قاری زواربہادرکہتے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن نے
ہرمرتبہ حق فیصلہ کیا۔ وہ کسی دباؤمیں نہیں آئے ۔پراپیگنڈے سے متاثرنہیں
ہوئے۔ کوئی فون کال ان کافیصلہ بدل نہیں سکی۔
سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
’’چانددیکھ کرروزہ رکھو اورچانددیکھ کرافطارکرو یعنی عیدکرو ۲۹ کوچاندنظرنہ
آئے توتیس پورے کرو۔ ‘‘
فوادچوہدری کہتے ہیں(چانددیکھنے کے ) سائنسی طریقے فیصلے ہونے چاہییں۔
سائنسی طریقہ کیاہے۔ سپارکوکانمائندہ پہلے بیٹھاہوتا ہے۔ اکثرمحکمہ موسمیات
کے دفترمیں چانددیکھنے کااہتمام کیاجاتاہے۔ محکمہ موسمیات کے نمائندگان بھی
ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اورفوادچوہدری کے پاس کون سی سائنس آگئی ہے۔جس سے وہ
چانددکھاناچاہتاہے، قاری زواربہادرکہتے ہیں علماء نے چاندکاسوسال
کاکیلنڈرپہلے ہی بنایاہواہے۔ لیکن سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت
مبارک یہی ہے کہ چانددیکھ کے اعلان کیاجائے ۔اورالحمدﷲ وہ
جوچاندکاکیلنڈربنایاہواہے۔ رویت بھی اسی کے مطابق چل رہی ہے۔اس میں کبھی
کوئی اختلاف نہیں آیا۔محکمہ موسمیات والوں نے کبھی اختلاف نہیں
کیا۔سپارکووالوں نے کبھی اختلاف نہیں کیا۔خواہ مخواہ اپنی اناکامسئلہ
بنالیاہے ایک وزیرصاحب نے۔ قوم کواورحکومتوں کومفتی صاحب پراعتمادتھا۔ اس
حکومت نے خواہ مخواہ ان سے پنگالیاہے۔ ان کوشایدیہ خبرنہیں ہے کہ انہوں نے
اپنابہت بڑانقصان کیاہے ۔سیاسی نقصان ۔یہ بڑااہم مسئلہ ہے۔ ہماری عبادات اس
سے وابستہ ہیں۔ ہمارے روزے، ہمارے عیدیں اورہمارے جتنے تہوارہیں اسلامی ۔وہ
سارے چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ ہیں۔اگرآدمی ایسانہ ہوجس
پراعتمادکیاجاسکے ۔اس فیصلے کے نقصانات آگے چل کرخودبخودنظرآجائیں ن گے۔ آپ
نے جوفیصلہ کیا ہے ۔یہ فیصلہ عوام نے قبول نہیں کیا۔آپ اپنے اس فیصلے
پرغورفرمائیں کہ آپ کافیصلہ جوہے ۔یہ فیصلہ نہ ملکی مفادمیں ہے نہ دینی
مفادمیں نہ عوام کے مفادمیں ہے اورنہ آپ کے اپنے مفادمیں ہے۔ سینئرتجزیہ
کارہارون رشیدکہتے ہیں۔کہاجاتاہے مفتی صاحب سائنسی آلات کواہمیت نہیں دیتے
تھے۔ کیوں نہیں دیتے تھے۔ بالکل دیتے تھے۔ محکمہ موسمیات کاایک آدمی
ہوتاتھا ۔ایک آدھ سائنسدان بھی ہوتاتھا۔ پوری احتیاط کرتے تھے۔ کوئی ان کے
دامن کوداغ نہیں ہے۔ آپ ان کے طرزعمل سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ مفتی صاحب
کوہٹاناہی تھا توباعزت طریقے سے ہٹاتے۔
مفتی منیب الرحمن کے بارے میں کہاجاتا رہاہے کہ وہ ملک بھرمیں ایک عیدنہیں
کراسکے۔ جوکام مفتی صاحب کی ذمہ داری ہی نہیں ہے ان کواس کام کاذمہ دار
کیسے ٹھہرایاجاسکتاہے۔ مفتی صاحب کاکام مستندشہادتوں کے بعد چاندکی رویت
کااعلان کرناتھا۔اس پرعمل درآمدکرانانہیں۔ اگرایک منٹ کے لیے مان لیاجائے
کہ مفتی صاحب ہی ملک بھرمیں ایک ہی دن عیدنہ کرانے کے ذمہ دارہیں توکیاملک
میں جتنے سودی نظام بینکاری سمیت جتنے بھی غیرشرعی اورغیراسلامی کام ہو رہے
ہیں ان کی ذمہ داراسلامی نظریاتی کونسل ہے؟۔ اس کے جواب میں کہاجاسکتا ہے
اورکہنابھی یہی چاہیے کہ اس کی ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل نہیں ہے
کیونکہ کونسل کاکام کسی بھی معاملے میں شریعت کی روشنی میں رائے دیناہے کہ
یہ کام شریعت کے مطابق ہے یانہیں۔ اس پرعمل درآمدکرانانہیں وہ حکومت کاکام
ہے۔ اسی طرح چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی حیثیت سے چاندکی رویت
کااعلان کرنامفتی منیب الرحمن کی ذمہ داری تھی جب کہ اس اعلان پر عملدرآمد
کراناحکومتوں کاکام ہے۔ ملک بھرمیں ایک ہی دن عیدکرانے میں مفتی صاحب نہیں
حکومتیں ناکام رہی ہیں۔جومولوی ہرسال قوم کوتقسیم کرتاہے اورایک ہی دن
عیدنہیں ہونے دیتا اس کے خلاف توکوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ جب ملک میں
چانددیکھنے کے لیے مرکزی اورصوبائی رویت ہلال کمیٹیاں کام کررہی ہیں توالگ
سے کسی ایسی کمیٹی کی کیاضرورت ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس مولوی کی اس کمیٹی
کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ایک سال توایسابھی آیاکہ مولوی پولزئی نے ایک دن
پہلے عیدمنائی جب کہ سعودی عرب میں دوسرے دن عیدمنائی گئی۔ موجودہ دورحکومت
کے پہلے سال اسی مولوی کے اعلان کرنے پرخیبرپختونخوا میں سرکاری سطح پرایک
دن پہلے جب کہ ملک کے دیگرصوبوں میں دوسرے دن عیدمنائی گئی۔ فوادچوہدری نے
کہاتھا کہ جس دن کے پی کے میں چاندنظرآنے کااعلان ہوااس دن ملک بھرمیں
چانددکھائی دینے کاکوئی امکان نہیں تھا۔ اس عتراف کے بعدبھی کیایہ گنجائش
رہتی ہے کہ مفتی منیب لرحمن صاحب کوہی ملک بھرمیں ایک ہی دن عیدنہ کرانے
کاذمہ دارٹھہرایاجائے۔ کہاگیاہے کہ مفتی صاحب شہادتیں قبول نہیں کرتے۔
جولوگ چانددیکھنے کی شہادت دیناچاہتے تھے وہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے
سامنے کیوں پیش نہیں ہوتے۔ وہ شہادتیں پوپلزئی کی کمیٹی کے سامنے ہی کیوں
پیش کی جاتی ہیں۔ جب دیکھنے کے دعویدارسرکاری رویت ہلال کمیٹی میں پیش
ہوکرشہادتیں نہیں دیں گے توان کی دی گئی شہادتوں پرسرکاری مرکزی رویت ہلال
کمیٹی کے چیئرمین چاندکی رویت کااعلان کیسے کرسکتے تھے۔مفتی صاحب نے
توکہاتھا کہ جب سے وہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین بنے ہیں ،ملک میں
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر پولزئی کے اعلان پرمنائی جانے والی
عیدوں اورسعودعرب میں منائی جانے والی عیدوں کاریکارڈ چیک کرلیاجائے۔
اگرملک بھرمیں ایک ہی دن عیدنہ ہونے کے ذمہ دارمفتی منیب الرحمن ہی ہیں
تویہ ریکارڈ کیوں نہیں چیک کیاجاتا۔ مفتی صاحب کوجس وجہ سے مرکزی رویت ہلال
کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹایاگیاہے حقیقت میں وہ وجہ نہیں ہے۔ ان
کوہٹانے کی وجوہات اورہیں۔ مفتی منیب الرحمن تحریک لبیک پاکستان کاساتھ
دیا۔ کراچی میں تحفظ ناموس رسالت کے لیے تاریخ سازریلی نکالی۔ حکومت کے
منظورکردہ وقف املاک بورڈ کے خلاف اسلام آبادمیں علماء کرام کے اجلاس میں
شرکت کی۔
ملک بھرمیں عوامی سطح پرمفتی منیب الرحمن کومرکزی رویت ہلال کمیٹی کے
چیئرمین کے عہدے سے ہٹائے جانے سے زیادہ نئی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین
اوراراکین پراعتراض کیاجارہاہے۔ قوم کواس نئی رویت ہلال کمیٹی پراعتمادنہیں
ہے۔ نئے چیئرمین رویت ہلال کمیٹی کہتے ہیں کہ وہ پوپلزئی کوساتھ لے کرچلیں
گے۔ جس کی وجہ سے قوم ملک میں ایک دن عیدنہیں مناسکتی اسی کوساتھ لے کرچلیں
گے۔ حکومت کواپنے اس فیصلے پرنظرثانی کرنی چاہیے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی
کاچیئرمین اورممبران ایسی شخصیات کوبنایاجائے جن پرپوری قوم کواعتمادہو۔یہ
بھی کہاجارہاہے کہ حکومت کی تشکیل کردہ نئی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور
اراکین سرکاری ملازمین ہیں۔ حکومت کورویت ہلال کمیٹی کی تشکیل نوکرتے ہوئے
قوم کے اس اعتراض پربھی توجہ دینی چاہیے۔یہ قوم کی عبادات کامعاملہ ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے ایک دن پہلے رمضان المبارک کے چاندنظرآنے
کااعلان ہوگیا یاایک دن پہلے شوال المکرم کے چاندکی رویت کااعلان ہوگیا اور
قوم کاایک روزہ قضاہوگیاتواس کاذمہ دارکون ہوگا۔ ایک اوربات یہ بھی ہے کہ
اگرمفتی منیب الرحمن کوہٹائے جانے اوررویت ہلال کمیٹی کی تشکیل نوکے بعدبھی
ملک بھرمیں ایک ہی دن عیدنہ کرائی جاسکی توپھراس کی ذمہ داری کس
پرعائدہوگی۔ بہترتویہی ہے کہ مفتی منیب الرحمن کوہی بحال کیاجائے
اگرایسانہیں ہوسکتا تو سیّد علامہ حامدسعیدشاہ صاحب کاظمی، علامہ ثاقب رضا
مصطفائی اورمفتی محمداکمل مدنی میں سے کسی کوبھی رویت ہلال کمیٹی کاچیئرمین
بنادیاجائے تویقین ہے پوری قوم کواعتمادہوگا۔
سوشل میڈیاپرمختلف شخصیات کی طرف سے مفتی منیب الرحمن پراعتراضات کے جوابات
دیے جارہے ہیں۔ ان کومرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹائے
جانے پرتبصرے بھی کیے جارہے ہیں۔
|