سلام پھیلاو

سلام پھیلاؤ

تحریر: شبیر ابن عادل

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس کے لوگوں کے باہمی تعلقات سے لگایا جاسکتا ہے، کیونکہ لوگوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بدولت ہی مثالی معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے اپنی مثالی اور اعلیٰ تعلیمات میں معاشرے کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے پر توجہ دی اور مدینہ منورہ کا معاشرہ اتنا ارفع واعلیٰ تھا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس معاشرے کے لوگوں میں باہمی پیار، محبت، ایثار، قربانی اور جانثاری اور دیگر جذبات پوری طرح اجاگر تھے۔
حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات عالیہ میں سلام بھی شامل ہے، جس کی بدولت لوگوں میں اخوت و بھائی چارے میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ مسلمان جب بھی مسلمان بھائی سے ملے تو دونوں ہی محبت و مسرت کے جذبات کا تبادلہ کریں اور اس کا بہترین طریقہ ایک دوسرے کو سلامتی اور عافیت کی دعا دینا ہے۔ ایک السلام علیکم کہے تو دوسرا وعلیکم السلام کہے۔ آپس میں محبت و بھائی چارے کو بڑھانے اور استوار کرنے کا بہترین طریقہ سلام ہے۔
پیارے رسول ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ تم لوگ جنت میں نہیں جاسکتے، جب تک مومن نہیں بنتے اور تم لوگ مومن نہیں بن سکتے، جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تمھیں وہ تدبیر نہ بتادوں جسے اختیار کرکے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو،آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مشکوۃ)
جب ہم اپنے کسی بھائی سے ملتے ہوئے السلام علیکم کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ آپ کو ہرطرح کی سلامتی اور عافیت دے، اللہ آپ کی جان ومال کو سلامت رکھے۔ گھر بار سلامت رکھے، اہلِ وعیال اور متعلقین کو سلامت رکھے۔ دین و ایمان کو سلامت رکھے دنیا بھی سلامت رکھے اور آخرت بھی۔ سلام کرکے آپ مخاطب کے لئے سلامتی اور عافیت کی ساری دعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔ ذرا اندازہ تو کریں کہ اگر یہ الفاظ شعور کے ساتھ سوچ سمجھ کر آپ اپنی زبان سے نکالیں تو مخاطب کی ملاقات پر قلبی مسرت کا اظہار کرنے اورخلوص ومحبت، خیر خواہی اور وفاداری کے جذبات کو ظاہر کرنے کیلئے اس سے بہتر کون سے الفاظ ہوسکتے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ السلام اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے اللہ نے زمین میں (زمین والوں کے لئے)رکھ دیا ہے۔ پس السلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔
زیادہ تر لوگ اپنے شناساؤں کو سلام کرتے ہیں، جب کہ راہ میں نظر آنے والے ہر فرد کو سلام کرنا چاہیے، اگر آپ تجربے کے طور پریہ عمل کریں تو آپ اس کے حیرت انگیز نتائج دیکھیں گے۔ ایک شخص نے حضور اکرمﷺ سے پوچھا کہ اسلام کا بہترین عمل کون سا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ غریبوں کو کھانا کھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، چاہے تمھاری اس سے جان پہچان ہو یانہ ہو۔ (بخاری ومسلم)
سورہ النور میں ہے کہ "جب تم اپنے گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو، دعائے خیر اللہ کی طرف سے تعلیم کی ہوئی بڑی ہی بابرکت اور پاکیزہ"۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے تاکید فرمائی: "پیارے بیٹے! جب تم اپنے گھر میں داخل ہوا کروتو پہلے گھر والوں کو سلام کیا کرو۔ یہ تمھارے لئے اور تمھارے گھر والوں کے لئے خیروبرکت کی بات ہے"۔ (ترمذی) اپنے سے چھوٹوں کو بھی سلام کرنا چاہئے، کیونکہ سلام تو دعا ہے۔ نبی اکرم ﷺ بچوں کو بھی سلام کیا کرتے تھے۔ عام طور پر غیروں کو سلام کرتے ہوئے جھجک آتی ہے، ایک بار ہمت کرکے اس جھجک کو ختم کردیں تو آپ محسوس کریں گے کہ اس طرز عمل سے آپ کی عزت واحترام میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے۔ آپس میں زیادہ سے زیادہ سلام کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور اللہ رب العزت ہر دکھ اور نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ سلام کو خوب پھیلاؤ، اللہ تم کو سلامت رکھے گا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ آپس میں بہت زیادہ سلام کیا کرتے تھے۔ سلام کی کثرت کا یہ حال تھا کہ اگر کسی وقت آپؐ کے ساتھی کسی درخت کی اوٹ میں ہوجاتے اور پھر سامنے آتے تو پھر سلام کرتے اور آپؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کرتے اور اگر درخت یا دیوار یا پتھر بیچ میں اوٹ بن جائے اور پھر سامنے آئے تو اسے پھر سلام کرے۔ (ریاض الصالحین)
حضرت طفیل ؓ کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کے ہمراہ بازار بھی جاتا، وہ راستے میں جس کے پاس سے بھی گزرتے، اسے سلام کرتے، چاہے وہ کوئی کباڑیا ہوتا، چاہے کوئی دکاندار، چاہے کوئی غریب اور مسکین، غرض کوئی بھی ہوتا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اسے سلام ضرور کرتے۔
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ (مسلم) حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے، جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد عالیہ ہے کہ جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو۔ اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگو تو پھر سلام کرو اور یاد رکھو کہ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ مستحق اجر نہیں ہے(یعنی محفل میں آنے پر تو اہتمام سے سلام کیا جائے اور رخصت ہوتے وقت سلام نہ کریں)۔ (ترمذی)
ایک اور اہم بات یہ کہ سلام کے الفاظ پوری طرح ادا کریں، یعنی السلام علیکم۔ موجودہ دور میں بعض لوگوں کی طرح سام علیکم نہ کہیں (جس کے معنی ہیں کہ تمھیں موت آجائے)۔ اس معاملے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ پھر سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ہی نہ کہا جائے، بلکہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ علیہ وبرکاتہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
ذرا غور کر یں کہ اگر معاشرے میں سلام کی عادت عام ہوجائے تو کتنا فائدہ ہوگا، بازاروں میں، دفاتر میں، تعلیمی اداروں، کھیتوں کھلیانوں میں ہروقت سلامتی کی صدائیں گونجیں گی، جن سے محبت، اخوت اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بھی نازل ہوں گی، جن کی ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔
...........................

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.