دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے ’’علم حاصل کرو گود
سے گور تک‘‘ کیونکہ علم سے ہی انسان اپنی خواہشوں کی منزل پا سکتا ہے، جن
ممالک میں تعلیم کے فروغ پر توجہ نہیں دی جاتی ان ممالک کے عوام غیر مہذب
قوم کہلاتے ہیں اور تعلیم یافتہ ممالک کا معاشرہ تہذیب و تمدن اعلی ہوتا
ہے۔ علم کا زیور انسان ماں کی گود سے لے کر آخری سانس چلنے تک حاصل کرتا
رہتا ہے، کچھ علم تعلیمی اداروں سے حاصل ہوتا ہے اور کچھ انسان معاشرے کے
نشیب و فراز سے گزر کر حاصل کرتا ہے، تعلیمی اداروں سے پڑھ کر بڑی تعداد
سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے عہدوں پر بھی فائز ہوتے ہیں اور ترقی کرتے
کرتے بڑے عہدے تک کی منزل پا لیتے ہیں، مگر کسی بھی اہم عہدہ پر تعیناتی
کیلئے تعلیم اور اعلی تعلیم پر عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، ہمارے ملک
میں کسی بھی عہدے پر پہنچنے کیلئے غریب کی اولاد کو تو کئی امتحانوں سے
گزرنا پڑتا ہے، لیکن جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیروں اور صاحب حیثیت لوگوں کی
اولادیں شارٹ کٹ کے ذریعے اہم عہدوں پر تعینات ہو کر مستحق غریب کے بچوں کا
حق سلب کرتی آ رہی ہیں، یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے اور غریب والدین جو
اپنے بچوں کے سہانے مستقبل کا خواب اپنی کمزور آنکھوں کو دکھاتے ہیں انہیں
محنت مشقت سے اپنے اور اپنے کنبے کا پیٹ کاٹ کر پڑھاتے اور اعلی تعلیم
دلواتے ہیں ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، یہ کوئی نئی بات بھی نہیں
کیونکہ ہمارے ملک میں جینے کا اصل حق بھی امراء ہی کو ہے، غریب تو یہاں سسک
سسک کر زندگی گزارنے کیلئے دنیا پر آتا ہے بلکہ اس بوسیدہ نظام کی خرابی کی
وجہ سے کیڑے مکوڑے کی زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال گزشتہ روز اس وقت دیکھنے میں آئی جب پنجاب پبلک سروس کمیشن
کے تحت تحصیلداروں کی بھرتی کیلئے پیپر شروع ہونے سے نصف گھنٹہ قبل منسوخ
کر دیا گیا، جس میں پنجاب میں تحصیلدار کی 58 آسامیوں کیلئے ایک لاکھ سے
زائد امیدوار امتحان دے رہے تھے، پرچہ منسوخی کی وجہ یہ سامنے آئی کہ
تحصیلدار کی بھرتی کیلئے پیپر فروخت کرتے ہوئے اینٹی کرپشن حکام نے پبلک
سروس کمیشن کے ڈیٹا انٹری آپریٹر محمد وقار، محمد عنصر، گوہر علی اور مظہر
عباس کو گرفتار کیا ہے، ملزمان کو اینٹی کرپشن کی اعلی سطحی ٹیم نے سٹنگ
آپریشن کر کے پکڑا،جن سے اینٹی کرپشن کی ٹیم نے تحصیلدار کے پرچہ کیلئے
رابطہ کیا تو ملزمان نے 15 لاکھ کی ڈیمانڈ کی اور 8 لاکھ میں معاملہ طے
پایا، ملزمان علی الصبح یو ایس بی میں پرچہ لے کر آئے تو اینٹی کرپشن کی
اعلی سطحی ٹیم نے انہیں دھر لیا، پی پی ایس سی حکام سے رابطہ کیا تو ملزمان
سے نکلنے والا وہی پرچہ تھا جو تحصیلدار کے امیدواروں کو امتحان کے موقعہ
پر دیا جانا تھا، ابتدائی پوچھ گچھ میں پکڑے جانے والوں نے انکشاف کیا کہ
وہ عرصہ دراز سے سرکاری اہم عہدوں ڈپٹی اکاؤنٹ آفیسر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر
اینٹی کرپشن، انسپکٹر اینٹی کرپشن، لیکچرر کیمسٹری اور لیکچرر ایجوکیشن کے
