یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سرکاری سرپرستی میں
ڈیتھ سکواڈز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔ کوئی دن ان کی کسی
واردات کے بغیر نہیں گزرتا۔ سیاسی کارکنوں، خاص طورپر آزادی پسند کہلانے
والے افراد کو اٹھاکر غائب کرانا، انہیں ٹارچر سیلوں میں بند رکھنا اور بعد
میں ان کی مسخ شدہ لاشوں کو سڑکوں کے کنارے پھینکنا ان کے جرائم میں سے ایک
عظیم جرم ہے۔قبرستانوں کو آباد رکھنے کے علاوہ لوگوں کی زمینوں پر زبرستی
قبضہ کرنا، بھتہ خوری اور ڈکیتی بھی ان کے کارناموں میں شامل ہیں۔ یوں
لگتاہے ڈیتھ سکواڈز کی بین الاقوامی برانچیں بھی سرگرم ہوچکی ہیں اور اب وہ
بلوچستان سے باہر محفوظ اور پرامن سمجھے جانے والے ملکوں میں بھی اپنے
ٹارگٹس تلاش کرتے ہیں اور انہیں لاپتہ کرانے کے بعد ان کی پراسرار موت کی
خبریں شائع ہوتی ہیں۔ جو کچھ ساجد حسین اور بانوک کریمہ بلوچ کے ساتھ ہوا
اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افغانستان میں بلوچ مہاجروں کی ٹارگٹ کلنگ کا
سلسلہ پہلے ہی سے جاری ہے۔
پاکستانی ریاست خود کو اسلامی سمجھتی ہے اور اسلامی اصولوں کی بات کرتی
نہیں تھکتی۔اس کا آئین بظاہر اسلامی تعلیمات یعنی قرآن و سنت کے مطابق ہے
اور اگر کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو، وہ آئین کا حصہ بن ہی نہیں
سکتا! ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے تمام ادارے اسلامی اقدار اور قوانین کی
پاسداری کرکے ان ہی کی روشنی میں کام کریں، لیکن جو کچھ دیکھنے میں آتاہے
اسلام سے کوسوں دور ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ریاست کے کس قانون نے اور کس مفتی
اعظم یا ممتاز عالم دین نے اسے ماورائے عدالت قتل کی اجازت دی ہے؟ یہ کون
سا قانون ہے جس کے تحت وہ لوگوں کو کسی الزام کے ثبوت کے بغیر اٹھاکر غائب
کرتے ہیں اور پھر انہیں مسخ کرکے ان کی تشددزدہ لاشیں پھینک دیتے ہیں؟ یہ
کونسا قانون ہے کہ ریاستی ادارے اس کی بنا پر جرائم پیشہ افراد یا غنڈوں کو
مسلح کرکے اپنے مخالفین کو ان کے ذریعے راستے سے ہٹادیتے ہیں؟ اگر کسی
لڑائی جھڑپ کے دوران کوئی قتل ہوجائے، یہ الگ بات ہے، لیکن یہ کیسے
ہوسکتاہے کہ کسی طالب علم یا سیاسی کارکن کو شک کی بنیاد پر یا کسی کی
مخبری کی بنیاد پر اٹھاکر غائب کیا جائے اور پھر کوئی سرکاری ادارہ اس کی
ذمہ داری قبول بھی نہ کرے؟
علمائے کرام سے باربار سنتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ہے نصیحت کرنا؛ کیا
نصیحت صرف عام لوگوں کے لئے ہے یا حکام جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے اور وہ
خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، انہیں بھی نصیحت کی ضرورت ہے؟ کیا
”افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر“ والی حدیث شریف علمائے کرام کی نظر
سے نہیں گرزتی؟ کیا جب کسی انسان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں اور وہ
آپ کے مسلک یا سوچ سے وابستہ نہ ہو، پھر خاموش رہنا چاہیے؟ کیا خیرخواہی
اور مظلوم سے دفاع صرف اپنے ہم خیال لوگوں ہی کے لئے ہے؟ کیا ہم بحیثیت ایک
عام مقتدی اور عقیدت مند کے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ کشمیر، برمہ،
افغانستان اور شام میں آپ کو نہتے مظلوم نظر آتے ہیں، لیکن اپنے ہی گھر کے
لاتعداد مظلوم کیوں نظروں سے اوجھل ہیں جو صرف اور صرف اپنی سوچ کی خاطر
مارے جاتے ہیں؟ کیا صحافت جرم ہے؟ کیا الگ سیاسی سوچ رکھنا قابل گردن زنی
جرم ہے جس کی سزا موت ہی ہے؟ وہ بھی قانونی کارروائی اور ٹرائل کے بغیر؟
تمام پاکستانی علمائے کرام، بطور خاص بلوچ علمائے کرام سے مودبانہ گزارش ہے
ان سوالوں کے بارے سوچیں، اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کیا ہم نے اپنی پیشہ
ورانہ ذمہ داری اس حوالے سے پوری کی ہے؟ بلوچ سماج میں مذہبی اور غیرمذہبی
حلقوں میں خلیج پیدا ہوئی ہے اور وہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، اس کی ذمہ
داری کس پر آتی ہے؟
|