سلامتی کونسل کی رکنیت کا جشن،بھارت کا کشمیر میں قتل عام

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دو سال کے لئے غیر مستقل رکن بننے کا جشن مناتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں قتل عام تیز کر دیا ہے۔ سرینگر کے نزدیک مظفر آبادروڈ پر واقع لاوے پورہ میں بھارتی قابض فورسز کے مشترکہ آپریشن کے دوران بلا اشتعال قتل کئے گئے تین نہتے کشمیری نوجوانوں کے افراد خانہ اور رشتہ دارکئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔مگر کوئی ان کی سننے والا نہیں۔کشمیریوں کو کوئی انصاف دلانے والا نہیں۔وہ لاشوں کی واپسی اور نام نہاد فورسز کے آپریشن کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے بالکل بے قصور ہیں، جنہیں فرضی تصادم میں قتل کیاگیا۔وہ سخت سردی اور برستی برف میں ــ’’ہمیں انصاف دو، انکوانٹر کی تحقیقات کرو، لاشیں واپس کرو‘‘جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔احتجاج کے شرکا آہ و بکا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں’’ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے، یہ ظلم دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ہونا چاہیے، کیا یہی وہ امن ہے‘‘۔16 سالہ شہید نوجوان اطہر مشتاق کے والد مشتاق احمد کا کہنا ہے’’میں مزدوری کرتا ہوں، میں نے سوچا تھا کہ اپنے بیٹے کو ایک بڑا افسر بناؤں گا، لیکن ظالموں نے میرے بیٹے کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا، میرا بیٹا 16 سال کا تھا، اس نے تمہارا (انڈیا)کیا بگاڑا تھا‘‘۔’’مجھے پیسے نہیں ،بیٹے کی لاش چاہیے،مجھے میرے بیٹے کی لاش دے دو،کیا بھارتی فوجی میرے جگر کے ٹکڑے کو مجھ سے چھین کر خوش ہو گئے ہیں‘‘۔اطہر مشتاق کی خالہ نے کہا’’اطہر ہمارا اکلوتا بیٹا تھا، ہم سے ہمارا گردہ نکالا گیا ہے، ہمیں اس کی لاش واپس چاہیے، ہم اس کی دوری برداشت نہیں کر سکتے ہیں، ہم نے اس کے لئے قبر بھی خود تیارکر رکھی ہے‘‘۔ان کے دو مطالبات ہیں، ایک کیس کی تحقیقات کی جائے اور دوسرا لاشیں واپس کی جائیں۔’’گھر والوں کو لاشیں نہ دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آپ ایک مردہ لاش کو دینے سے کیوں ڈر رہے ہیں، انڈیا کا فوجی کوئی فرشتہ نہیں ہے، شوپیاں فرضی تصادم ہمارے سامنے ایک مثال ہے‘‘۔ان کا مزید کہنا تھا’’آپ نے ہم سے ہمارے تین نوجوان چھیننے ہیں، اگر وہ مسلح تحریک کا حصہ تھے تو ہمیں اس کا ثبوت دیں، آپ عدالت، وکیل اور جج خود نہیں بن سکتے، اطہر ایک نابالغ لڑکا تھا، اس پر کوئی بڑا کیس نہیں بن سکتا تھا‘‘۔

30 دسمبر2020 کو ہونے والے لاوے پورہ فرضی تصادم میں بھارتی فورسز نے تین جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جنہیں وہاں سے تقریباً ایک سو کلو میٹر دور کرگل شاہراہ پر سونہ مرگ میں سپرد خاک کیا گیا۔قتل کئے گئے نوجوانوں کی شناخت اعجاز احمد گنائی، اطہر مشتاق اور زبیر احمد کے بطور ہوئی تھی۔ قابض فوج کا الزام ہے کہ مہلوکین جنگجو تھے جوسرینگر مظفر آباد شاہراہ پر ایک بڑی کارروائی انجام دینے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔پولیس نے مہلوکین کے بارے میں جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ مہلوکین میں سے دو جنگجووں کے اعانت کار تھے جبکہ تیسرے نے ممکنہ طور جنگجووں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔بھارتی فوج ہمیشہ نہتے کشمیریوں کو فرضی جھڑپوں میں قتل کرنے کے بعد ان پر جنگجو ہونے کے الزامات لگا دیتی ہے۔ کشمیرپولیس بھی بھارتی فوج کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔اس نے پیر کو2 ویڈیوز جاری کئے جس میں لاوے پورہ فرضی جھڑپ میں جنگجوؤں کوسرینڈر یا خود سپردگی کی پیشکش کرتے ہوئے دکھا یا گیا ہے۔ ویڈیو میں ایک ڈرون بھی مقام جھڑپ کے نزدیک فضا میں اڑتا نظر آرہا ہے،جبکہ کوئی فوجی سرنڈر کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔یہ بھارتی فورسز کا ڈرامہ کشمیری ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں۔