یپپر عرصہ دراز سے فروخت کر رہے تھے، گینگ کے ارکان امیدوار سے انٹرویو سے
لے کر پاس کرانے (یعنی عہدہ پر تعیناتی کے آرڈر) تک کی رقم وصول کرتے تھے۔
شاباش اینٹی کرپشن یہ اس محکمہ کی کارکردگی کی تاریخ میں ایک منفرد اور
اپنی نوعیت کی اعلی کاروائی ہے۔ اگر ادارے اسی طرح ذمہ داری سے اپنے فرائض
سر انجام دیتے رہیں تو یقینا تمام تر معاشرتی برائیاں اور نا ہمواریاں اپنی
موت آپ مر جائیں گی جس سے ملک میں انصاف اور میرٹ کا بول بالا ہوگا۔ یہ ایک
قومی سکینڈل ہے جس میں امراء کی اولادیں ایسے گروہوں سے پیپر خرید کر غریب
کے بچوں جو کہ عہدوں کے اصل مستحق تھے کا حق مارتے رہے ہیں، ایک گروہ تو
پکڑا گیا ہے اس طرح کے کئی گروہ اور بھی موجود ہونگے، جن کی گرفتاری کیلئے
بھی سٹنگ آپریشن کی ضرورت ہے، اس گروہ کے پکڑے جانے پر عرصہ دس پندرہ سال
کے دوران متذکرہ عہدوں پر امتحان دے کر افسر بھرتی ہونے والوں پر بھی
سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ان کی تعیناتیاں مشکوک ہو گئی ہیں، کیونکہ گروہ
نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ عرصہ دراز سے ڈپٹی اکاؤنٹ آفیسر، اسسٹنٹ
ڈائریکٹر اینٹی کرپشن، انسپکٹر اینٹی کرپشن، لیکچرر کیمسٹری اور لیکچرر
ایجوکیشن کے پیپر فروخت کر رہے ہیں، اس طرح اس گروہ کی وساطت سے افسر بھرتی
ہو کر ترقی کر کے بڑے عہدوں پر پہنچ کر بیورو کریسی کا اہم حصہ بن گئے
ہونگے، یہ وہ بیورو کریسی ہے جو ملک کا نظام چلاتی ہے، اس گروہ کے پکڑے
جانے سے جہاں بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں وہاں محنت و مشقت کر کے حقیقی
معنوں میں تعلیم حاصل کر کے ان عہدوں پر امتحان دینے والے غریب والدین کے
بچوں میں مایوسی پیدا ہو گئی ہے، کیونکہ واضح ہو گیا ہے کہ اعلی عہدوں پر
پیپر ایک عرصہ سے فروخت ہوتے آئے ہیں اور امراء کی اولادوں نے ہر بار غریب
کے بچے کا حق مارا ہے، اینٹی کرپشن حکام نے پکڑے جانے والوں کیخلاف مقدمہ
درج کر لیا ہے جو کہ نا کافی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پکڑے جانے والوں سے کس
حد تک تفتیش ہو پاتی ہے، کیا پکڑے جانے والوں سے یہ اگلوایا جا سکے گا کہ
انہوں نے ماضی میں کن کن کو پرچے فروخت کئے جو اب اعلی عہدوں پر فائز ہیں
اور کیا نشاندہی ہونے پر شارٹ کٹ لگا کر بھرتی ہونے والے افسروں کیخلاف
کارروائی ہو گی؟ کیا پبلک سروس کمیشن میں کئی کئی سال سے کام کرنے والے
افسروں اور ان کے زیر کفالت افراد کی نامی و بے نامی املاک بابت تحقیقات ہو
گی، کیونکہ ذرائع کہتے ہیں کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں عرصہ سے ایسے
امیدوار پاس ہو رہے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق اس ادارہ میں کام کرنے
والے اعلی افسروں کے آبائی علاقوں اور رشتہ داروں سے ہے۔
عوام بالخصوص ایسے غریب عوام کی اولادیں جو محنت و مشقت سے پڑھ کر ان عہدوں
کے لئے امتحان دیتے ہیں اس قومی سکینڈل کے انکشاف پر وزیر اعظم عمران خان
جو کہ ہر محکمہ میں میرٹ پر کام ہونے کا دعوی کر رہے ہیں کی طرف نظریں
لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اس سکینڈل کے انکشاف پر کیا قدم اٹھاتے ہیں؟
|