قاضی حسین احمد
(shabbir Ibne Adil, karachi)
قاضی حسین احمد: ایک بے باک سیاستدان
تحریر: شبیر ابن عادل
یہ شاید سن 2003 کے موسم گرما کی بات ہے، ایک دوپہر سرفراز بھائی ہمارے آفس آئے اور ہمارے پاکستان ٹیلیویژن نیوز کے ساتھیوں کو لے کر نارتھ ناظم آباد کی طرف چل پڑے۔ میرے ساتھ ہمارے نیوز ایڈیٹر منور مرزا، اقبال جمیل اور دو ساتھی اور تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نارتھ ناظم آباد کے ایف بلاک میں واقع عارف بھائی کے گھر پہنچ گئے۔ ہم لوگ گھر کے اندر داخل ہوئے تو حیران رہ گئے۔ ہمارے استقبال کے لئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد دروازے پر موجود تھے۔ اگرچہ ہماری ان سے وہ پہلی ملاقات تھی مگر وہ اتنی اپنائیت سے ملے جیسے ہمیں برسوں سے جانتے ہوں۔ ہمیں بیٹھنے کو کہا ۔ اسی دوران ان کا فون آگیا۔
ہم لوگ پی ٹی وی میں صرف سرکاری عہدیداروں ہی کی نیوز کوریج کرتے تھے اسلئے سیاسی رہنماؤں سے زیادہ قربت نہیں تھی اور سیاستدان بھی ہم لوگوں کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اہلسنت کے عظیم رہنما اور جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ سے میں نے کسی پروگرام میں کہا کہ ہمیں نیوز کے لئے آپ کے تاثرات ریکارڈ کرنا ہیں تو انہوں نے بہت بدمزگی کے ساتھ منع کردیا تھا۔
"معذرت چاہتا ہوں، میرا ضروری فون آگیا تھا"، قاضی صاحب کی آواز سے خیالات کا سلسلہ ٹوٹا تو میں نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ کوئی بات نہیں۔ سرفراز بھائی نے ہم لوگوں کا تعارف کرایا ۔ جس کے بعد قاضی صاحب دیر تک ہم سے باتیں کرتے رہے اور ہر ایک سے اس کی نجی زندگی کے بارے میں بہت اپنائیت سے معلوم کرتے رہے۔
اس دورن میں نے محسوس کیا کہ ان کے لبوں پر ایک خوشگوار مسکراہٹ ہے، چونکہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی، اس لئے مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ مسکراہٹ ان کی شخصیت کا حصہ ہے میں تو میڈیا کوریج میں ان کی مسکراہٹ سے یہی اندازہ لگاتا رہا کہ وہ دیگر سیاستدانوں کی طرح کیمرہ دیکھ کر مسکراتے ہیں اس وقت میرے پاس کوئی کیمرہ ٹیم نہ تھی۔
تھوڑی دیر بعد ہی عارف بھائی ٹیبل پر کھانا لگوانے لگے ۔ مزیدار کھانوں بریانی، نہاری اور کھیر دیکھ کر میری بھوک مزید چمک اٹھی۔ اقبال جمیل کے لبوں پر تو سکوت طاری تھا مگر منور مرزا حسب عادت بہت زیادہ گفتگو میں مگن تھے۔ اسی دوران قاضی صاحب نے کہا کہ حضرات باقی باتیں کھانے کے دوران ہوتی رہیں گی۔ انہوں نے ہمیں بہت اپنائیت سے کھانا کھلایا۔ خیر کھانا دیکھ کر میرا ہاتھ ویسے بھی نہیں رکتا تھا۔ کھانے کے دوران اور اس کے بعد بھی باتوں کا سلسلہ جاری رہا ، چائے پینے کے بعد ہم رخصت ہونے لگے تو قاضی صاحب ہمیں گیٹ تک چھوڑنے آئے، ان کی اس انکساری سے میں بہت متاثر ہوا۔ سرفراز احمد بھائی اس زمانے میں جماعت اسلامی کے شعبہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ تھے۔ یہ ہماری قاضی صاحب سے پہلی اور شاید آخری ملاقات تھی اور اس نے کم سے کم میرے اوپر ان کی شخصیت کا گہرا تاثر چھوڑا ۔
اس کے بعد ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا، میں نے 6 جنوری 2013 کو میڈیا پریہ افسوسناک خبر سنی کہ قاضی حسین احمد اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں۔ دل میں دکھ کی ایک گہری سی لکیر ابھر آئی ۔
قاضی حسین احمد نے ملکی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے، وہ بائیس سال تک جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے اور انہوں نے جماعت اسلامی کو صحیح معنوں میں ایک عوامی پارٹی بنا دیا ۔
قاضی حسین احمد 1938 ء میں ضلع نوشہرہ کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ والد مولانا قاضی محمد عبد الرب ایک ممتازعالم دین تھے اوراپنے علمی رسوخ اور سیا سی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدرچُنے گئے تھے۔ قاضی صاحب اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔
قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد سے حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ حصول علم کے بعد جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ جہاں سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے،پھرجماعت اسلامی پشاورشہر اور ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی گئی۔ 1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان امیر منتخب کر لیے گئے۔
قاضی حسین احمد 1985ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے،تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ نورانی صاحب کی وفات کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔ ایم ایم اے میں مولانا فضل رحمان کے برعکس قاضی صاحب کا نقطۂ نظر ہمیشہ سے سخت گیر رہا ہے۔ حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد استعفیٰ کی بات بھی ان کی طرف سے ہوئی تھی۔ اور قاضی صاحب نے پارٹی قیادت پر کافی دباؤ بھی ڈالا لیکن جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔
6 جنوری 2013ء کو دل کے عارضہ سے اسلام آباد میں انتقال ہوا، اُن کو ان کے آبائی علاقے نوشہرہ میں دفن کیا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|