عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی یہ تاثر دیا گیا کہ “آ
گیا وہ شاہکار جس کا انتظار تھا”، جس انقلاب کی راہ قوم دہائیوں سے دیکھ
رہی تھی وہ اب ان کی دہلیز تک پہنچ گیا ہے، ایک نیا سورج طلوع ہو گیا
ہے۔لیکن صرف اڑھائی سال میں یہ غلط فہمیاں ختم ہو گئیں، عمران خان جنھیں
قوم کا حسین خواب بنا کر پیش کیا گیا تھا وہ ایک ہولناک تعبیر ثابت ہوئے،
ایک ڈروانا سپنا بن کر رہ گئے،تعمیر کے بجائے تخریب کی علامت بن گئے، لوگ
پہلے تو میڈیا کے پراپیگنڈے کے زیر اثر اس بھیانک تعبیر کوسمجھ نہ سکے کیوں
کہ پہلے توجہ سابقہ وزرائے اعظموں کی کرپشن پر دی جا رہی تھی، سابقہ
حکومتوں کی نااہلی کا غلغلہ بلند کیا جا رہا تھا،گائیں بھینسیں بیچی جا رہی
تھیں، مرغیوں اور انڈوں کی تقسیم سےانقلاب آنے کی نوید سنائی دی جا رہی تھی،
آئی ایم ایف کےقرضے پر نفرین بھیج کر خود کشی کے منصوبے بن رہے تھے، دوست
ممالک کے سربراہوں کی گاڑیاں ڈرائیو کی جا رہی تھیں۔ مخالفین کو بھیڑ
بکریوں کی طرح جیلوں میں دھکیلا جا رہا تھا، اپوزیشن کے ہر فرد، ہر پارٹی
کا جی بھر کر میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا گویا تبدیلی کے نعرے چہارسو گونج رہے
تھے۔
حکومت کے دو سال مکمل ہونے کے بعد جب تبدیلی کے ڈھول کا پول کھلا اور اس سے
لوگ بور ہونے لگے تو سب کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ کیا دھوکہ ہو گیا ہے،
ان کو کس المناک صورت ِحال کا سامنا ہے۔ لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوا اور
دو سال میں ان کے روزگار ختم ہو گئے ، کروڑوں لوگ خط ِناداری سے نیچے دھکیل
دیے گئے، بھوک گھروں میں راج کرنے لگی، افلاس آنگنوں میں رقص کرنے لگا،
کاروبار بند ہوگئے، ملکی ترقی تنزلی میں تبدیل ہوگئی، ترقیاتی منصوبے جہاں
تھے وہیں رک گئے، علاج مہنگا ہو گیا ، تعلیم مہنگی ہوگئی، اشیائے خورونوش
کمیاب اور انمول ہونے لگیں، بجلی اور گیس کے بل بڑھنے لگے، قرض میں اضافہ
ہونے لگا، پٹرول کی قیمت روز بروز بڑھنے لگی، دنیا میں رہی سہی عزت بھی ہم
گنوانے لگے، خارجہ پالسی تماشہ بن گئی ،کشمیر ہاتھ سے نکل گیا، وزیر اعظم
کے لطیفے زبان ِزد ِعام ہونے لگے، کابینہ میں اقربا پروری کی روش مقبول
ہونے لگی، وزرا کی کرپشن اور وزیر اعظم کی نااہلی کے قصے منظر عام پر آنے
لگے، میڈیا میں حوالدار صحافی بھی کرب کے مارے بلبلانے لگے تب لوگوں کو
ادراک ہوا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، ہمارے ساتھ ریاست ِمدینہ کے نام پر
فراڈ کیا گیا ہے، ہمارے ساتھ نئے پاکستان کے پردے میں ہاتھ ہو گیا ہے
|