کوئی کتاب قاتل بھی ہوسکتی ہے ؟ یہ بات نہ صرف حیران کن
ہے بلکہ آپ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے یہ سوال ذہن میں آتے ہی خطرے
کی گھنٹیاں بجناشروع ہوجائیں گی اور لوگ کتابوں کو چھونے سے بھی ہچکچائیں
گے ۔ جی ہاں یک کتاب شایڈ آپ نے اس کا نام بھی نہ سناہو اسے قاتل کتاب کا
نام س دیاگیاہے جس میں واضح طورپرتحریرہے ’خبردار! اس کتاب کے صفحوں پر لگا
ہوا زہر آپ کی جان بھی لے سکتا ہے!‘‘ یہ خلاصہ ہے اس وارننگ کا جو 1874 میں
’’موت کی دیواروں کے سائے‘‘ Walls of Death from shadows کے عنوان سے شائع
ہونے والی کتاب میں نمایاں طور پر لکھی ہے۔ یہ کتاب انتہائی زہریلی ہے جسے
ایک امریکی سرجن اور کیمیا دان، ڈاکٹر رابرٹ ایم کیڈزی نے مشی گن سے شائع
کروائی تھی جنہیں لوگ خبطی کہاکرتے تھے ۔ صرف 100 صفحوں والی اس کتاب کے 86
صفحات ایسے آرائشی وال پیپرز کے نمونوں پر مشتمل ہیں جن کی تیاری میں
سنکھیا (آرسینک) کا استعمال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ آرسینک اتنا زہریلا
ہوتا ہے کہ اس کی صرف چند ملی گرام مقدار بھی انسان کو قتل کرنے کیلیے کافی
ہوتی ہے، تاہم یہ بات اْس زمانے میں صرف ایک مفروضہ تھی۔ ایک سرجن اور
کیمسٹ کی حیثیت سے ڈاکٹر رابرٹ کو آرسینک کے ان زہریلے کا بخوبی اندازہ تھا
جبکہ اْن دنوں امریکا میں آرسینک والے آرائشی وال پیپرز کا خوب استعمال
ہورہا تھا جسے سجاوٹ کے لئے گھروں اور دفاترمیں کثرت سے استعمال کیا
جاتاتھا جیسے آج کل وال پیپر الگائے جارہے ہیں ڈاکٹر رابرٹ کو ایسے کئی
واقعات کا بخوبی علم تھا کہ جب لوگوں نے اپنے گھروں کی اندرونی خوبصورتی
میں اضافے کیلیے وال پیپرز لگوائے تھے لیکن اس کے بعد اہلِ خانہ میں بیماری
اور ناگہانی اموات میں حیرت انگیزطورپر اضافہ ہوتا چلاگیا ڈاکٹرموصوف نے اس
کا سنجیدگی سے جائزہ لیا اس نے اس بارے لوگوں کو کئی مرتبہ خبرداربھی
کیالیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی ڈاکٹر رابرٹ کا یہ مفروضہ ماننے کو تیار
نہیں تھا اکثریت ڈاکٹر رابرٹ کی باتوں کو جھوٹ سمجھتی رہی کچھ نے تو اسے
سستی شہرت کا حصول قراردیا کہ لوگوں میں بیماریوں اور درجنوں افراد کی موت
کی وجہ وال پیپر میں استعمال ہونے والا آرسینک ہے۔ تنگ آکرلوگوں کو اپنی
بات سمجھانے اور عملاً ثابت کرنے کیلئے ڈاکٹر رابرٹ نے یہ کتاب چھپوائی اور
تنبیہی عبارت کے ساتھ مختلف امریکی لائبریریوں کو یہ کتاب ارسال
کردی۔زہریلی کتاب کے ہمراہ بھیجے گئے مراسلہ میں ہر خط میں ڈاکٹر رابرٹ نے
لائبریرینز کو واضح الفاظ میں ہدایت کی تھی کہ وہ اسے بچوں کی پہنچ سے دور
رکھیں اور کسی شخص کو بھی دستانے پہنے بغیر اس کتاب کو ہاتھ لگانے نہ دیں۔
اس واضح ہدایت کے باوجود، بہت سے لوگوں نے اسے مذاق سمجھا اور اپنی بد
احتیاطی سے باز نہ آئے اور یہ کتاب پڑھنے کے چکر میں اپنا موت کے منہ میں
چلے گئے کیونکہ کچھ منچلوں میں Walls of Death from shadows پڑھنے کا
کریزہوگیا اور انہوں نے دھڑا دھڑ لائبریریوں کا رخ کرناشروع کردیا اس دور
میں لوگوں کو مطالعہ کا بہت شوق تھا آج طرح سوشل میڈیا،سمارٹ ٹی وی وغیرہ
تو موجودنہیں تھے تھیٹر کے بعد مطالعہ ہی واحد تفریح سمجھی جاتی تھی ۔ کئی
افراد مرنے اور درجنوں میں زہر پھیل جانے کے باعث اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ
آرسینک وال پیپر کے زہریلے اثرات کے بارے میں ڈاکٹر رابرٹ جو کچھ کہہ رہے
تھے وہ بالکل درست تھا کیونکہ لوگ مطالعہ کے دوران ورق گردانی کرتے ہوئے
انگلیوں پر تھوک سے نمی لگاتے تھے جیسا کہ نوٹ گنتے وقت لگایاجاتاہے اس
کتاب کی صرف 100 نقلیں (کاپیاں) بنائی گئی تھیں مگر ان واقعات کے بعد تمام
عوامی کتب خانوں (پبلک لائبریریز) نے اس قاتل کتاب کے تمام نسخے جلا دیئے۔
آج اس کتاب کی صرف چار کاپیاں ہی باقی رہ گئی ہیں جن میں دو مشی گن کی الگ
الگ جامعات میں، تیسری ہارورڈ یونیورسٹی میڈیکل اسکول کے میوزیم میں جبکہ
چوتھی ’’نیشنل لائبریری آف میڈیسن‘‘ میں رکھی گئی ہیں۔ ان نسخوں کے کیمیائی
تجزیئے سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ واقعی بہت زہریلی کتاب ہے جسے دستانے اور
ماسک پہنے بغیر چھونے والے کی جان بھی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا
کہ ڈاکٹر رابرٹ کی یہ تشہیری مہم جلد ہی رنگ لے آئی اور وال پیپر کے علاوہ
دوسری کئی مصنوعات میں بھی سنکھیا ( آرسینک) کا استعمال بند کردیا تھا۔
’’دنیا کی سب سے زہریلی کتاب‘‘ کا اعزاز آج تک اسی کتاب کے پاس ہے کیا آپ
نے ایسی کتاب دیکھی یا پڑھی ہے جواب ضرور دیجئے۔ |