لگ رہا ہے کہ یزید وقت پھر سر اٹھا اٹھا رہے ہیں۔ معمول
کے مطابق بڑی بزدلی کے ساتھ اپنی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ افسوس کی بات یہ
ہے کہ جو ظلم کر رہا ہے وہ تو ظالم ہے ہی پر وہ بھی ظلم میں برابر کے شریک
ہیں جو چپ سادھ کر بنا مظلومین کے حق میں آواز بلند کیے بیٹھے ہیں۔ اچھی
بات ہے جس جگہ جہاں ظلم ہو چاہے وہ مسلم پر ہو یا غیر مسلم پر آواز اٹھانا
ہمارا فرض ہے مگر افسوس کے ساتھ آج ہمارے ملک میں بیٹھا مسلمان بھارت میں
موجود سکھوں پر ظلم و ستم پر آواز اٹھاتا ہے پر گر چپ رہتا ہے تو وہ اپنے
ملک میں بہایا گیا خون ہے۔ ایک کمیونٹی کے ساتھ دہائیوں سے ظلم و ستم ہو
رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ اس وقت مردہ دل ہونے کا ثبوت فراہم
کر رہا ہے۔ آج لوگوں کو اسلام کے نام پر اسلام ہی سے اتنا دور کر دیا گیا
ہے کہ غریب لانے کا سوچنا بھی قدرے مشکل کام ہے۔ آج ہر شخص کا اپنا بنایا
ہوا دین ہے۔ آج اگر ہم میں سے ہر شخص صرف ایک مسلم لفظ کی تعریف جاننے کی
کوشش کرے تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کسک جائے۔ اگر اسے پھر بھی سمجھ نہ
آئے تو وہ اسلامی تاریخ میں لفظ مسلم کو ڈھونڈے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں
لوگ مذہبی نقطہء نظر سے دوسرے شخص کو دیکھتے ہیں۔ ہر شخص خود کو مسلمان و
مرد مومن سمجھتا ہے مگر ان تمام صفات سے کوسوں دور ہے۔ آج ہر دوسرے بندے کو
کافر کہلایا جا رہا ہے۔ ہر شخص کہتا ہے کہ میرا دین،میرا عقیدہ سب سے بلند
و اعلیٰ ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بھی دین اس کے پاس ہے اس پر عمل
نہیں ہے۔ جن لوگوں نے معصوم گھروں سے دور لوگوں کا خون بہایا انہیں آخر
کیوں اپنی جنت دوسرے لوگوں کے خون میں نظر آتی ہے۔ جہاں جس دین میں ایک
انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہو۔ اسی دین کے نقطہء نظر پر
بنائے جانے والے ملک میں 11 گلے کٹ جائیں پر حکمرانوں اور میڈیا کو سانپ
سونگھ لے ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ آج عوام کی اس چیز سے واقفیت ہونا
بے حد ضروری ہے کہ یہ یزیدی لوگ کسی کے نہیں۔ ان کا اہم مقصد ملک میں فرقہ
واریت کو پھیلانا ہے۔ اگر آج یہ ایک کمیونٹی کے ساتھ ہوا تو ہمارے ساتھ بھی
کل کو ہو سکتا ہے۔کیونکہ ان لوگوں کا کوئی دین و ایمان نہیں ان کا مقصد
زمین خدا پر فسادات کرانا ہے۔ خدارا جاگیے اب ذات،رنگ،نسل اور زبان سے باہر
آیئے۔ آج کے دور میں بے گناہ بہاہے جانے والے ایک انسان کے خون کو اپنا خون
جانئیے اور آواز اٹھائیے۔ ان لوگوں نے تمام پاکستانیوں کو اس آگ میں جھوکنا
ہے جو اب اس ظلم پر آواز نہیں اٹھاتا تو اس کا ضمیر اس بات کی گواہی دے رہا
ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ مسلمان ہی وہ ہے جو ناحق بہاہے جانے والے خون پر آواز
اٹھائے جہاں تک ہو سکے معاشرے میں بھلائی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
پچھلے تمام واقعات کی طرح ان کا حل زبانی نہیں بلکہ عملی ہونا ضروری ہے۔ ہر
شخص کو حکومت وقت سے یہ اپیل کرنی چاہیئے کہ ان بے گناہ لوگوں کے خون کو نہ
بھلایا جاہے اس پر سخت سے سخت ایکشن اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں انہیں سخت
سے سخت سزا دینی چاہئے۔ پاکستانی افواج کو بھی ایک بار پھر وزیرستان کی طرح
بلوچستان میں بھی آپریشن کرنا چاہئے اور وہاں موجود داعش اور RAW کے
ایجنٹوں کو واصل جہنم کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ ہم امید کرتے ہیں ایسا ہو گا۔
کیونکہ ان تمام مظلوموں کے گھر والے اور تمام محب وطن پاکستانی ان کے ایک
ایک خون کے قطرے کا حساب چاہتے ہیں۔
|