آزا جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی الیکشن2021
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے 5جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی قرار دادوں کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں پاکستان کی ناقص کشمیر پالیسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے آخر میں کہا کہ '' مجھے معلوم ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں میرے ساتھ کیا ہو گا ،لیکن میں کھڑا ہوں''۔ اس سے پہلے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں اسلام آباد کی مداخلت نہیں ہونے دی جائے گی اور اگر پھر بھی ایسا کیا گیا تو یہ کشمیر کاز ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی بڑے نقصانات کا موجب ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کا ڈرامہ آزاد کشمیر میں نہیں چلنے دیا جائے گا۔چند ہی دن قبل آزاد کشمیر کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ایک اہم سیاسی شخصیت سے ملاقات میں دریافت کیا کہ کیا عمران خان حکومت آزاد کشمیر کے الیکشن کے حوالے سے'' دیدہ و نادیدہ'' قوتوں کا استعمال کب شروع کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ ' پی ڈی ایم' کی تحریک کی وجہ سے عمران خان حکومت خود پھنس کر رہ گئی ہے،تاہم امید ہے کہ اپریل،مئی سے آزاد کشمیر کے الیکشن جیتنے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے جائیں گے۔
گلگت بلتستان اسمبلی الیکشن کے اکثر حلقوںمیں جیتنے والے اکثر امیداروں نے چار سے پانچ،چھ ہزار ووٹ لئے جبکہ دس ہزار سے زائد ووٹ لینے والے چند ہی حلقے ہیں۔گلگت میں الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا طریقہ کار ہے جبکہ آزاد کشمیر میں پانچ سال پورے کرنے والی حکومت ہی نئے الیکشن کراتی ہے۔اس طرح اسلام آباد کے لئے گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر کے الیکشن میں فضا اتنی ساز گار نہیں ہے کہ پردے میں کام کر لئے جائیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ آزاد کشمیر اور پاکستان و بیرون ملک مقیم کشمیریوں میں ایک اہم سوال یہ سامنے ہے کہ کیا ، آزاد کشمیر میں بھی من مانی حکومت قائم کرائی جائے گی؟ اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کے کشمیر کاز اور پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مقامی،علاقائی اور عالمی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟گلگت بلتستان کے الیکشن کے بعد یہ سوال کھڑا ہو ا ہے کہ کیا ایسا ہی آزاد کشمیر میں بھی کیا جائے گا؟ گلگت بلتستان اسمبلی کے حالیہ الیکشن دوسری مثال ہے پہلی مثال پاکستان کے 2018 کے الیکشن اور مطلوبہ حکومت کی تشکیل ہے۔آزاد کشمیر میں گلگت بلتستان کی کہانی دہرانے سے کشمیر کاز اور پاکستان کی ساکھ مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پہ بھی شدید نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے جس کے اثرات علاقائی سا لمیت پر بھی برے طور مرتب ہو سکتے ہیں۔اگر آزاد کشمیر کی حاکمیت پر شب خون مارا گیا تو یہاس بات کا کھلا اعلا ن ہو گا کہ پاکستان انتظامیہ تقسیم کشمیر کو قطعی حیثیت دینے کے اقدامات میں دلچسپی رکھتی ہے ۔
آزاد کشمیر میں 2021 کو نئے الیکشن جون یا جولائی میں متوقع ہیں۔ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کی تیاریاں جاری ہیں، الیکشن ایکٹ 2020 اور نئے رولز کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے اور الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن کی درخواستیں دینے والی سیاسی جماعتوں سے اکائوئنٹس تفصیلات طلب کی ہیںاور اس وقت ووٹر فہرستوں کی تیاری کا عمل جاری ہے۔آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے الیکشنز ایکٹ 2020 کی دفعہ 128 کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے 25 سیاسی جماعتیں جن میں آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، نظام مصطفی کانفرنس، آل کشمیر پارٹی، اللہ توکل پارٹی، جعفریہ سپریم کونسل، جماعت فلاح انسانیت، جمعیت علمائے جموں و کشمیر، جموں و کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی، جموں و کشمیر نیشنل لبریشن لیگ، جموں و کشمیر قومی موومنٹ، جموں و کشمیر لبریشن لیگ، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، جموں و کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ، مجلس وحدت المسلمین، مرکزی جمعیت اہلحدیث، مشن کشمیر ٹاسک فورس، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو، پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، صدائے حق پارٹی، تحریک تحفظ انسانی حقوق پارٹی، تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں وکشمیر کو رجسٹرڈ کیا ہے جو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گی۔
یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ آزاد کشمیر کی قد آور شخصیات بھی پاکستانی حکومتوں کی یکطرفہ طور پر تھونپے گئے احکامات کے خلاف سٹینڈ نہ لے سکیں۔24اکتوبر1947کو قائم ہونے والی آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کی حکومت اور پاکستان حکومت کے درمیان28اپریل1949کو'' معاہدہ کراچی'' کا اعلان کیا گیا۔بقول سردار ابراہیم ( مرحوم)انہوں نے معاہدہ کراچی کی فائل بغیر دستخط کئے واپس بھیج دی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے دستخط کے ساتھ معاہدہ جاری کر دیا گیا۔ چودھری غلام عباس نے معاہدہ کراچی پہ اپنے دستخط کے ساتھ ایک مختصر نوٹ میں لکھا کہ انہیں صرف مسلم کانفرنس سے متعلقہ امور پر اتفاق ہے۔1974کا ایکٹ اسلام آباد کی طرف سے یوں تھونپا گیا کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں اس کی منظوری میں ہی عافیت سمجھی گئی۔اس کے دو تین سال کے اندر آزاد کشمیر حکومت کے ذریعے مزید ترامیم کراتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو مزید مجبور اور بے بس رکھنے کے اقدامات کئے گئے۔