لاوے پورہ فرضی جھڑپ میں جنوبی ضلع پلوامہ اور شوپیان سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کی بیہمانہ ہلاکت کے بعد پلوامہ میں مسلسل سات روزسے موبائیل اور انٹر نیٹ خدمات معطل ہیں جس کے نتیجے میں صارفین کو شدید مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مگر بھارت کو کشمیریوں کی مشکلات سے کیا لینا دینا۔ بھاری حکمران نہتے عوام کو زیادہ سے زیادہ مشکلات میں ڈالنے سے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

لاوے پورہ کا قتل عام امشی پورہ شوپیان کی انکوائری رپور ٹ سامنے آنے کے موقع پر رونماہوا ہے،اورامشی پورہ انکاؤنٹرمیں بھارتی قابض آرمی کے ایک کیپٹن کوجعلی مقابلے کیلئے قصوروار اور ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔مگر قاتل بھارتی فوجیوں کو کوئی سزا نہیں دی جاتی۔بلکہ ان کو قتل عام کے میڈلز دیئے جاتے ہیں اور سٹارز لگائے جاتے ہیں۔

بھارتی حکومت اور ان کی کٹھ پتلی گورنر انتظامیہ کشمیریوں کی نعشیں لواحقین کے سپردکرنے سے گریز کر رہے ہیں تاکہ وہ اُن کی تجہیزوتکفین انجام دے سکیں۔گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر میں یہی ظالمانہ پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبات کو نظر انداز کر رہا ہے۔بھارت نے ایک بار پھرتین نہتے نوجوانوں کوقتل کیا اور بعد میں اُنھیں عسکریت پسند قرار دیا۔قابض انتظامیہ تینوں مہلوکین کی نعشوں کو اہل خانہ کے سپرد کرنے سے گھبرا رہی ہے۔کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی قابض گورنر کوخطوط ارسال کر رہے ہیں کہ’’ ایسی ماں جو اپنے پیارے بیٹے کی اچانک اور اذیت ناک موت پر غمزدہ ہے، اسے اسکے چہرے کو دیکھنے کے آخری موقع سے محروم نہیں ہونا چاہئے،نہ وہ اپنے لخت جگر کی لاش کیلئے بھیک مانگنے کی مستحق ہے،یہ غیر انسانی رویہ ناقابل قبول ہے‘‘۔ معاملے کی اعلیٰ سطحی اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کون کرے گا۔بھارت خود ہی قاتل اور خود ہی جج ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کرنا پھر ان کو دہشتگرد قرار دینا اور ان کی لاشیں اُن کے والدین اور اہل خانہ کے سپرد نہ کرنا بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں کی ایک کڑی ہے۔کشمیریوں کواپنے بچوں کی تجہیز و تکفین اور اپنے آبائی قبرستاں میں دفن کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ جس طرح سے بھارت نے دباؤ پر امشی پورہ، شوپیان فرضی تصادم کی تحقیقات کی ، اُسی طرح ہوکرسر،لاوے پورہ فرضی تصاد م کی بھی تحقیقات کی جائے اور قتل کئے گئے نوجوانوں کی لاشیں اُن کے گھر والوں کے سپرد کی جائیں۔ لاوے پورہ تصادم میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کے مطالبے کے حق میں مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال ہے۔شہر سرینگر کے مرکزی علاقوں لالچوک، بڈشاہ چوک، ریگل چوک، مائسمہ، مہاراجہ بازار، گونی کھن،ہری سنگھ ہائی سٹریٹ، بٹہ مالو ،مولانا آزاد روڈ، ریذیڈنسی روڑ میں تجارتی و دیگر متعلقہ سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔شہر خاص کے نوہٹہ، گوجوارہ، نواب بازار، صفا کدل،اور حبہ کدل علاقوں میں بھی بازار بند ہیں، ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل معطل ہے۔پلوامہ اور شوپیان میں بھی سبھی کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں۔مگر جب تک بھارت پر عالمی دباؤ نہیں پڑتا، وہ غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات سے گریز کرتا رہے گا۔ امید ہے عمران خان حکومت اس سلسلے میں عالمی برادری کی توجہ کشمیر میں بھارتی قتل عام اور ظلم و جبر کی پالیسی کی جانب گامزن کرانے میں کامیاب ہو گی تا کہ بھارت کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو طاقت سے کچلنے کے لئے مظالم کا سلسلہ بند کرنے پر مجبور ہو۔بھارت سلامتی کونسل کا دو سال کے لئے رکن بننے کا جشن کشمیریوں کا قتل عام کر کے منا رہا ہے۔دنیا بھارت کو اس قتل عام سے روکے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556590 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More