حکومت کی اقلیت دوستی یا اقلیت دشمنی؟

اویسی کی پارٹی سے ممتا کیوں خائف ہیں؟

ممتا بنرجی کا اور جو بھی بنگال کو گجرات اور اتر پردیش بننے نہ دے اس کا ساتھ دینا بیحد ضروری ہے۔ بنگال کی حکمرانی مودی اور شاہ کے ہاتھ میں دینا بنگال کی موت کے برابر ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ دونوں اور ان کی ٹیم نے اکثریتی طبقے میں اس قدر زہر پھیلایا ہے کہ ایک معتدبہ تعداد متاثر ہوچکی ہے ۔ مسلمان نہ متاثر ہوا ہے اور نہ متاثر ہوگا۔ کیونکہ بی جے پی مسلم دشمنی کے بغیر بنگال کیا کسی بھی ریاست میں قدم نہیں جما سکتی خاص طور پر بنگال جیسے علاقے میں۔

افسوس! ممتا بنرجی کو بدقسمتی سے مسلم ووٹرز یا د ہیں مگر مسلمان یاد نہیں ہیں ممتا بنرجی مسلمانوں کو وہ حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جو سابقہ حکومتیں دے چکی ہیں۔ ایک ایک مسئلہ کوپیش کیا جائے تو ممتا بے نقاب ہوجائیں گی۔ کلکتہ میں مسلمانوں نے اپنے خون پسینے سے دو ادارے قائم کئے ایک ادارہ تعلیمی اور دوسرا یونانی۔ ملی الامین گرلز کالج کے اقلیتی کردار کو مرکزی تعلیمی کمیشن نے منظور ی دی۔ بادل نخواستہ مارکسی حکومت نے بھی قبول کر لیا ممتا حکومت نے اپنے ایک ٹیچر کو بچانے اور خوش کرنے کیلئے ادارے کے اقلیتی کردار کو ختم کر دیا۔ چھ سال کی مسلسل کوشش اور احتجاج یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ممتا حکومت کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ بھی دائر کیا گیا۔ وہ ٹیچر بھی جس کے لیے ممتا حکومت پر بچھائے ہوئے تھی دغا د ے کر بی جے پی میں چلی گئی جب کہیں حکومت بیدار ہوئی مجبوراً اور ابھی نامکمل بحالی کر دار کا اعلان ہوا ہے۔

یونانی میڈیکل کالج اور اسپتال کو قائم کرنے میں مارکسی حکومت نے مدد کی۔ اسے حکومت کی تحویل میں لینے کیلئے 2010میں اسمبلی میں ایکٹ پاس کیا۔ ممتا بنرجی نے صاف صاف کہا کہ ’’ کالج اور اسپتال کو سابقہ حکومت نے جو کیا ہے ضروری نہیں کہ میں کروں‘‘۔ ادا رے کے لوگ گڑ گڑا تے بھی ہیں احتجاج بھی کرتے ہیں اب تو غیر معینہ مدت کیلئے اسٹرائک بھی کئے ہوئے ہیں ۔ ریلی نکالنا بھی چاہتے ہیں مگر حکومت کی ناانصافی اور جانبداری دیکھئے کہ انہیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔وجہ یہ بتائی جارہی ہے کرکورونا ہے گزشتہ روز بیر بھوم ممتا بنرجی نے لاکھوں کا اور چند روز پہلے امیت شاہ نے ہزاروں کی ریلی نکالی کورونا ممتا بنرجی اور امیت شاہ سے ڈر کر بھاگ گیا۔

