صلہ رحمی: رشتے داروں سے نیک سلوک

صلہ رحمی: رشتے داروں میں محبت و اخوت

تحریر: شبیر ابن عادل

ذرا چشم تصور میں سوچیں کہ معاشرے کے تمام لوگ ایک دوسرے کے مددگار، محبت کرنے والے اور ایک دوسرے کی خبرگیری والے بن جائیں تو کیسا لگے گا؟ یقینا ہر فرد کہے گا کہ کاش، کاش ایسا ہوجائے،لیکن اس میں ہمارا کردار بنیادی ہے۔ ہمیں اس کی ابتدا اپنے گھر سے کرناہوگی، جہاں بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے دومیٹھے بول کی منتظر ہے، جہاں باپ اپنے بیٹے سے چند لمحے گفتگو کا آرزو مندہے، جہاں بیوی اور بچے اپنی ضرورتوں کے علاوہ آپ کا ساتھ چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر رشتے دار اور عزیزہیں، جن سے قریبی رابطے، محبت وشفقت اورنیک برتاؤ آپ سب کی زندگیوں میں دھنک کے رنگ بھر دے گا اور آپ کو ایسی خوشی ملے گی کہ جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔
صلہ رحمی اسلام کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے اور اس دین کی ابتدا ہی صلہ رحمی سے ہوئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے دعوت اسلام پیش کی، اس کے اصولوں اور نقوش کو واضح کیا تو ان میں رشتے داروں سے تعلق، محبت اور نیک برتاؤ اسلام کے نمایاں اصولوں میں تھے۔ اس کی تائید ہرقل روم سے ابوسفیانؓ (ا س وقت انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) کی اس گفتگو سے بھی ہوتی ہے، ہرقل روم نے ابوسفیان سے دریافت کیاکہ تمھارے نبی ﷺ تمھیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ تو ابوسفیان نے جواب میں کہا: "صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھیراؤاور جو کچھ تمھارے باپ دادا کیا کرتے تھے، اسے چھوڑ دو۔ وہ نماز، سچائی، پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں "۔
آقائے دوجہاں، حضور پُرنورﷺ نے متعدد مواقع پرصلہ رحمی کی اہمیت واضح کی۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتے داریوں کو جوڑنے اور بتوں کو توڑنے کیلئے بھیجا ہے تاکہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا جائے"۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ؐ مجھے کو ئی ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ حضورؐ نے فرمایا: "اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرو"۔(بخاری)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جوشخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کردی جائے اور اس کی عمر دراز کردی جائے تو وہ صلہئ رحمی کرے۔(بخاری)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا شماربھی نیک اعمال میں ہوتا ہے، جن کو انجام دینے سے جنت میں داخل کیا جائے گا اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔
جبکہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے پر نحوست اور مصیبت طاری ہوتی ہے۔ اور وہ اللہ رب العزت کی نظروں سے گرجاتا ہے اور جنت کے بجائے دوزخ کا مستحق ہوگا۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا۔ (بخاری)
اسی حوالے سے ایک اور اہم حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے، (یعنی رحمن سے ایسا پیوستہ تعلق ہے جس طرح رگوں کا آپس میں ہوتا ہے) وہ کہتی ہے کہ اے اللہ! مجھ پر ظلم کیا گیا، اے اللہ! مجھے کاٹا گیا، اے اللہ مجھے۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ کیا تو اس بات پر خوش نہیں کہ جو تجھے کاٹے میں اسے کاٹوں اور جو تجھے جوڑے میں اسے جوڑ وں "۔ (مسند احمد)
یعنی صلہ رحمی کرنے والا اپنے رب کی رحمت کے سائے تلے رہتا ہے۔ اس کا تعلق اپنے رب سے ہوتا ہے اور وہ اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب وہ اپنے رشتہ داروں کو خوشی دیتا ہے تو اسے بھی خوشیاں ملتی ہیں۔ یاد رکھئے کہ صلہ رحمی کے دائرے میں پہلا درجہ ماں کا ہے، پھر باپ، پھر بیوی بچے اور پھر چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں، نانا، نانی، دادا، دادی اور دیگر عزیز اور رشتے دار ہیں۔ اُن کی خبرگیری کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان سے محبت اور میٹھے لہجے میں گفتگو کرنا، اگر کوئی نامناسب یا تلخ بات کہے تو محبت سے توجہ دلانا، حسب استطاعت ضرورت مند رشتے داروں کی مالی مدد اور خوشحال رشتے داروں کو تحائف دینا، ان کے گھر جانا، وقتاًفوقتاً ان کی دعوت کرنا،اور اگر بعض رشتہ داروں میں ناچاقی یا تنازع کی اطلاع ملے تو صلح کرانا، ان کی جان و مال اور وقت سے مدد کرنا۔ موجودہ دور میں رشتے داروں سے رابطوں اور تعلق کو فروغ دینے اور آسان بنانے میں سوشل میڈیا اور موبائل فون نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے، لہٰذا اس مقصد کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے۔ خاص طور پر امریکہ، یورپ اور دیگر ملکوں میں اپنے رشتے داروں سے فون پر رابطے رکھنے چاہئیں، ان سے فرمائشیں کرنے کے لئے نہیں، بلکہ ان کی خیریت معلوم کرنے کیلئے اور انہیں یہ یقین دلانا چاہئے کہ ان رابطوں کا مقصد بے غرضی اور خلوص ہے۔
ان کاموں سے رشتے مضبوط ہوں گے، محبت کے تعلقات پائیدار ہوں گے اور باہم رحم وہمدردی اور اخلاق و مودت میں اضافہ ہوگا، صلہ رحمی آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی، بھلائی، تعاون، ایثار وانصاف کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صلہ رحمی ان دیگر اعمال سے بھی ہوتی ہے، جن سے دلوں میں محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور عزیزوں اور رشتہ داروں سے محبت و الفت، باہمی رحم وہمدردی اورتعاون کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔
اسلام میں صلہ رحمی کے فلسفے کا بنیادی مقصد اپنے اللہ رب العزت کی خوشنودی ہے۔ اسی لئے اللہ کی خوشنودی چاہنے والے نفوس قدسیہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے رہتے ہیں، خواہ وہ اس کا جواب کتنے ہی تلخ انداز میں دیں، دلوں کو توڑ دیں اور تحقیر کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری)
اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جب دوسرے صلہ رحمی کریں گے تو میں بھی کروں گا، یا اس حوالے سے تساہل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس کی ابتداء اپنی ماں، باپ اور بیوی بچوں سے ابھی کرنا چاہئے، صرف مسکرا کر تو دیکھ سکتے ہیں، ان کے جائز کاموں کی تعریف تو کرسکتے ہیں، ماں باپ کے ہاتھ پاؤں دبا سکتے ہیں، ان کی خلافِ مزاج باتوں کو برداشت تو کرسکتے ہیں۔ اسی سے ابتدا کریں اور اس دائرے کو وسیع
کرتے ہوئے اس میں تمام رشتے داروں کو شامل کرلیں۔ یقین جانئے کہ اگر آپ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے تو دوسرے آپ
سے بھی حسن سلوک کریں گے، اور اس طرح ایک ایسا معاشرہ وجود میں آجائے گا، جہاں سب ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ہمدرد ہوں گے۔لیکن اس کی ابتدا آپ سے اور ابھی ہوگی، اسلئے پلیز وقت ضائع نہ کریں اورمثالی معاشرے کی تعمیر شروع کردیں۔
================
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.