے محبت کرتے تھے اور یہ سب اسلام کی عطا کردہ نعمت ادب و اخلاق اور کردارکاثبوت ہے جس نے انکے دلوں میں محبت ڈال دی تھی۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 207340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.