آزاد کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب آزاد کشمیر حکومت کو انتظامی اور مالیاتی طور پر مضبوط بنانے کے لئے 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر کی اپنی رائے کے مطابق اقدام کیا گیا ۔اسلام آباد سے آزاد کشمیر حکومت پر مختلف حوالوں سے ایک عرصہ سخت دبائو ڈالا گیاکہ ان کی طرف سے فراہم کردہ نکات کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات کم کرنے کے لئے 14ویں آئینی ترمیم کی جائے لیکن وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے تمام تر دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ عمران خان حکومت کی طرف سے بھرپور دبائو ڈالا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت کو حاصل اختیارات کم کرنے اور کشمیر کونسل کو اختیارات واپس منتقل کرنے کے لے 14 ویںآئینی ترمیم منظور کی جائے لیکن وزیر اعظم آزاد کشمیر اور ان کی پارلیمانی پارٹی نے ہر دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے عمران خان حکومت کی ' ڈکٹیشن' قبول نہیں کی اور وفاقی حکومت کی من مانی آئینی ترامیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اسلام آباد کی طرف سے تجویز کردہ آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے 14ویں آئینی ترمیم میں صرف ججز کی تقرری کے معاملے کو موضوع بنایا گیا۔یہ بھی آزاد کشمیر کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ جب آزاد کشمیر کی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں وفاقی حکومت کی طرف سے 14ویں ترمیم کے مجوزہ نکات کو مسترد کیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر کا بجٹ ایک کھرب انتالیس ارب تک لیجانے اور آزاد کشمیر میں گزشتہ 73 سال سے زیادہ ترقیاتی بجٹ دینے اور کئی دیگر اہم اقدامات سے قطع نظر آئینی ترامیم سے آزاد کشمیر کو مالیاتی اور انتظامی طور پر مضبوط بنانا وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کا ایسا سیاسی کارنامہ ہے جو تاریخ میں ایک منفرد اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جب کسی حکومت نے اپنی رائے کے مطابق نہایت اہم آئینی ترامیم کی ہیں ورنہ اس سے پہلے معاہدہ کراچی سے لیکر 1974 کے آئین اور پھر1977 تک مختلف آئینی ترامیم وفاقی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت پر تھونپی جاتی رہی ہیں۔بڑے لیڈر ہونے اور معاہدہ کراچی سے اتفاق نہ رکھنے کے باوجود وہ معاہدہ تقریبا یکطرفہ طور پر لاگو کر دیا گیا اور اختلاف کے باوجود بڑے لیڈر اس پر صدائے احتجاج بھی بلند نہ کر سکے۔اب بھی آزاد کشمیر میں ایسے افراد قطار لگائے کھڑے نظر آتے ہیں کہ اگر انہیں آزاد کشمیر حکومت میں لایا جائے تو وہ پاکستان انتظامیہ،وفاقی حکومت کی ہر ہدایت پر انگوٹھا ثبت کو تیار ہوں گے۔
مسلم کانفرنس کی فوج کے سیاسی کردار کی حمایت کی پالیسی اور وزیر اعظم عمران خان سے رابطوں کو دیکھتے ہوئے مسلم کانفرنس کا شمار عمران خان کے ایک حلیف کے طور پر کیا جا سکتا ہے،لیکن اس کے باوجود مسلم کانفرنس کی قیادت کے لئے آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان محمود یا کسی اور شخصیت کے پیچھے چلنا بہت مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے، اور ابھی تک کے رجحانات سے بھی ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ مسلم کانفرنس کی قیادت آزاد کشمیر میںپی ٹی آئی کی مقامی صدارت کے پیچھے چلے گی۔آزاد کشمیر میں 'پی ٹی آئی'نہایت کمزور پوزیشن میں باہمی انتشار کا شکار ہے اور اس امید میں مبتلا ہے کہ غیر مرئی قوتیں گلگت بلتستان اور پاکستان کے الیکشن کی طرح الیکشن جیتنے والے امیدواروں کو مختلف سیاسی جماعتوں چھوڑنے اور پی ٹی آئی میں شامل کراتے ہوئے ، آزاد کشمیر کا اقتدار ' پی ٹی آئی' کی گود میں ڈال دیا جائے گا۔ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی سے وابستہ اور اس کے خیر خواہ اسی سیاسی خواب کو مشترکہ طور پردیکھتے ہوئے آزاد کشمیر کی چند مختلف شخصیات ،گروپ ایک دوسرے کا نیچا دکھانے کی کوشش میں ہیں تاکہ آئندہ حکومت گلگت کی طرح اقتدار ان کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔
پاکستان میں' پی ٹی آئی' حکومت نازک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ 'پی ڈی ایم' کے کامیاب جلسوں، اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے آزادانہ ،منصفانہ و شفاف الیکشن اور آئین و پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی کے عزم اور اس بیانئے کی ملک بھر میں وسیع حمایت نے عمران خان حکومت کو نازک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ ہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی عمران خان اور ان کے ساتھی یوں ناکام ہیں کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو صرف ایک ہی دلیل ہے کہ '' فوج ہمارے ساتھ ہے''۔ ایسی صورتحال سے دوچار' پی ٹی آئی' حکومت کے لئے بہت مشکل ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں مضبوط پوزیشن کے طور پر سامنے آیا جا سکے۔ اگر آزاد کشمیر الیکشن میں پی ٹی آئی مضبوط حیثیت سے مقابلے میں آتی ہے تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہو گا کہ فوج ان کی ممود و معاون ہے اور یہ کہ ہندوستان کی مودی حکومت کی طرف سے 5اگست2019 کے اقدامات کی روشنی میں تقسیم کشمیر کے لئے اپنی معاونت فراہم کی جار ہی ہے۔
|