ممتا بنرجی کی یہ اقلیت نواز ی ہے یا اقلیت دشمنی ہے؟ ممتا بنرجی کو غور وخوض سے کام لینا چاہیے بی جے پی اویسی کو ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ بنگال آنے کی دعوت دے رہی ہے۔ اگر مسلمان بھی دعوت دینے لگیں گے توممتا بنرجی کی نیند اڑ جائے گی۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تینتیس فیصد ووٹ تقسیم نہ ہو لیکن مسلم اقلیت کے تعلق سے بے توجہی اور بے اعتنائی کچھ ایسی ہے کہ (ممتا بنرجی کی اقلیت سے غفلت اور لا پرواہی/ دشمنی بھی ایک لحاظ سے کہا جا سکتا ہے) بی جے پی کے لیے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ آسان کر دے گی۔

جو لوگ میرے مضامین پڑھتے ہوں گے وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ خاکسار نے ہمیشہ دلائل سے لکھا ہے کہ فرقہ پرستی خواہ کسی کی طرف سے ہو انسانیت کے لیے خطرناک اور مہلک ہے۔ اقلیت کی طرف سے کم خطرناک نہیں ہے اکثریت کی فرقہ پرستی کو اقلیت کی فرقہ پرستی بڑھاتی ہے اور اس کا ہاتھ مضبوط کرتی ہے مسلمانوں کو تو اﷲ اور سول کی طرف سے ہدایت ہے کہ ’’ کوئی بھی برائی ہو اس نیکی اور بھلائی سے دفع کرو جو بہتر ین ہو‘‘۔ اس لیے مسلمان تو جو اپنی داعیانہ حیثیت سے واقف ہوگا اپنے آپ کو خیر امت کا فر د سمجھتا ہوگا وہ تو فرقہ پرستی کو زہر ہلاہل سے کم نہیں سمجھے گا۔ اب سیکولر پارٹیوں کا رول دیکھئے تو ہر سیکولر پارٹی چاہتی ہے کہ الیکشن میں مسلمانوں کا پورا ووٹ اسے ملے مسلمان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا ووٹ اس پارٹی کو دینے پر مجبور ہوتا ہے جو پارٹی بی جے پی کو ہرانے کی پوزیشن میں ہوتی ہے خواہ وہ مسلمانوں کیلئے کچھ کرے یا نہ کرے۔ ممتا بنرجی مسلمانوں کے بارے میں زبانی جمع خرچ بہت کرتی ہیں جس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچتا ہے مسلمانوں کو نہیں۔ سطحی قسم کا ایک دو کام کرکے طفل تسلی دے دیتی ہیں۔ اویسی کی پارٹی اگر بنگال میں الیکشن لڑتی ہے تو وہ دوچار سیٹ جیتے نہ جیتے پندرہ بیس سیٹوں پر ترنمول کانگریس کو نقصان پہنچا سکتی ہے یہاں کے مسلمان ممتا بنرجی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پاس کوئی اپنی غیر فرقہ پرست پارٹی نہیں ہے اور نہ سیکولر پارٹیوں میں سے کسی پارٹی کو اکیلے یا مل کر بی جے پی کو ہرانے کی طاقت ہے ۔یہ مسلمانوں کی مجبور ی ہے اور ممتا بنرجی کا ایڈوانٹیج (advantage) ہے۔ اب مسلمان کرے تو کیا کرے ؟ میرے خیال سے دوراستہ ہے ایک راستہ مسلم مسائل کوحل کیلئے ضروری ہے کہ اویسی کاڈر دکھا یا جائے یا کانگریس اور بایاں پارٹیوں کے محاذ کا ڈر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے مگر مسلمان جو بھی کریں صلاح و مشورے سے کریں۔کچھ لوگ مسلمانوں کی تمام جماعتوں کے مشاورتی اجتماع کے انعقاد کے بارے میں جنوری کے دوسرے ہفتے میں غور کر رہے ہیں میرے خیال سے ایک مستحسن قدم ہوگا ہوسکتا ہے ۔مسلمانوں کو لائحہ عمل مرتب کرنے میں آسانی ہو۔

Abdul Aziz
About the Author: Abdul Aziz Read More Articles by Abdul Aziz: 4 Articles with 4554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.